ایاز صادق کا انتخاب کالعدم، این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کا حکم

ایاز صادق کا انتخاب کالعدم، این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کا حکم

150723151526_sardar_ayaz_sadiq_640x360_bbc_nocredit.jpg

این اے 122 میں ایاز صادق نے عمران خان کو ہرایا تھا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم الیکشن ٹربیونل نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔

مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دی تھی۔

تاہم عمران خان نے الیکشن ٹربیونل میں اس نتیجے کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حلقہ این اے 122 میں انتخابات کے دوران دھاندلی ہوئی ہے لہذا سردار ایاز صادق کو نااہل قرار دیا جائے۔

الیکشن ٹربیونل کی جانب سے انتخابی عذرداری پر سماعت دو سال تک جاری رہی تھی جس کے بعد سنیچر کو مختصر فیصلے میں ٹربیونل نے این اے 122 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 147 میں انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔

پی پی 147 سے بھی مسلم لیگ نواز کے ہی امیدوار شجاع صدیقی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔

فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل انیس ہاشمی کا کہنا تھا مختصر فیصلے میں ان کے موکل کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور ایاز صادق کی جانب سے بطور سپیکر گذشتہ دو برس کے دوران دی جانے والی رولنگز پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

فیصلہ سنائے جانے کے موقعے پر پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں جماعت مسلم لیگ نون کے حامیوں کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی جس کے بعد حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کرنی پڑی۔

150804013037_untitled-1.jpg

عمران خان نے الیکشن ٹربیونل میں اس نتیجے کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی تھی
کب کیا ہوا
  • نومبر 2014 کوعمران خان نے الیکشن ٹریبونل کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور کہا دھاندلی کے تمام ثبوت ووٹوں والے بیگوں میں موجود ہیں اُن کو کھولا جائے تو سب سامنے آ جائےگا کہ حلقہ میں کس حد تک دھاندلی ہوئی۔
  • الیکشن ٹربیونل نے دسمبر 2014 کو ووٹوں کے تھیلے کھولنے اور اُن کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔
  • جنوری 2015 میں مبینہ دھاندلی کیس میں ووٹوں کی جانچ پڑتال کرنے والے لوکل کمیشن کے جج غلام حسین اعوان نے کہا کہ کوئی جعلی ووٹ نہیں نکلا البتہ اِنتخابی بےضابطگیاں پائی گئی ہیں۔
  • مارچ 2015 میں ٹربیونل نے حلقہ میں ڈالے گے تمام ووٹوں کی تصدیق نادرا سے کروانے کا حکم دیا۔
  • مئی 2015 میں نادرا نے ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے حوالے سے تقریباً 800 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ الیکشن ٹربیونل کے دفتر میں جمع کروائی تھی۔
  • ٹربیونل نے فریقین کے وکلا کی جانب سے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ 22 اگست کے لیے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
 
