ایسی مجبوری کہ پچھلا در کھلا رہنے دیا - سبط علی صبا

شمشاد

لائبریرین
ایسی مجبوری کہ پچھلا در کھلا رہنے دیا
صدر دروازے پہ اک تالا پڑا رہنے دیا

روح کے قیدی پرندے کو رہائی مل گئی
دار کی ٹہنی پہ اک چہرہ ٹنگا رہنے دیا

قتل سے پہلے مرے گھر کی صفائی ہو گئی
شاخِ گل پہ قمریوں کو بے نوا رہنے دیا

بستیوں میں سر پٹکتی آندھیاں چلنے لگیں
کھڑکیوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ رہنے دیا

گل سے عارض پر طمانچوں کے نشاں ملنے لگے
برسرِ دربار ماں کا سر کھلا رہنے دیا

تجربہ گاہِ جہاں میں ہر کھلونا وار کر
آندھیوں کے سامنے روشن دیا رہنے دیا
(سبط علی صبا)
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top