اپوزیشن کی درخواست منظور؛ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کی درخواست منظور؛ پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ
ویب ڈیسک جمعرات 21 نومبر 2019
1889355-ecp-1574314779-693-640x480.jpg

پی ٹی آئی کے خلاف درخواست منحرف رہنما اکبر ایس بابر نے 2014 میں دائر کی تھی فوٹو: فائل

اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے پارٹی فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی اپوزیشن کی درخواست منظور کرلی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن کے 2 ارکان نے تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی اور ممنوعہ پارٹی فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر درخواست کی سماعت کی، الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کی درخواست منظور کرلی۔

اپوزیشن جماعتوں کی درخواست چیف الیکشن کمشنر اورارکان کو بھجوا دی گئی ہے جب کہ 26 نومبر سے پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر چلے گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے ارکان نے الیکشن کمیشن دفتر کے سامنے احتجاج بھی کیا تھا اور پی ٹی آئی کیخلاف کیس کی روزانہ سماعت کا مطالبہ کیا، رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی نے کہا کہ غیر ملکی فنڈنگ کیس 5 سال سے چل رہا ہے، فیصلہ ہو گیا تو پی ٹی آئی اور اس کی حکومت ختم ہوجائے گی۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف کارکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں ای سی پی میں غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق کیس دائر کیا تھا۔ان کا موقف ہے کہ کہ پی ٹی آئی کے غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے سے پی ٹی آئی ورکرز کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
موسم ابر آلود ہے!
صابر شاکر

