ایرانی لسّی اور امریکی الیکشن

عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

مرکزی لندن میں بی بی سی کا ہاسٹل جس علاقے میں واقع ہے، وہاں مشرقِ وسطیٰ کے متمول باشندوں کی خاصی بڑی آبادی ہے۔ راقم نے وہاں قیام کے دوران عرب ڈھابوں اور ریستورانوں کے بیچوں بیچ ایک ایرانی دوکان کا سراغ لگایا جہاں بوتل بند ایرانی لسّی دستیاب تھی۔
ساتویں جماعت میں ’ٰ کس نگوید کہ دوغِ من ترش است‘ کا مقولہ پڑھا تھا اور دُوغ (لسّی) کا مطلب اچھی طرح یاد تھا، لیکن اس محاورے کے برعکس لندن کا ایرانی دوکاندار فخر سے بتاتا تھا کہ خیلی تُرش است ۔۔۔ اور سچ جانیئے تو یہ تُرشی ہی اُس ایرانی لسّی کا اصل لطف تھا کیونکہ یہ باسی پن کی پیدا کردہ نہیں تھی بلکہ لیموں یا اسی قبیل کے کسی پھل کی پیدا کی ہوئی تُرشی تھی۔
ایک روز میں لسی خریدنے کے لیے اپنی باری کا منتظر تھا کہ ایک ادھیڑ عمر ایرانی خاتون تیزی سے داخل ہوئی اور لائن کی پروا نہ کرتے ہوئے سیدھی کاؤنٹر پر جا کھڑی ہوئی۔ لباس اور وضع قطع سے شاہِ ایران کے دور کی بھگوڑی مخلوق لگتی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ فرار کے وقت تہران کی چیدہ حسیناؤں میں شمار ہوتی ہوگی لیکن اب اس کٹی پتنگ کی تناویں خاصی ڈھیلی ہو چکی تھیں اور اعضائے نطق پر بھی قابو نہیں تھا، چنانچہ دورانِ تکلّم منہ سے اُڑنے والے لعاب کی پھوار دُور دُور تک مار کر رہی تھی۔
روز مرہ معاملات میں لندن کے فراخ دِل انگریز غیر ملکیوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو معاف کرنے کے عادی ہو چُکے ہیں لیکن لائن بنانا اُن کے لیے ایک ایسی مقدس رسم ہے کہ اسکی خلاف ورزی کرنے والے کو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب گردانتے ہیں۔ اب لائن توڑ کر کاؤنٹر پر جا پہنچنے والی خاتون یا تو دکاندار کی کوئی ماں بہن ہوگی یا پھر گاہکوں نے اس لیے احتجاج نہیں کیا کہ ان میں سے اکثر خود غیر انگریز تھے۔
کاؤنٹر پہ کھڑے لڑکے نے بیئر کا ڈبا خاتون کو لاکر دیا تو اس نے ناگواری سے لوٹادیا اور فارسی میں کچھ ہدایات دیں جو ظاہر ہے کہ میری سکول والی کتابی فارسی سے بہت ماوراء تھیں۔ لڑکا ہدایات سن کر پھر سے گوہرِ مقصود کی تلاش میں گودام کی طرف چلا گیا۔ کاؤنٹر کو خالی دیکھ کر چھٹے ساتویں نمبر پر انتظار کرنے والے ایک گاہک نے بلند آواز میں احتجاج شروع کیا تو دوکان کے ایک گوشے سے اس لڑکے کے باپ کی عمر کا ایک شخص اُونگھتا ہوا کاؤنٹر پر آگیا اور خاتون سے پوچھنے لگا کہ کیا مسئلہ ہے۔ اِس بیئر میں کیا خرابی ہے؟ خاتون نے جو لمبا چوڑا جواب دیا اسکا صرف ایک جملہ میری گرفت میں آسکا: ’بیئر بزرگ فی خواہم‘ یعنی خاتون کو بزرگ بیئر درکار تھی۔
خاصی حیرت ہوئی کہ بیئر میں بزرگی کیسی؟ اگر بزرگی سے مراد کہنگی ہے تو شرابِ کہنہ کی صِفت بیئر پر تو ہرگز صادق نہیں آتی۔۔۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد لڑکا گودام سے بیئر کا ایک بالشت بھر لمبا ڈبا لے آیا۔ خاتون نے مسکرا کر ڈبا وصول کیا، پیسے ادا کیے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔
اس روز راقم پر پہلی بار کھُلا کہ فارسی میں بزرگی کا تعلق سائز سے ہوتا ہے نہ کہ عمر سے۔ بیئر کا ڈبہ بھی اگر سائز میں بڑا ہوگا تو بزرگ ہی کہلائے گا۔ چنانچہ ایران میں جب امریکہ کو ’شیطانِ بزرگ‘ کہا جاتا ہے تو اس بزرگی میں اسکی جہاندیدگی، تجربے یا وقار و تمکنت کی طرف ہرگز اشارہ نہیں ہوتا بلکہ بدی، خباثت اور شیطنت کی انتہا مراد ہوتی ہے۔