تجزیہ -:سعید چودھری :
سابق جسٹس کاظم علی ملک پر مشتمل الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122اورپی پی 147میں دھاندلی کے مقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور پنجاب اسمبلی کے رکن محسن لطیف کے انتخابات کالعدم کردیئے ہیں ۔فاضل ٹربیونل نے ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کروانے کی ہدایت کی ہے ۔فاضل ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں انتخابی تنازعات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مدنظر رکھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔کاظم علی ملک پر مشتمل الیکشن ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں ان اسقام کے اعادہ سے بچنے کی کوشش کی ہے جو خواجہ سعد رفیق کیس میں جاوید رشید محبوبی پر مشتمل الیکشن ٹربیونل کے فیصلے میں سامنے آئے تھے ۔تاہم کاظم علی ملک کے فیصلے میں ایسے کئی قانونی جواز موجود ہیں جن کی بنیاد پر انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ۔فاضل جج نے انسانی شہادتوں کی بجائے نادرا اور لوکل کمیشنز کی رپورٹوں پر انحصار کیا ہے ۔یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جن پولنگ سٹیشنز پر عمران خان نے دھاندلی وقوع پذیر ہونے کے الزامات عائد کئے تھے وہ ان سٹیشنز کا کوئی ایک پولنگ ایجنٹ بھی عینی شاہد کے طور پر پیش نہیں کرسکے تھے ۔عمران خان نے اپنی انتخابی عذرداری کے ساتھ 42گواہوں کے بیان حلفی داخل کئے تھے ،ان بیانات کے حوالے سے بھی ایاز صادق کے وکلاءنے اعتراضات اٹھا ئے تھے کہ یہ قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں ،دوسرا یہ کہ جس اوتھ کمشنر نے یہ بیان حلفی تصدیق کئے تھے وہ جعلی تھا اور اس کے جعل ساز ہونے کی تصدیق لاہور ہائی کورٹ بھی کرچکی ہے۔عمران خان نے الیکشن ٹربیونل کے روبرو 6گواہوں کی شہادتیں قلمبند کروانے کے بعد دیگر 36گواہیاں ترک کردی تھیں۔عمران خان نے جو 6گواہ پیش کئے تھے ان کا تعلق بھی ان پولنگ سٹیشنز سے نہیں تھا جن پردھاندلی ہونے کے الزامات عمران خان کی انتخابی عذرداری میں عائد کئے گئے ۔عمران خان خود بھی دھاندلی کے کسی واقعہ کے عینی شاہد نہیں جس کا اعتراف انہوں نے جرح کے دوران بھی کیا ۔ عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976کے سیکشن 33میں ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس کے تحت پریذائیڈنگ ےا پولنگ افسرکو کاﺅنٹر فولز پر اپنے دستخط کرنے ،مہر ثبت کرنے ،ووٹر سے نشان انگوٹھا حاصل کرنے اور ووٹر کے شناختی کارڈ کا نمبردرج کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ جن بے ضابطگیوںکی بنیاد پر الیکشن ٹربیونل نے انتخابات کالعدم کئے ہیں ان کے بارے میں سپریم کورٹ 1999میں قرار دے چکی ہے کہ کاﺅنٹر فولز پر پریذائیڈنگ افسر کی مہر یا دستخطوں میں سے ایک چیز موجود ہو تو اسے ضابطے کی کارروائی مکمل ہونا تصور کیا جائے گا۔(ایس سی ایم آر 1999صفحہ 284) علاوہ ازیں ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976کے سیکشن 38میں دیا گیا ہے جس میں ووٹوں کی گنتی کے وقت کاﺅنٹر فولز کا جائزہ لینا شامل نہیں ہے۔ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے یہ چیز بھی سامنے آئی کہ جن کاﺅنٹرفولز پر پریذائیڈنگ افسروں کی مہر اور دستخط موجودنہیں ہیں ان پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشان اور شناختی کارڈ کے نمبر موجود ہیں جسے ضابطے کی کارروائی کی جزوی تکمیل تصور کیا جائے گاتاہم الیکشن ٹربیونل نے ضروری خیال کرتے ہوئے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے لئے معاملہ نادرا کو بھی بھجوایا۔فاضل ٹربیونل نے سردارایاز صادق کی طرف سے عمران خان کی انتخابی عذر داری پر اٹھائے گئے اعتراضات کابھی دوران سماعت فیصلہ نہیں کیا جبکہ جبکہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ مخالف فریق کے اعتراضات اور عدالتی دائرہ اختیار کا فیصلہ کئے بغیر دیگر معاملات پر حکم جاری نہیںکیا جاسکتا ،پہلے اعتراضات کا فیصلہ کرنا ضروری ہے ،(سپریم کورٹ منتھلی رویو 2014کا صفحہ 1015)۔ٹربیونل نے سردار ایاز صادق کے اعتراضات عذرداری کے حتمی فیصلے کے ساتھ مسترد کئے ہیں ۔لوکل کمیشن کی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس حلقہ میں 1لاکھ 83ہزار757ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ان میں سے 3ہزار642ووٹ مسترد ہوئے۔مجموعی طور پر ایاز صادق نے 92ہزار 393ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل عمران خان کو 83ہزار 542ووٹ ملے۔