افتخار مغل اک رُخ پہ مرا دیدۃِ حیران کُھلا ہے - افتخار مغل

اک رُخ پہ مرا دیدۃِ حیران کُھلا ہے
لگتا ہے کہیں رحل پہ قرآن کُھلا ہے

غم دوست سی لڑکی سے رہ رسم چلی ہے
یا میر تقی میر کا دیوان کُھلا ہے

اک خواب کی میت پئے تدفین اُٹھی ہے
تب جا کے کہیں رات کا زندان کُھلا ہے

آثار سے لگتا ہے کہ ممکن ہے خدو ہو!
دل میں اسی باعث درِ امکان کُھلا ہے

یہ زیست بھی ساقیؔ کی کوئی نظم ہے شاید
سو رنگ سے اس نظم کا عنوان کُھلا ہے

ہستی کو سمجھنے میں بڑا وقت لگا ہے
اک عمر میں مجھ پر مرا مہمان کُھلا ہے

کچھ خواب ہیں ، کچھ شعر ہیں ،کچھ درد ہیں ،کچھ داغ
کمرے میں بہ ہر سو مرا سامان کُھلا ہے

کس خاک پہ کُھلنے تھے مری خاک کے جوہر
یہ بستہِ صد رنگ کہاں آن کُھلا ہے

مدت ہوئی تلخابِ خموشی سے بہلتے
تب لذتِ گفتار کا جُزدان کُھلا ہے​
افتخار مغل
 
آخری تدوین:
Top