اک شور مرے اندر مگر تنہا ہوں میں

ظفری

لائبریرین
اک شور مرے اندر مگر تنہا ہوں میں
کسی بساط کا پٹا ہوا مہرہ ہوں میں

یہ کیا ہر جگہ تُو مجھے نظر آجاتی ہے
اپنے ماضی سے کیوں جڑا ہوا ہوں میں

اک عمر گردشِ دوراں کا مزا لیا میں نے
لگتا ہے اب تک ، بہت بے مزا ہوں میں

سرابیوں کی آس میں کٹ گئی اک عمر
مگر یہ کیا کہ ہر دریا کو تکتا ہوں میں

مانا کہ لطفِ زندگی سیکھا نہیں ظفر
اپنے غموں پہ پھر ، کیوں تڑپتا ہوں میں​
 
Top