امام خمینی کے دور میں زبان زدِ خاص و عام ہو جانے والی یہ اصطلاح میڈیا کے سرپٹ گھوڑے پر سوار جلدہی وطنِ عزیز میں بھی وارد ہوگئی اور جلسوں جلوسوں میں شیطانِ بزرگ کو لعن طعن کرنے والے پوسٹر اور پلے کارڈ نظر آنے لگے۔
آج کل ’شیطانِ بزرگ‘ کے یہاں صدارتی انتخابات کا غلغلہ ہے اور اُس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام شخص صدارتی انتخاب لڑ رہا ہے۔
اِدھر ہمارے یارانِ تیزگام کا حال کچھ ایسا ہے کہ اخباروں میں بندوق بردار فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد کی تصویر دیکھتے ہی اسلامی تاریخی ناول کے ہیرو کی طرح گھوڑے کا رخ یروشلم کی طرف کر کےاس زور کی ایڑ لگاتے ہیں کہ گھوڑا بلبلا اُٹھتا ہے، لیکن آدھے راستے میں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ خاتون تو کرسچن ہے۔۔۔ سارا جوش و خروش دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور شہسوار وطن کی طرف باگ موڑ لیتا ہے۔
یاسرعرفات اِن کی نگاہوں میں اسی وقت تک معتبر و متبرک تھا جب تک ان کی بیگم کا راز اِن پر فاش نہ ہوا تھا۔۔۔ جس روز معلوم ہوا کہ خاتون عیسائی ہیں، یاسر عرفات کا سارا جہاد مٹی میں مِل گیا۔
اب ایک سفید فام امریکی کے مقابل ایک کالا کھڑا ہوگیا تو بھائی میاں نے سوچا کہ یہ اپنا ہم رنگ تو ہے، کاش یہ ہم مذہب بھی ہوتا۔ تھوڑی سی کھینچ تان کرکے اسکے بزرگوں کو مسلمان کردیا اور اسکا اصل نام بُرّاق حسین قرار دے دیا۔ اب بھائی میاں کی اگلی خواہش یہ تھی کہ برخوردار براق حسین اسرائیل کے خلاف ایک دھواں دار بیان جاری کریں، افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی کاروائی کی مذمّت کریں اور اس شِق کو اپنے انتخابی پروگرام کا جزو بنائیں کہ مسندِ صدارت پر متمکن ہوتے ہی عراق، افغانستان اور دیگر تمام اسلامی ممالک سے امریکی فوجیں واپس بلا لی جائیں گی اور آئندہ کسی اسلامی ملک کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پچھلے 61 برس میں پاکستان نے کئی ڈیموکریٹ اور کئی ری پبلکن صدر بھگتائے۔ صدر آئزن ہاور کے دور میں خشک دودھ کے جناتی کنٹینر اور کینڈی کے زمانے میں سُرخ گندم کے جہاز یہاں لنگر انداز ہوتے رہے۔ ریگن کے دور میں ہم نے امریکی اسلحے کی ریل پیل بھی دیکھی اور ڈالر کی سپلائی تو ہر دور میں جاری رہی۔
ہماری معیشت، ہماری فوج، ہمارا تعلیمی نظام، ہمارا زرعی ڈھانچہ اور ہمارا صحتِ عامہ کا نظام، یہ سب کچھ امریکی امداد کا دست نگر ہے لیکن پھر بھی ہم خم ٹھونک کر امریکہ کو للکارتے ہیں اور ’شمالی سرحد پر امریکی طیاروں کو مار بھگایا‘ کی سرخی اخبار میں جما کر فخر سے سینہ پھُلا لیتے ہیں۔
ہمارے زِیرک حکمران اس حقیقت کو پا چُکے ہیں کہ ’شیطانِ بزرگ‘ سے پنجہ آزمائی کی بجائے اسکا چیلا بننے ہی میں ہماری نجات ہے، لیکن عوام اگر اس تلخ حقیقت کو نہیں ماننا چاہتے تو اُن کے پاس اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ بے حِسی کی کھٹی لسّی کے دوچار گلاس چڑھائیں اور بے خبری کی چادر تان کر گہری نیند سو جائیں۔
اصل مضمون پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
 
Top