اک رنج بہ پیرایہء زر کیوں نہیں جاتا (غزل ) اختر عثمان

واجد عمران

محفلین
اک رنج بہ پیرایۂ زر کیوں نہیں جاتا
کشکولِ ہوس ہے تو یہ بھر کیوں نہیں جاتا

وہ آئنہ رُو ہے تو مرا روپ دکھائے
میں اُس کے مقابل ہوں ، سنور کیوں نہیں جاتا!

دریا کا تلاطم تو بہت دِن کی کتھا ہے
لیکن مرے اندر کا بھنور کیوں نہیں جاتا!

کہتے ہو کہ ہو اُسوہِ شبّیر پہ قائم
دربار میں کیوں جاتے ہو ، سَر کیوں نہیں جاتا؟

کہتے ہو جو تم روح سے "لبّیک حسینا ”
پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا؟

تم صاحب معنی ہو تو تمثال پہ مت جاؤ
الزام کبھی آئنے پر کیوں نہیں جاتا !

لو ، شام گئی، رات ہے ، کابوس ہے ، میں ہوں
میں صبح کا بھولا ہوں تو گھر کیوں نہیں جاتا

با وصفِ خلش ہائے خُدایانِ سلیقہ
اِس شخص کی سطروں سے ہنر کیوں نہیں جاتا

ہر سنگِ دعا مجھ کو لگا پھول سے بڑھ کر
جب اتنی دعائیں ہیں تو مر کیوں نہیں جاتا

اختر تری گفتار ِ فسوں سوز میں کیا ہے
جو بھی اِدھر آتا ہے، اُدھر کیوں نہیں جاتا؟
 
Top