اس حلقہ کے باقی امیدواروں کے حصے میں 4ہزار 180ووٹ آئے۔سردار ایاز صادق نے اس حلقہ سے عمران خان پر8ہزار 851ووٹوں سے برتری حاصل کی تھی ۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جن بے ضابطگیوں کوالیکشن ٹربیونل نے بنیاد بنایا ہے وہ ان پولنگ سٹیشنز پر بھی پائی گئی ہیں جہاں سے عمران خان جیتے تھے ،جیسا کہ پولنگ سٹیشنز نمبر237پر کل 519ووٹ کاسٹ ہوئے ان میں سے عمران خان کے حصے میں 275جبکہ ایاز صادق کے حصے میں 232ووٹ آئے تھے ،یہی وہ پولنگ سٹیشن ہے جس کے تھیلوں سے متعلقہ فارم نہیں نکلے۔فاضل ٹربیونل نے ایاز صادق کیس میں قرار دیا ہے کہ ان کے حلقہ میں 9ہزا33ووٹ بوگس پائے گئے جن میں سے 570کاﺅنٹر فولزپر شناختی کارڈ کے نمبر درج نہیں تھے ،6ہزار123بیلٹ پیپرز پر جو شناختی کارڈ نمبر درج تھے ان کا تعلق اس حلقے کے ووٹروں سے نہیں تھا جبکہ 161ووٹ ایسے تھے جن کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔انتخابی تنازعات سے متعلق سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر انتخابی بے ضابطگیاں الیکشن کے نتائج پر اثر انداز نہ ہوں تو الیکشن کو کالعدم نہیں کیا جائے گا ۔الیکشن ٹربیونل کاظم علی ملک نے اس حوالے سے بظاہرعدالتی نظائر کو مدنظر رکھا ہے ۔انہوں نے 9ہزار33ووٹ بوگس قرار دیئے ہیں جو کہ ایاز صادق کی 8ہزار 851ووٹوں کی برتری سے 182زیادہ ہیں یوں الیکشن ٹربیونل کے مطابق انتخابی بے ضابطگیاں حلقہ این اے 122کے انتخابی نتائج میں تبدیلی کا باعث بنی ہیں کیوں کہ اگر یہ بے ضابطگیاں نہ ہوتیں تو اس حلقہ کا نتیجہ مختلف ہوسکتا تھا ۔تاہم اعلی ٰ عدالتیں قرار دے چکی ہیں کہ ایسی انتخابی دھاندلی جس کے ذمہ دارکا تعین کرنے میں الیکشن ٹربیونل ناکام رہے اسے جیتنے والے امیدوار کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ جیتے ہوئے امیدوار کا انتخاب کالعدم کرکے اس حلقہ کے لوگوں کو حق نمائندگی سے محروم نہیں کیا جاسکتا ،اس حوالے سے صدارتی الیکٹورل کالج کیس میں سپریم کورٹ کے 1968ءمیں دیئے گئے فیصلے کوعدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے تاہم اس کیس میں بھی مسٹر جسٹس ایس ۔اے ۔رحمن ، مسٹر جسٹس حمود الرحمن اور مسٹر جسٹس سجاد احمد پر مشتمل بنچ نے یہی قرار دیا تھا کہ جیتنے والے امیدوار کے ہارنے والے امیدوار سے 91ووٹ زیادہ تھے اگر تمام متنازع 78ووٹ ہارنے والے امیدوار کو بھی دے دیئے جائیں تو انتخابی نتیجہ تبدیل نہیں ہوتا ،فاضل بنچ نے اس کیس میں قرار دیا تھا کہ ایسی بے ضابطگی جو انتخابی نتائج کی تبدیلی کا باعث نہ ہو اسے دھاندلی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔جبکہ الیکشن ٹربیونل نے بادی النظر میں ایاز صادق کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اس حلقے میں بے ضابطگیاں انتخابی نتائج کی تبدیلی کا باعث بنی ہیں ۔اب اس معاملے کا سپریم کورٹ کو جائزہ لینا ہوگا کہ دھاندلی کے الزامات ثابت نہ ہوں تو کیا محض انتخابی نتائج کی تبدیلی کا باعث بننے والی بے ضابطگیوں کی سزا جیتنے والے امیدوار کو دی جاسکتی ہے ۔اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حلقے میں ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو کیا عمران خان اس حلقے سے امیدوار ہوسکتے ہیں ؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آئینی طور پر کوئی رکن اسمبلی ضمنی الیکشن نہیں لڑسکتا ۔آئین میں ایسی کوئی قدغن موجود نہیں ہے ۔آئین کے آرٹیکل223کے تحت اگر کوئی سیاستدان ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوتا ہے تو اسے ایک نشست کے سوا دیگر تمام نشستوں سے دست بردار ہونے کا اعلان کرنا پڑتا ہے ،اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس نشست ،جس پروہ آخر میں منتخب ہوا تھا کے سوا دیگر تمام نشستیں جن پر وہ منتخب ہوا تھا الیکشن کے 30دنوں کے بعد خالی تصور کی جائیں گے ۔اس آرٹیکل کی روح کو دیکھا جائے تو عمران خان حلقہ این اے 122سے دوبارہ الیکشن لڑ سکتے ہیں تاہم اگر وہ اس حلقہ سے منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ اسمبلی کی اس نشست سے محروم ہوجائیں گے جس پر وہ اس وقت براجمان ہیں ۔وہ اس وقت حلقہ این اے 56راولپنڈی سے رکن قومی اسمبلی ہیں اگر سپریم کورٹ سے حکم امتناعی جاری نہیں ہوتا اور عمران خان حلقہ این اے 122سے الیکشن لڑ کر جیت جاتے ہیں تو پھر ان کی حلقہ این اے 56راولپنڈی والی نشست خالی تصور کی جائے گی ۔
مآخذ
 
Top