اگلی دفعہ ووٹ سوچ سمجھ کر دینا

اگلی دفعہ ووٹ سوچ سمجھ کر دینا ۔’’جمہوری نظام‘‘ اور ’’تعلیم و شعور کی کمی‘‘ ان دو تلواروں کی مانند ہیں جنکے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ نیام میں نہیں رہ سکتیں۔ شاید یہ مثال کسی بھی قسم کی دو تلواروں پر لاگو ہوتی ہو لیکن ہم آج صرف انہی دو کا ذکر کریں گے۔ قرآن کریم بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ جسطرح اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتے اسی طرح اہل ایمان اور اہل علم کی برابری بے ایمان اور بے علم سے نہیں کی جا سکتی (الزمر ۹)۔ لیکن آج جمہوریت یعنی ووٹنگ کے نظام کے تحت اندھا اور دیکھنے والا دونوں قطعی برابر اور بالکل ایک جیسے ہیں۔ یعنی ایک پڑھے لکھے اور سمجھدار نوجوان اور ایک ڈکیت یا چور اچکے کے حق رائے دہی میں ایک رتی برابر فرق نہیں یعنی دونوں کا ایک ایک ہی ووٹ ہے اور دونوں کے ووٹوں کا وزن اور اہمیت بالکل برابر ہے۔ ایک پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ پروفیسر اور انکے گھر کام کرنے والے ان پڑھ ملازم دونوں کے ووٹ یکساں اور ہم وزن ہیں۔ ایک دانشور ہو یا گوّیا دونوں کے ووٹوں کے درمیاں کوئی تخصیص نہیں۔ ایک مسلمان اور مرتد کے ووٹ میں ایک آنے کا فرق نہیں۔ صدر زرداری ہوں، اداکارہ میرا ، ڈاکٹرعبدالقدیر خان ، ایک خودکش بمبار یا عبدالستار ایدھی ان سب کے ووٹوں کی طاقت، اہمیت اور حیثیت بالکل یکساں اور سو فیصد برابر ہے ۔ بظاہر ہمیں یہ برابری بہت بھلی معلوم ہوتی ہے بلکہ سیکولر ممالک میں تو دن رات اس برابری اور ایکوالٹی کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں کہ دیکھو ہمارے نظام کے تحت تمام انسان برابر ہیں اور سب کے ووٹوں کی اہمیت بھی ایک سی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات قطعی نظر انداز کردی جاتی ہے کہ حق رائے دہی کے اظہار میں انسان کی تعلیم اور شعور کو بڑی بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں چند بھلے مانس اور درد مند اکثر اپنا سر پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ لوگ ایک آٹے کے تھیلے کے پیچھے ایک ڈاکو اور لٹیرے کوووٹ ڈال آتے ہیں۔ کوئی ذات برادری پر ووٹ دیتا ہے، کوئی فرقہ واریت کی بنیاد پر تو کوئی اندھی تقلید کی بنا پر۔ اکثر اوقات تو پڑھے لکھے طبقے میں بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ مہاجر مہاجر کو ووٹ دیتا ہے ، پٹھان پٹھان کو اور جٹ جٹ کو۔ یہ تمام مثالیں ہمارے ہاں ہر طبقے میں شعور کی شدید کمی کی عکاس ہیں اور یقین کیجئے مغربی ممالک میں بھی تقریبا یہی حال ہے کہ ورکنگ کلاس لیبر پارٹی کو ووٹ دیتی ہے تو امیر طبقہ کنزرویٹو پارٹی کو۔ اسی طرح جب ایک سیاسی طور پر پٹی ہوئی پارٹی بڑی عیاّری سے ایک سیاہ فام امیدوار کوصدر کے عہدے کے لیے نامزد کرتی ہے تو لوگ پارٹی کی غلط اور ناکام پالیسیوں کے باوجو دصرف اس لیےاس شخص کو ووٹ ڈال آتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اسطرح کرنے سے وہ نسل پرستی کے خلاف ایک ملک گیر تبدیلی کا حصہ بن رہے ہیں حالانکہ وہی سیاہ فام امیدوار صدر بنتے ہی عین اسی ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردیتا ہے جن پر اس سے پہلے اسکی پارٹی کے سفید فام لیڈر چل رہے تھے، یعنی جمہوری نظام میں چہرے بدل دیے جاتے ہیں لیکن ایجنڈا وہی رہتا ہے۔ سو بنیادی بات یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لوگ اپنا دوررس فائدہ تبھی دیکھتے ہیں جب انہیں اس بات کا شعور اور اسکی اہمیت کی سمجھ ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنے اصلی مسائل کی نشاندہی بھی صرف وہی کر پاتے ہیں جو اس حوالے سےمکمل آگاہی، تجربہ اور علم و دانش رکھتے ہیں۔ جہاں اکثریت کے پاس شعور یا اپنےذاتی اور ملکی مسائل سے مکمل واقفیت ہی نہ ہو وہاں تو یہی سب ہوگا، یعنی نسبتا ً زیادہ پڑھے لکھے سیاستدان ذرا سوفیسٹیکٹڈ ڈرامہ رچا کر لوگوں کو بے وقوف بنائیں گے اور ہمارے جیسے ان پڑھ معاشروں میں جو امیدوار الیکشن کے دن بریانی کھلائے گا، بوتل پلائے گا اور مفت کی سواری فراہم کرے گا پورا محلہ اور گاؤں اسےہی ووٹ ڈا ل آئے گا۔ اسی لیے جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو ایک کھمبا لگا کر اسکی بنیاد پر ووٹ مانگے اور دیے جاتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ کھمبا تو لگ گیا لیکن بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے کیا عملی اقدام کیے گئے اور اس کھمبے کی تاروں سے گھر میں لگے بلب تک بجلی کس صدی میں آئے گی ؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ ہر مرنے والے سیاسی لیڈر کو شہید قرار دے کر اسکی قبر پرتاج محل کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں دن رات قبر کی پوجا اور عطر و گلاب کی بارش ہوتی ہے لیکن کوئی نہیں سوچتا کہ آخر یہ سنگ مرمر کا محل ایک غریب اور بال بال قرضے میں جکڑے ہوئے ملک کے حکمرانوں نے تعمیر کیسے کر لیا؟ نتیجہ یہ کہ ہمارے ہاں خاندانی سیاستدانوں، وڈیروں اور سیاسی پارٹیوں کی جیبوں میں ووٹوں کا ایک ڈھیر ہر وقت موجود ہوتا ہے جسے بڑی بے شرمی کے ساتھ ’’ووٹ بینک‘‘ کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ ووٹ بینک ہماری جہالت، شخصیت پرستی اور علم و شعور کی کمی کی منہ بولتی تصویر ہے لیکن حکومت اسی کی بنتی ہے جو اس ووٹ بینک کو قائم رکھنے کے تمام تر کیل کانٹوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے لیس ہوتا ہے۔ دین اسلام ان تمام خرافات کے برعکس ایک بڑا ہی سیدھا اور سادہ سا فارمولا اور طریقۂ کار وضع کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت عوام الناس کی اکثریت محض ایک ووٹ رجسٹر کروا کر اپنی آزادی رائے اور مصنوعی اہمیت کے خمار میں زندہ نہیں رہتی بلکہ یہاں پر دنیا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل چیز یعنی ایمان کی پختگی کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اس لیے کہ جسکا ایمان درست ہو اور جو واقعی مسلمان ہونے کی شرائط پوری کرتا ہو وہ زندگی کے باقی فیصلے بھی درست یا بہرحال عام لوگوں سے بہتر انداز میں لیتا ہے، اسکے دل میں اللہ کا خوف اور آنکھ میں شرم بہرحال ایک بے ایمان شخص سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلامی نظام میں کسی کو خلیفہ بننے کے لیے گھر گھر لوگوں کے ترلے کرنے نہیں جانا پڑتا، جھوٹے وعدے نہیں کرنے پڑتے، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا پڑتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ’’عوام کا نمائندہ‘‘ یعنی وہ ہر طبقے کی ہر ایک جائز و ناجائز خواہش کی تائید نہیں کرتا بلکہ اللہ کے نظام کا پیروکار اور داعی ہوتا ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرامؓ کی زندگیوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب معاشرہ بالعموم صحیح العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہو تو عوام الناس میں سے چند لوگ اپنی قابلیت، تعلیم، شعور، تقوے اورقائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے آ جاتے ہیں اور پھر یہ لوگ اسلام کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں باہم مشورہ کرکے اپنے درمیان موجود ایک شخص کو اپنا قائد اور خلیفہ چن لیتے ہیں۔ عوام الناس کو اس حوالے سے صرف اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں شخص تمہارا خلیفہ چن لیا گیا ہے آؤ آکر اسکے ہاتھ پر بیعت کرلو۔ یہ اس لیے کہ جب اللہ کے دین کو معیار اور کسوٹی بنایا جائے اور جہاں اکثریت واقعی مسلمان ہو وہاں ایک دوسرے پر شکوک و شبہات بھی کم ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کی نیک نیتی پر اعتبار ہوتا ہے اور نتیجتاً معاملات ہمیشہ بہتر طریقے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ اور اگر خلیفہ یا قائد چنے جانے والے شخص پر کسی کو اعتراض بھی ہو تو وہ حسن ظن کی وجہ سے، اللہ کے ڈرسے اور امت میں فتنہ پھیلنے کے خوف سے اپنی بات چھوڑ دیتا ہے کہ ایسی حکومت میں اصلی ہدف اللہ کے دین کی سربلندی اور عوام کی بہتری ہوتے ہیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے دھن دولت جمع کرنا نہیں۔ پڑھی لکھی دنیا کو یہ باتیں بڑی عجیب لگتی ہیں کہ شاید ایسے نظام کے تحت عوام و خواص برابر نہیں ہوتے یا عام شہریوں کو اپنی رائے کے استعمال کا موقع نہیں ملتا لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ برابری اور مساوات کا سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ مساوات کے حوالے سے تو دین میں محمود و ایاز دونوں برابر ہیں اور کسی گورے کو کالے پر اور امیر کو غریب پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں۔ لہذا حکومتی اور ملکی سطح کے معاملات تقوے ، تعلیم، شعور ، تجربے اور خاص طور پر اہلیت کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں اور اس حوالے سے واقعی اگر ایک حبشی کی اذان اور قرأت ایک عرب سے اچھی ہے تو مؤذن وامام کے فرائض یہ حبشی ہی سرانجام دیگا لیکن اگر یہی عرب حکومتی معاملات کو بہتر طور پر سمجھتا ہے یا اس حوالے سے اسکا ایکسپوژر زیادہ ہے تو یہاں اسکی رائے ، تجربے اور اہلیت کو اس حبشی کی رائے پر فوقیت دی جائے گی۔ اسی طرح اگر ایک محنت کش تقوی ٰ ، سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت رکھتا ہے تو اسے لیڈر شپ کے حوالے سے ایک نیک اور پرہیز گار مگر دباؤ میں آجانے والے شخص پر برتری حاصل ہوگی۔ اسی لیے اسلامی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ کہیں بھرے مجمعے میں ایک خاتون خلیفہ وقت کے فیصلے کو چیلنج کرتی ہے تو کہیں ایک عام آدمی خلیفہ وقت بن جاتا ہے۔ سو اگلی دفعہ ووٹ دینے سے پہلے اس نظام کی حقیقت سے مکمل آشنائی حاصل کر یں اور پھر ایمانداری سے سوچیں کہ کیا واقعی یہ عوام کی بہتری کا فارمولا ہے اور کیا اسکا حصہ بنتے ہوئے آپکو کوئی ذاتی یا اجتماعی حقیقی فائدہ بھی ہے؟ عموما ًمغربی ممالک کی چکا چوند کو دیکھ کر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہاں پر تمام تر خوشہالی جمہوریت کی دین ہے حالانکہ حقیقت اسکے قطعی مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جمہوریت دنیا کو سیکولرازم کی طرف سے ملنے والا ایک تحفہ ہےاور سکیولرازم کے تحت کسی بھی قانون کے نفاذ کے لیے صرف اور صرف مطلوبہ ووٹ درکار ہوتے ہیں ، یعنی سیکولرازم اس بات سے قطعی عاری و ماورا ہے کہ جس خواہش یا قانون کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیا وہ جائز بھی ہے؟کہیں اس سے انسانیت کی تذلیل تو نہیں ہوگی یا معاشرے پراسکے منفی اثرات تو مرتب نہیں ہونگے؟یہ اس لیے کہ سیکولرازم میں کوئی بھی چیز جائز یا ناجائز اور مثبت یا منفی نہیں ہوتی بلکہ صرف لوگوں کی مرضی اور حرص ہر چیز پر حاوی ہوتی ہے ۔ اگر لوگ جوا کھیلنا چاہتے ہیں تو جوا خانہ کھولنے کی اجازت ہوگی ، اسی طرح مرد و زن بغیر شادی کےرہنا چاہیں اور ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت ملنے کا معاملہ ہو تو ان سب کی رائے کا احترام کیا جائے گا، اگر لوگ سود پر قرضے دینے کا کاروبار کرنا چاہیں گے یا بلیو فلمیں بنانا چاہیں گے تو یہ سب جائز ہوگا۔ الغرض ایسی کسی بھی بات کے حوالے سے صرف یہ دیکھا جائے گا کہ کیامعاشرے میں موجود ایک طبقہ یہ سب کرنا چاہتا ہے یا نہیں اور اگر کرنا چاہتا ہے تو انکی رائے کا احترام کیا جائےگا، پھر ووٹنگ ہوگی اور پھر اگر مطالبے کے حق میں اکثریتی ووٹ آئینگے تو چاہے یہ مطالبہ کتنا ہی ناجائز یا معاشرے کے لیے ناسور کی حیثیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو اسکی ناصرف اجازت دی جائے گی بلکہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اسے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یہاں پر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ جو لوگ اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں انکی تعلیمی قابلیت، ذہنی کیفیت اور فکری و شعوری استطاعت کیا ہے یا یہ کہ وہ معاشرے کے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کہیں انکے مطالبات انسانیت کی تذلیل یا انسان کو جانور کی سطح پر لے جانے کے ذمہ دار تو نہیں؟ یہ سب اس لیے کہ جمہوریت میں تمام انسان مطلقاً برابر ہیں لہذا ان سب کے مطالبات بھی یکساں اور برابر ہیں، جسے اس سب کا حصہ نہیں بننا وہ دور رہے لیکن جو یہ سب کرنا چاہتا ہے اسے اسکی مکمل بلکہ مادر پدر آزادی حاصل ہے۔ لہذا جب اقوام میں مذاہب اور ادیان کی مقرر کردہ حدود سے ماورا ہو کر خود اپنی مرضی کی حکومت سازی کرنے کا خبط سوار ہوا تو پھر جمہوریت نامی اس نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ چند چالاک سیاستدانوں نے لوگوں کو لارے لگائے کہ ہم تمہارے نمائندے اور تمہاری خواہشات کے علمبردار ہیں اور تمہاری آواز کو ایوانوں تک پہنچائیں گے لیکن حقیقت میں یہ سب کے سب سیاستدا ن بمعہ اپنے ضمیروں کے بینکوں اور دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے پاس گروی پڑے ہوتے ہیں یعنی قانون سازی لوگوں کی بہتری کی نیت سے نہیں بلکہ ذاتی فائدے کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ لہذا جب بڑے بڑے بینک لوگوں کی محنت کی کمائی جوئے میں ہار جاتے ہیں تو ان کے خلاف قانون چارہ جوئی کرنے کی بجائے یہ ’’عوامی حکومتیں‘‘عام لوگوں سے ہی مزید ٹیکس وصول کرکے یا عوامی فلاح و بہبود کے فنڈز سے پیسے نکال کر ان بدکردار اور ظالم سودخوروں کو اس مشکل سے نکالتی ہیں۔برطانیہ میں یہ سب کچھ حال ہی میں ہوا ہے بلکہ اب بھی ہو رہا ہے۔ اسی طرح سودی قرضوں اور سودی مورٹگیج یا رہن کے ذریعے لوگوں کو لمبے عرصے کے لیے اپنا غلام بنایا جاتا ہے ۔ انشورنس کمپنیاں معاشرے میں خدا اور لوگوں کی نجات دہندہ بن جاتی ہیں۔ عورت کی دن رات تذلیل ہوتی ہے اور اسے محض ایک تجارتی مال کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اسطرح کی آزاد اور خود غرضی پر مبنی قانون سازی کا بچوں پر، فیملی سسٹم پر اور پورے کے پورے معاشرے پر کیا اثر ہو گا، یہ تو محض ایک ریٹ ریس یعنی چوہوں کی دوڑ ہے جس میں سب سے آگے نکل جانے والا ہی کامیاب ہے چاہے وہ ہر کسی کو کچل کر آگے نکل جائے۔ اگر جمہورت سے چپک کر رہنے اور دن رات اسکے راگ الاپنے کا جواز محض یہ ہے کہ یہ عام انسانوں کی فلاح و بہبود کا نظام ہے تو پھر سب سے پہلے تو ہمیں بطور اشرف المخلوقات اور بحیثیت ایک مسلمان ’’فلاح و بہبود‘‘کی تعریف اور اسکی حد بندی کرنا ہوگی اور دیکھنا ہوگا کہ ہم جسے فلاح کہتے ہیں کیا اسلام بھی اسے فلاح ہی گردانتا ہے؟ اسی طرح انسانی فلاح و بہبود ، عورتوں کے حقوق ،معاشی خوشحالی، عدل و انصاف، صحت، امن وعامہ اور دیگر تمام چیزوں کو تو دین اسلام مغربی ممالک سے کہیں زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنےمعاشرے کی فلاح کی طرف گامزن ہوں اور دنیاوی منفعت کو شعار بنانے کی بجائے انسان کی حقیقی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں؟ ہم کیوں ایک ایسے نظام کے پیچھے آنکھوں پر پٹی باندھے اندھا دھند بھاگتے چلے جا رہے ہیں جس نے اس دنیا کو سوائے معاشی بدحالی،دولت کی ناجائز تقسیم اور مادر پدر آزادی و بے راہ روی کے اور کچھ نہیں دیا؟ السلام علیکم
 
Top