اہل مذہب کو تبدیلی کی ضرورت ہے:

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

احسان اللہ

محفلین
اہل مذہب کو تبدیلی کی ضرورت ہے :

احسان اللہ کیانی :

اہل مذہب سے میری مراد وہ لوگ ہیں ،جو مسجد ومدرسہ سے وابسطہ ہیں ،جو منبر و محراب سے تعلق رکھتے ہیں ،جو مذہبی جماعتوں کے کارکن ہیں اورجن کا حلیہ مذہبی ہے ۔

یوں تو ہمیں بہت سے شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے ،لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے

ہمیں گالیاں دینے کے بجائے ،گالیاں سنناہوں گی ،دوسروں کو ذلیل کرنے کے بجائے ،خود ذلیل ہونا ہوگا ،کسی کو مارنےکے بجائے ،خود مار کھانی ہوگی ،کسی کو معافی پر مجبور کرنے کے بجائے ،خود معافی مانگنی ہوگی ۔

خداکی قسم !

اگر ہم ایسا کرنے لگے ،تو ہمارا مذہب ترقی کرے گا،اسکے حمایتی دن بدن بڑھیں گے۔

نبی کریم علیہ السلام کی سیرت سے ہمیں یہی درس ملتا ہے ۔

آپ جانتے ہیں

نبی کریم علیہ السلام نے کفار سے گالیاں سنیں ،لیکن کبھی انہیں گالی نہیں دی

اسی طرح آپ علیہ السلام نے کبھی بداخلاقی کا جواب ، بد اخلاقی سے نہیں دیا

میں سیرت مبارکہ سے چند واقعات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ،آپ چند لمحوں کیلئے ،ہر طرف سے توجہ ہٹاکر پورے دھیان سے ان واقعات کو پڑھیے،پھر سوچیے ،کیا ہم اس کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا اس کے برعکس ؟

پہلا واقعہ :

ایک مرتبہ آپ بیا ن کر رہے تھے ،ایک شخص نے آپ کے چہرے پر مٹی پھینک دی ،آپ نے اسے کچھ بھی نہیں کہا ،خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے گئے ،آپ کی بیٹی نےجب آپ کا چہرہ دیکھا ،تو رونے لگی ،روتے روتے ،آپ کا چہرہ صاف کیا (رواہ ابن کثیر فی البدایہ)

دوسرا واقعہ :

ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نماز پڑھ رہے تھے ،حالت سجدہ میں کافروں نے آپ پر اوجھڑی رکھ دی ،جس کے بوجھ سے آپ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکے ،پھر وہ زور زور سے ہنسے لگے ،اتنا ہنسے کہ ایک دوسرے پر جا گرے ،سوچیے ،قلب انور کو کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی ،جب وہ ہنس رہے ہوں گے ،لیکن حضور نے ان سے کوئی بدلہ نہیں لیا ،بس انکے خلاف دعا کی ،جس کے نتیجے میں یہ سب کے سب بدر کی لڑائی میںقتل کر دیے گئے تھے ۔

سینہ میں موجود دل سے پوچھیں ،کیا ہم کوئی ایسی حرکت برداشت کر سکتے ہیں؟

تیسرا واقعہ :

یہ واقعہ آپکی روح کو تڑپا دے گا

ایک مرتبہ آُ پ علیہ السلام نے لوگوں سے کہا :لوگو!لاالہ الا اللہ کہو،کامیاب ہو جائو گئے ،ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور آپ کے چہرے مبارک پر تھوک دیا ،دوسراآگے بڑھا اور آپ کے چہرہ انور پر مٹی ڈالنی شروع کر دی ،جبکہ تیسرا آپ کو گالیاں دینے لگا (رواہ الطبرانی )

لیکن آپ نے کسی کو جوابا کچھ نہیں کہا ،یہ وہ اخلاق تھے ،جو اسلام کی اصل طاقت تھے ۔

چوتھا واقعہ :

ایک مرتبہ آپ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے ،اتنے میں عقبہ بن معیط آیا ،اس نےاپنی چادر آپکی گردن میں ڈالی اورپوری قوت سے آپ کا گلا گھونٹنے لگا ،حضرت ابوبکربھاگتے ہوئے آئے ،اور اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا (رواہ ابن کثیر فی البدایہ)

دوسری روایت میں ہے ،اس نے اتنی زور سے جٹھکا دیا ،کہ آپ علیہ السلام گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئے تھے (رواہ الھندی فی کنز العمال )

لیکن حضور نے اسے بھی کچھ نہیں کہا

اللہ اکبر ! کیسی برداشت تھی ،گھٹنوں کے بل زمین پر گر گئے ،لیکن اسے ایک لفظ تک نہیں کہا ،خدا گواہ ہے ،اسلام ان اخلاق کی وجہ سے پھیلا ہے ۔

پانچواں اور چھٹا واقعہ :

ایک مرتبہ آپ دعوت دے رہے تھے ،ایک شخص نے آپ کو گریبان سے پکڑ لیا ۔(رواہ ابن کثیر فی البدایہ)

لیکن حضور نے اسے بھی کچھ نہیں کہا

ایک مرتبہ کافروں نے آپ علیہ السلام کو اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہوگئے (رواہ البزار )

لیکن آپ نے کسی سے بدلہ نہیں لیا ۔

کیا ہم نے کبھی اس طرح دین کو پھیلانے کی کوشش کی ؟

ہم تو اس تعلیم کے برعکس چل رہے ہیں

ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ،ہمیں دین کیلئے قربانیاں دینی ہوں گی ،سب سے پہلے اپنی ناموس کی قربانی دینی ہوگی ،اپنی اَنا کی قربانی دینی ہوگی ۔یقین مانیے ،یہ قربانی بارگاہ الہی میں بڑی مقبول ہے ۔

یا اللہ !

ہمیں اپنے دین کیلئے قبول فرما ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top