ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف پاکستانی کارکردگی کو ناقص قرار دے دیا

جاسم محمد

محفلین
ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف پاکستانی کارکردگی کو ناقص قرار دے دیا
شہباز رانا / ارشاد انصاری اتوار 6 اکتوبر 2019
1832675-moneylaundering-1570382554-259-640x480.jpg

رپورٹ میں کرپشن کی روک تھام کیلیے پاکستانی حکومت کے حالیہ اقدامات کی تعریف کی گئی ہے (فوٹو: فائل)


اسلام آباد: ایف اے ٹی ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف ہماری پیش کردہ سفارشات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا، اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹی کمیشن پاکستان میں سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ایشیا پیسیفک گروپ نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی فنانسنگ روکنے کیلیے پاکستان کی کارکردگی کو ناقص قرار دیتے ہوئے اپنی جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی ریگولیٹرز جن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان شامل ہیں ان کے پاس اس ضمن میں سوجھ بوجھ کی ہی کمی ہے۔

پاکستان نے عالمی تنظیم کی طرف سے پیش کی گئی40 سفارشات میں سے ابھی تک صرف ایک پر مکمل عمل درآمد کیا ہے بقیہ سفارشات میں سے 9 پرکافی حد تک، 26 پر جزوی عملدرآمد کیا گیا جبکہ 4 سفارشات کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا گیا۔

ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کی یہ جائزہ رپورٹ عالمی تنظیم کے اجلاس سے 10 روز قبل جاری کی گئی اور اس کے بعد پاکستان کے تنظیم کی گر ے لسٹ سے نکلنے کے امکانات محدود ہوگئے ہیں، فیٹف کا اجلاس 13 سے 18 اکتوبرتک پیرس میں ہورہا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے کیلیے بہت سے اقدامات کیے ہیں لیکن فیٹف ان سے پھر بھی مطمئن نہیں، ان اقدامات کی ذمہ داری اب ڈی جی ملٹری آپریشنز اور وفاقی وزیر حماد اظہر کے سپرد کی گئی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے درمیانے درجے کے چیلنج کا سامنا ہے جبکہ عالمی تنظیم اسے قانونی اور غیر قانونی ذرائع سے ’’ہائی رسک ‘‘کیٹیگری میں شامل کرتی ہے اوراس ضمن میں پاکستان میں ہنڈی و حوالہ کے کاروبار، این پی اوز، نان فنانشل بزنسزاور پروفیشنز کے علاوہ دشوارسرحدوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

ایشیا پیسفک گروپ کی رپورٹ کے مطابق ٹیرر فنانسنگ کے کئی میکانزم ہیں اس کے لیے صرف فنانشل انٹیلی جنس کافی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ٹرانس نیشنل اور دہشت گرد گروپوں سے جڑے ہوئے رسک درپیش ہیں، دہشت گرد گروپوں کے ذکرمیں داعش، جماعت الدعوۃ، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں جامع اور مربوط حکمت عملی اختیارکرے ۔ پاکستان میں مذکورہ گروپوں کے علاوہ تحریک طالبا ن پاکستان، کوئٹہ شوریٰ طالبان، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن وغیرہ کو کئی ذرائع سے فنڈز مل رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کے کئی ذرائع ہیں جن میں کرپشن، منشیات کا کاروبار، فراڈ، ٹیکس چوری، اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ اور آرگنائزڈ کرائم شامل ہیں۔ رپورٹ میں کرپشن کی روک تھام کیلیے پاکستانی حکومت کے حالیہ اقدامات کی تعریف کی گئی ہے۔ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لیے فنانشنل انٹیلی جنس بہتر بنانے کی تجویزدی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو بھی ٹھیک طرح استعمال نہیں کیا گیا، نہ ہی ممنوعہ تنظیموں، افراد اور مالی جرائم میں ملوث عناصر کے اثاثے اور فنڈز ضبط کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ سے متعلق 2420 تحقیقات کی گئیں اور ان میں سے 354 مقدمات چلے لیکن صرف ایک شخص کو سزا ہوئی جبکہ سرحدوں پر کیش ڈکلیریشن اور ضبطگی کا نظام موثر طریقے سے کام نہیں کر رہا۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی فنڈنگ سے متعلق 228 مقدمات درج کیے ان میں سے صرف 58 افراد کو سزا ہوئی۔ سب سے زیادہ 49 افراد کو سزا صوبہ پنجاب میں دی گئی جبکہ دیگر تمام صوبوں میں صرف 9 افراد کو سزا ہوئی جو ناکافی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت 66 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا، علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 7600 افراد کو بھی اسی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔
 
Top