ایرانی فوجی شام میں لڑ رہے ہیں ؟

یوسف-2

محفلین
ایرانی پاسداران انقلاب شام میں بشار الاسد کی حامی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں تاہم سرکاری طور پر تہران نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ تاہم حال ہی میں تہران سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں متعدد ایسی قبروں کا انکشاف ہوا ہے کہ جن میں اسد مخالفین کے ساتھ جنگ میں 'کام آنے والے' پاسدران انقلاب کے افسر و جوان ابدی نیند سو رہے ہیں۔

فارسی زبان کے متعدد ایرانی پورٹلز میں پاسداران انقلاب کے کیپٹن محرم ترک کی قبر پر نصب باتصویر کتبے کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹس نے تہران کے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ شام میں صدر بشارالاسد کی حمایت میں ایران کا کوئی فوجی لڑائی میں شریک نہیں ہے۔

دارلحکومت کے 'بہشت زہرا' قبرستان میں پاسداران انقلاب کے کیپٹن محرم ترک کی قبر کے تختے پر تاریخ پیدائش، وفات اور تصویر اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ محرم ترک 19 جنوری کو دمشق میں باغیوں کے ساتھ لڑائی میں مارا گیا۔ کتبے پر تحریر شعر میں مرحوم کو بطور 'شہید' خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

'وحید آن لائن' فارسی بلاگنگ ویب سائٹ کے مطابق کیپٹن محرم ترک کی آخری آرام گاہ کی تصاویر متعدد فارسی ویب سائٹس کی زنیب ہیں۔ قبر کے انکشاف کے بعد ذرائع ابلاغ نے اپنے تئیں محرم کی دمشق میں مبینہ شہادت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہو سکی ۔ تاہم وحید آن لائن نے تہران میں کیپٹن محرم کے سفر آخرت کی تصویر حاصل کی ہے۔ جنازے کے جلوس میں شامل افراد نے جمبو سائز بینر اٹھا رکھا ہے جس پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور محرم ترک کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔
العربیہ
ربط
 

یوسف-2

محفلین
ایران کی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی ایلنا نے جمعہ کو میجر جنرل حسن فیروز آبادی کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ''مسٹر بشارالاسد نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے کیونکہ شام اور ایران بیت المقدس پر قبضہ کرنے والے جارحین کی مزاحمت کررہے ہیں''۔

وہ شامی صدر بشارالاسد کے ایرانی وزیرخارجہ علی اکبر صالحی سے ملاقات کے دوران بیان کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ صرف شام ہی نہیں بلکہ مزاحمت کے تمام محوروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

جنرل حسن فیروز آبادی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ''ایران کے اسلامی انقلاب کا ایک بڑا مقصد اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایران اور شام دونوں کو شانہ بشانہ چلنا چاہیے''۔

واضح رہے کہ دوروز قبل ہی مغربی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق ایران شام کو گولہ بارود اور فوجی کمک پہنچانے کے لیے سول طیارے استعمال کررہا ہے اورایرانی طیارے عراق کی فضائی حدود سے گذر کر دمشق اور دوسرے شامی شہروں میں فوجی نوعیت کی سپلائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوسان رائس اور برطانوی سفیر مارک لائل گرانٹ نے ایران کی جانب سے شام کو اسلحے کی ترسیل کی مذمت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ایران کی منافقت ظاہر ہورہی ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ عرب بہاریہ تحریکوں کی حمایت کررہا ہے اور دوسری جانب وہ شام کے حریت پسندوں کو کچلنے کے لیے صدر بشارالاسد کی حکومت کو اسلحہ مہیا کررہا ہے۔
العربیہ
 
Top