اکو الف تینوں درکار--- محمود شام

الف نظامی

لائبریرین
اکو الف تینوں درکار
ازمحمود شام
ضرورت یقینا ایک الف ہی کی ہوتی ہے۔اللہ جب اور جسے چاہے اس تک رسائی دے دے۔ کہنے والے صوفی نے کہا تھا
اکو الف تینوں درکار علموں بس کریں او یار​

کون اس کی گہرائی میں جاتا ہے۔ دل دریا سمندروں سے گہرے ہوتے ہیں۔ کس کے دل میں کیا ہے۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر آسمان کی آنکھ نے دیکھا کس طرح نہتے، نادار، نوجوان، بزرگ، ایک الف اسلام آباد کی طرف تمتماتے ماتھوں کے ساتھ رواں دواں تھے۔ پھر ایک الف اتوار کی رات ڈھلنے سے پہلے پہلے ایک الف افتخار چوہدری کی بحالی کے اعلان کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں ایک نئے جشن کی روداد شامل ہو رہی تھی۔ الف کی بحالی یے کے ہاتھوں ہوتی ہے قوم کو کتنے برس بعد مسکرانے کا موقع ملا ہے۔ بہت سے افسوں ٹوٹے ہیں۔ بہت سے نئے قائم ہوئے ہیں۔ مجھ سمیت بہت سے سوچتے تھے کہ پاکستانیوں کے ساتھ اتنے دھوکے ہوئے ہیں۔ وہ اب سڑکوں پر نہیں آئیں گے۔ لوگ نکل آئے اور انہیں کچھ مل بھی گیا۔ یہ بھی کہ پنجاب دوسرے صوبوں کے حقوق اوروسائل غصب کرتا ہے۔ اب کے انہی اہل پنجاب نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان، سرحد ، سندھ، پنجاب سب ہی چاہتے تھے عدلیہ آزاد ہو۔ بڑے صوبے، بڑے بھائی نے اپنا زور لگا دیا۔ اب تینوں صوبوں کو چاہئے کہ پنجاب کا شکریہ ادا کریں۔ خطہ پنجاب تیرے بے نواؤں کو سلام… بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جواب انہی شخصیتوں کے لئے چیلنج بنیں گے جو اس وقت ہیرو کا درجہ اختیار کرگئی ہیں۔ کیا ایک شخصیت کی بحالی سے عدلیہ آزاد ہوسکتی ہے۔ کیا مسائل حل کروانے کے لئے اسی طرح ہجوم اکٹھے کرنے پڑیں گے۔ کیا کبھی انتہا پسند اسی طرح غول در غول اسلام آباد کی طرف بڑھے تو ان کی بات بھی ماننی پڑے گی۔ کیا ہم اپنے محاصرے سے پہلے کوئی حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکتے۔ کیا پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے مسائل سڑکوں پر آنے سے ہی حل ہوں گے۔ اب راج کرے گی خلق خدا۔ یہ تو حق بات ثابت ہوئی۔ لیکن اس کے لئے ادارے تو ہوں گے، راستے تو ہوں گے۔
ایک الف آصف زرداری تھے جو ایک الف آئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مملکت کے سربراہ بنے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تھا کہ وہ خود چیف جسٹس کو بحال کردیتے۔ لیکن وہ الف انا کے حصار میں رہے اور وقت کی نبض پر انگلیاں رکھنے سے گھبراتے رہے۔ ان کے تذبذب نے مملکت کی طاقت کا افسوں توڑ دیا۔ سویلین اقتدار کی گرفت کمزور پڑ گئی۔ یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے اسے مزید اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور خونریزی، تصادم سے بچنے کے لئے اپنے انکار کو اثبات میں بدل دیا۔ مگر تاریخ میں یہ لکھا رہے گا کہ یہ اس وقت ہی ہوا جب ایک الف امریکہ … اور دوسرے الف آرمی نے دباؤ ڈالا۔ یا سمجھایا۔ ایک الف اشفاق پرویز کیانی بھی قوم کے ہیرو بن گئے۔ ان کی یہ ملاقاتیں بعض کے نزدیک مداخلت کہلائیں گی۔ بعض اسے ان کی معاملہ فہمی، جمہوریت دوستی کہیں گے۔ ایک الف اعتزاز احسن کی استقامت، استعداد قابل داد ہے کہ انہوں نے پارٹی ڈسپلن، قومی اسمبلی کی رکنیت، وزارت سب کی قربانی دی۔ ان کا سفر ظاہر ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی سے ختم نہیں ہوگیا۔ اب ان کی منزل کیا ہوگی۔ ایک الف اطہر من اللہ بھی ہیں۔ اب تک وہ ایک الف کے ترجمان تھے۔ مگر اب ان کی ترجمانی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ منصب سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو حاصل ہوگا۔ اس سارے ہنگامے میں ایک اہم کردار ایک اور الف اسلم رئیسانی کا بھی ہے۔ جو امریکہ اور آرمی کی طرح اعلانیہ نہیں تھا۔ وہ بھی ایوان صدارت اور ایوان عدل کے درمیان ایک پل بنے ہیں۔ چیف جسٹس 22/مارچ کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ یوم قرار داد پاکستان 23/مارچ سے ایک روز قبل صوبوں کی خود مختاری کا حوالہ بہت اہم ہے۔ یہ اس وقت سب سے سنگین مسئلہ بھی ہے۔ ایک الف اتفاق برادرز ہیں۔ انہوں نے بڑی قربانی دی ہے۔ اپنے لئے نہیں۔چیف جسٹس کی بحالی کے لئے۔ اتنے اقدامات، اخراجات، انتظامات کئے۔ ان کے الفاظ میں اب اتنی اپیل ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آتے ہیں۔ انہیں میڈیا کے ذریعے پیغام عوام تک پہنچانا آگیا ہے۔ اب پاکستان ان سے یہ توقع کرتا ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی وقت پڑے گا تو وہ اسی انہماک اور خلوص سے تمام وسائل اور ذرائع بروئے کار لے آئیں گے۔ پاکستان کو اب بھی بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنج درپیش ہیں۔ کوئی ایک لیڈر اکیلا ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ الف اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے۔ الف اتحاد درکار ہے۔ مذہب اور سائنس دونوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اجتہاد لازمی ہے اور سب سے بڑھ کر الف ادارے مضبوط اور مستحکم کرنے ہوں گے۔ شخصیات کتنی عظیم ہوں الف آنی جانی ہیں۔ عوام کو تو وقت بتائے گا کہ اس وقت پس منظر میں جومختلف الف موجود اور سرگرم ہیں ان میں سے کون کہاں تک پہنچتا ہے۔ کون حالات کے ریلے میں بہہ جاتا ہے۔ درکار تو ایک ہی الف ہے۔
بحوالہ روزنامہ جنگ
 
Top