اک ملاقات تھی وحشت سے جو اب اکثر ہے ۔ ظفر خان

فرخ منظور

لائبریرین
اک ملاقات تھی وحشت سے جو اب اکثر ہے
اور کیا بس میں ترے شامِ فسوں پرور ہے

دن سمٹتا ہے محض وقت کی بے کیفی میں
رات ہوتی ہے تو اک تارِ نفس مضطر ہے

حسرتیں آنکھ میں پھرتی ہیں بہت سی لیکن
جو سجھائی نہیں دیتی ہے وہی محور ہے

شہر پر روز گزرتی ہے قیامت کوئی
پوچھیے حال جو خوباں کا وہاں ابتر ہے

آتشِ دل نے کیے راکھ محلے کیا کیا
یہ در و بامِ تعلق ہے کہ خاکستر ہے

ہر طرف روح کا پگھلا ہوا آہن ہے یہاں
جانے کس فکر میں اب شہر کا آہن گر ہے

(ظفر خان)
 
Top