اہم فوجی کمانڈر کا پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

اہم فوجی کمانڈر کا پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
اسلام آباد : ایک سنیئر فوجی کمانڈر نے بدھ کو جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کامیاب آپریشن ضرب عضب ملک میں دہشت گردی کا خطرہ کم کرنے کے لیے کافی نہیں۔

کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل خالد ربانی نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ضرب عضب پر بریفننگ دیتے ہوئے کہا"دہشتگردی ملک بھر خاص طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ میں انٹیلی جنس معلومات پر مبنی آپریشنز کے بغیر ختم نہیں کی جاسکتی"۔

شمالی وزیرستان میں جون کے وسط میں آپریشن شروع کیا گیا تھا جس میں پیشرفت کا دعویٰ سامنے آیا ہے، جبکہ ملک بھر میں انٹیلی جنس معلومات پر بائیس سو آپریشنز کے ذریعے 42 دہشت گردوں کو ہلاک اور 114 کو حراست میں لیا گیا ہے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی کہہ چکے ہین کہ انٹیلی جنس آپریشنز جاری رکھے جائیں گے۔

کور کمانڈرپشاور نے جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں آپریشنز پر زیادہ توجہ دینے اور کارروائی کے لیے مضبوط سیاسی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔

جنرل ربانی نے اشارہ دیا کہ سیاسی مسائل نے سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کے مسائل کو بڑھا دیا ہے،جو پنجاب اور بلوچستان میں دہشت گرد گروپس کے خلاف کارروائی میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ دہشت گرد تاحال جوابی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں، تاہم ان کی جانب سے مستقبل میں بڑے حملے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

کور کمانڈر نے بتایا کہ سیاسی ہچکچاہٹ کے باعث ضرب عضب تین سال کی تاخیر سے شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس اصول پر اتفاق کیا گیا تھا" فوجی کارروائی سیاسی حمایت سے ہوگی" اور اس وجہ سے آپریشن کے آغاز میں تاخیر ہوگئی۔

جنرل ربانی نے کہا کہ فوج 2011 سے حکومت کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے قائل کرنے کی کوشش کررہی تھی"قوم شمالی وزیرستان کے مسئلے کی شدت سمجھے بغیر اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی"۔

انہوں نے مزید کہا" ہمارے رہنماءاگر بروقت فیصلے کرتے تو متعدد ہلاکتوں کو روکا جاسکتا تھا"۔

کور کمانڈر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف فوج کے ہی چار ہزار سے زائد جوان ہلاک ہوئے اور بیشتر ہلاکتیں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہوئیں۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق فوجی ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس اس سے پہلے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی پر شمالی وزیرستان میں آپریشن میں تاخیر کا الزام عائد کرچکے ہیں۔

ملک میں عسکریت پسندی کے مسئلے پر ملکی تقسیم پر بات کرتے ہوئے جنرل ربانی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اولین برسوں میں فوج اس معاملے سے نمٹنے کے حوالے ہچکچاہٹ کا شکار تھی" شروع کے دو سے تین سال فوج اپنے لوگوں کے خلاف لڑنے پر کنفیوژن کا شکار تھی، جس سے بہت زیادہ وقت ضائع ہوگیا"۔

فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف پہلا بڑا آپریشن جنوبی وزیرستان میں 2007 میں شروع کیا تھا۔

ضرب عضب کی پیشرفت پر بات کرتے ہوئے کور کمانڈر پشاور نے کہا کہ قبائلی ایجنسی کا بڑا حصہ کلئیر کرالیا گیا ہے۔

انہوں نے شمالی وزیرستان میں حال ہی میں کلئیر کرائے جانے والے علاقے بویا دیگن کو 'القاعدہ کے پینٹاگون' قرار دیا جہاں اس دہشت گرد گروپ کا کمیونیکشن نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر موجود تھا۔

انہوں نے کہا"ہماری کارروائی کے دوران ان کا سسٹم تباہ کردیا گیا"۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب اس علاقے میں غیرملکی جنگجوﺅں کی واپسی ممکن نہیں۔

جنرل ربانی نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے بیشتر جنگجو فوج کے آنے سے پہلے علاقے سے نکل گئے تھے مگر جو باقی رہے گئے تھے انہیں ہدف بناکر نکالا گیا"جنھوں نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے انہیں ہدف بنایا گیا، متعدد کو گرفتار، ہلاک اور علاقے سے نکال دیا گیا"۔

http://urdu.dawn.com/news/1010055
 
Top