صورتحال گزشتہ سے پیوستہ ہے جیسا کہ 19 نومبر کے کالم میں بیان کی تھی۔ بھاری بھرکم ڈبل ڈیکر جہاز محو پرواز ہے۔ مے ڈے کال آن ہے۔ موسم بدستور گرج چمک کے ساتھ ابر آلود ہے اور سٹارم بھی ہے۔ وزارت دفاع کے ماتحت اور ذیلی ادارے محکمہ موسمیات کے مطابق اسلام آباد‘ راولپنڈی اور اس کے گردونواح میں سیاسی موسم مزید پانچ گھنٹے غیر یقینی رہے گا اور موسم کی خرابی اور بار بار ائیرپاکٹس آنے کی وجہ سے پرواز کے عملے اور مسافروں میں جو خوف وہراس پایا جاتا ہے‘ اس کے باعث ایک ایک سیکنڈ ایک ایک منٹ سے بھاری اور ہر گھنٹہ ایک دن سے بھی زیادہ بھاری معلوم ہوتا ہے؛ تاہم پرواز کو مزید غیر ہموار ہونے سے بچانے کے لئے سینئر پائلٹ نے پرواز کی بحفاظت لینڈنگ تک عبوری مدت کے لئے جہاز کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے کیونکہ سول ایوی ایشن کے حکام اور ایئر ٹریفک کنٹرول نے معاون پائلٹ کی ہونے والی بعض کمیونی کمیشن کے ذریعے ان کی طرف سے دئیے جانے اور انہیں موصول ہونے والے پیغامات کی بنیاد پر سینئر پائلٹ کو اطلاع دی ہے کہ معاون پائلٹ کا کردار فی الوقت محدود سے محدود کر دیا جائے اور رسک کو زیرو ٹالرنس پر رکھا جائے جبکہ جہاز میں سوار دیگر فضائی عملے نے بھی معاون پائلٹ کی غیر معمولی حرکات و سکنات کی بنیاد پر سینئر پائلٹ کو معاون پائلٹ کے غیر متوازن رویے کی اطلاع دی ہے کہ انہیں سسٹم سے دور رکھا جائے تا وقتیکہ موسم نارمل نہ ہو جائے اور سرخ بتیوں کے نشان بُجھا نہ دئیے جائیں۔ سینئر پائلٹ نے موصولہ اطلاعات کی روشنی میں عملے کے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ معاون پائلٹ پر گہری نظر رکھی جائے اور ان کی طرف سے جاری ہر ہدایت کو کاؤنٹر چیک کروایا جائے اور ایسی کسی ہدایت پر عمل نہ کیا جائے جس کا مقصد ڈیوٹی روسٹرم میں تبدیلی یا سکیورٹی حکام کو ڈسٹرب کرنا ہو۔ دوران پرواز معاون پائلٹ کی عملے کے دیگر حکام کے ساتھ کھلے بندوں تُو تکرار ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار 342 مسافروں میں سخت اضطراب اور پریشانی پائی جاتی ہے۔ وہ معاون پائلٹ کے ہر کسی سے الجھنے اور شارٹ ٹمپر رویے کی وجہ سے بیزار ہیں۔ اکثر مسافر موقع ملتے ہی اپنی نشستیں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ تمام مسافر اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں‘ حفاظتی بیلٹ باندھے رکھیں اور سینئر پائلٹ کے حتمی اعلان کا انتظارکریں۔ مسافروں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ معاون پائلٹ کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ ساتھ ہی سینئر پائلٹ نے زمینی حکام کو ہدایت کی ہے کہ معاون پائلٹ کے ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے کے سارے کیریئر ریکارڈ کی ازسر نو چھان بین کی جائے‘ خاص طور پر معاون پائلٹ کی طرف سے اب تک کی جانے والی تقرریوں کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ اہم عہدوں پر تعینات افراد کے کیریئر پر بھی مفصل رپورٹس تیار کی جائیں‘ بالخصوص غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے اور دیگر ملکوں میں سکونت رکھنے والے ایسے افراد جو معاون پائلٹ کے بہت قریب ہیں اور جو اہم نوعیت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا انفرادی ریکارڈ مرتب کرکے رپورٹ پیش کی جائے کیونکہ ایسی اطلاعات گردش میں ہیں کہ ایسے افراد اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے بعض غیرملکی پروازوں کے عملے سے براہ راست رابطے میں ہیں‘ جس سے معلومات کے افشا ہونے اور مفادات کے ٹکراؤ کے باعث قومی ادارے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دوسری جانب وزارت دفاع کے ہی ایک اور ذیلی ادارے سول ایوی ایشن کے مطابق زمینی صورتحال بھی اچھی نہیں اور بدستور بگڑ رہی ہے۔ سینئر پائلٹ کو ارسال کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن نااہلی اور بُرے رویوں کی بنیاد پر گراؤنڈ، آف لوڈ اور برطرف کئے گئے پائلٹس نے ایک ہنگامہ کھڑا کیا ہواہے اور سب مل کر ایک ہی طعنہ دے رہے ہیں کہ ''ہور چُوپو‘‘ دیکھا ہم نے کہا تھا ناں کہ اتنی بڑی پرواز نئے پائلٹ کے حوالے نہ کرو‘ یہ ضدی ہے ناسمجھ ہے کھلنڈرا کھلاڑی ہے۔ کھیل اور بین الاقوامی پرواز چلانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ اپنی جان تو خطرے میں ڈالے گا ہی ساتھ ساتھ پوری پرواز مسافروں، عملے کے ارکان اور سکیورٹی حکام کو بھی لے ڈوبے گا‘ لیکن آپ نے ہماری ایک نہ سُنی۔ ہم نے آپ لوگوں کی منت سماجت کی تھی کہ ہم اپنی اصلاح کر لیں گے ہمیں ایک موقع دے دیں ہمارے غیر ملکی فضائی کمپنیوں سے بھی اچھے مراسم ہیں ہم نئے روٹس بھی لے لیں گے مگر آپ سب اس نئے پائلٹ کی الفت میں مبتلا تھے اور اس کی چکنی چُپڑی باتوں میں آ گئے۔ اب تو آپ لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جتنا تعاون ہم سینئر پائلٹ سے کرتے تھے نیا پائلٹ تو اس کا عشر عشیر بھی تعاون نہیں کرتا۔ کیا ہوا اگر ہم کُچھ مال ادھر ادھر کر لیتے تھے لیکن ہم ساتھ ساتھ فلیٹ میں نئے منصوبے نئے جہاز بھی تو شامل کررہے تھے۔ جب سے یہ نیا پائلٹ آیا ہے بتائیں کتنے نئے جہاز نیشنل کیرئیر میں شامل کئے گئے؟ جواب ہے ایک بھی نہیں۔ سینئر پائلٹ کو بتایا گیا ہے کہ نئے پائلٹ کی پوری کمپنی کا مستقبل ہی خطرے میں ہے اور غیر ملکی فنڈنگ کیس‘ جسے کافی عرصے سے ہمارے کہنے پر موخر رکھا گیا تھا‘ اب مزید التوا میں رکھنا مُشکل ہوگا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں بڑا سخت اور واضح ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق الزام کو جھٹلانا بڑا مشکل ہو گا اور جس کے پاس فیصلے کا اختیار ہے اس کا کیریئر بھی ختم ہونے کو ہے اور اس نئے پائلٹ نے اس خودمختار ادارے کے سربراہ پر الزامات بھی لگائے ہیں۔ مختصر یہ کہ صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور مزید یہ کہ تمام آف لوڈ کئے گئے پائلٹس نے ایک ساتھ ملاقات کر کے درخواست دے دی ہے کہ اس کا فیصلہ فوراً کیا جائے اور یہ درخواست منظور بھی کر لی گئی ہے۔ اگر اس موقع پر کوئی مدد نہ کی گئی تو پوری کمپنی بلیک لسٹ ہو جائے گی اور قانون کے مطابق اس میں کام کرنے والے عملے کے تمام ارکان بھی نااہل ہو جائیں گے جنہیں آف لوڈ اور گراؤنڈ کرنا پڑے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اس کمپنی میں ہمارے بہت سے اہم ارکان بھی فرائض انجام دے رہے ہیں جنہیں ہم نے ڈیپوٹیشن پر ان کے حوالے کیا تھا لہٰذا فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں ان کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا اس لئے تجویز کیا جاتا ہے اگر فیصلہ مؤخر کروانا مشکل ہے تو پھر ضروری ہو گا کہ اس کمپنی میں کام کرنے والے اپنے ارکان کو واپس بلا لیں۔ اس اقدام سے اپنے لوگ تو محفوظ رہیں گے ہی ساتھ ساتھ نئے پائلٹ کی کمپنی کپتان سمیت بلیک لسٹ ہو جائے گی اور الزام بھی ہم پر نہیں آئے گا۔
اس تمام تر صورت حال سے آگاہی کے بعد سینئر پائلٹ خاموش ہے اور دوران پرواز ایسا کوئی قدم نہ خود اٹھا رہا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کر رہا ہے کیونکہ وہ اب بھی اس حق میں ہے کہ معاون پائلٹ کو مزید وقت دیا جائے۔ اگر اس وقت کوئی منفی اقدام کیا گیا تو معاون پائلٹ رد عمل میں کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا دے۔ ایسا کوئی بھی اقدام خود سینئر پائلٹ کے کیریئر کو متاثر کر سکتا ہے اور خراب موسمی حالات میں ایمرجنسی لینڈنگ سے کولیٹرل ڈیمج کا خدشہ ہے جس سے سینئر پائلٹ سب کو بچانا چاہتا ہے؛ البتہ سینئر پائلٹ کو اب بھی امید ہے کہ بہتری آجائے گی۔ معاون پائلٹ سے ہونے والی آخری دو ملاقاتیں اہم نوعیت کی تھیں جس میں ورکنگ کے معاملے میں اہم امور زیر بحث آئے۔ سینئر پائلٹ محفوظ لینڈنگ کا منتظر ہے اور وہ اب بھی اپنے معاون پائلٹ کو بچانا چاہتا ہے جس کا انتخاب جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ سینئر پائلٹ نے خود کیا ہے۔ ناکامی کی صورت میں سینئر پائلٹ کو خود بھی بہت سے طعنوں اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے وہ بچنا چاہتے ہیں۔ سب پرواز کی محفوظ لینڈنگ اور سینئر پائلٹ کے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں لیکن موسم کے سازگار ہونے میں ابھی بھی پانچ گھنٹے باقی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فارن فنڈنگ کیس ہے کیا اور قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
23 نومبر ، 2019
628376-683257900.jpg

زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد



پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے (فارن فنڈنگ) مبینہ طور پر بیرون ملک سے حاصل ہونے والی رقم کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے اس مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی درخواست کی ہے۔

ادھر الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 26 نومبر کو سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے ہدایت کی گئی ہے۔


فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟

2014 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے۔

اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔


فارن فنڈنگ کیس: کب کیا ہوا؟

14نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں اور غیر قانونی و بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔

تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا۔ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی چھان بین کے بارے میں اعتراض مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈز چھان بین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔

ہائی کورٹ میں یہ معاملہ تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہا اور 17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کے خلاف درخواست مسترد کردی۔

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ڈائریکٹر جنرل لا ونگ اور الیکشن کمیشن کے آڈیٹر جنرل کے افسران پر مشمل ایک کمیٹی قائم کی ۔

تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کمیٹی کے خلاف بھی درخواست دائر کر رکھی ہے، جو کہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔


فارن فنڈنگ پر قانون کیا کہتا ہے ؟

سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا مجاز ہوتا ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔

akhbar-baber.jpg

2014 میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔ فوٹو: سوشل میڈیا


پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے شق (15) کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلئیریشن جاری کر سکتی ہے جو کہ غیر ملکی فنڈز کے ذریعے قائم کی گئی ہو یا اس کے قیام کا مقصد پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف ہو یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔

قانون کے مطابق ڈیکلئیریشن کے جاری ہونے کے 15 روز کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں فیصلہ برقرار رکھنے کی صورت میں پارٹی تحلیل قرار دی جاتی ہے۔

قانون کے مطابق سیاسی جماعت تحلیل ہونے کی صورت میں اس جماعت کے تمام صوبائی اور وفاقی ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت بھی منسوخ ہو جائے گی۔

سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک فنڈنگ کے ساتھ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے کا ہے۔ ’اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو یہ بددیانتی ہے اور اسکے نتائج قانون کے مطابق آسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر تو واضح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو آرٹیکل 61 اور 62 کے تحت بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

5afcf702d81e9.jpg

تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سکروٹنی کمیٹی کے خلاف بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا


’پارٹی کے فنڈز کے ذرائع ظاہر نہ کرنے پر آرٹیکل 61 اور 62 کوئی بھی اتھارٹی استعمال کر سکتی ہے چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ۔‘

سینئیر قانون دان اکرم شیخ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 کے تحت کوئی غیر ملکی شہری یا غیر ملکی کمپنی کا سیاسی جماعت کو فنڈز فراہم کرنا ممنوعہ ہے۔’عمران خان نے فنڈز کے حوالے سے جو سرٹیفیکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کیا ہیں اس کی بنیاد پر بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والے فنڈز ضبط نہیں ہو سکتے کیونکہ غیر ملکی شہریوں یا غیر ملکی کمپنیز سے فنڈز حاصل کرنے کے حوالے سے قانون واضح ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اگر وفاقی حکومت ڈیکلئیریشن جاری نہیں کرتی تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ جماعت قانون کے تابع ہے یا نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فارن فنڈنگ کیس میں قانونی طور پر کوئی پیچیدگی نہیں، اپوزیشن اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جیسے بہت بڑی چیز سامنے آ گئی ہو، پی ٹی آئی نے نہ پہلے کچھ چھپایا اور نہ اب چھپائیں گے، اگر الیکشن کمیشن شواہد مانگے گا تو ہم ضرور دیں گے، فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے

وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہرکی نجی ٹی وی سے گفتگو
اتوار 24 نومبر 2019 21:40

pic_fdccc_1532770893.jpg._3


اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2019ء) وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں قانونی طور پر کوئی پیچیدگی نہیں، اپوزیشن اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جیسے بہت بڑی چیز سامنے آ گئی ہو، پی ٹی آئی نے نہ پہلے کچھ چھپایا اور نہ اب چھپائیں گے، اگر الیکشن کمیشن شواہد مانگے گا تو ہم ضرور دیں گے، پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ 2017ء میں حنیف عباسی کی درخواست پر پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ اتوار کو نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن 10 مہینے یہ کیس لیکر بیٹھا رہا اب اسکروٹنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ہم پیش ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کو سیاسی بنا دیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بلاتفریق احتساب ہو، سپریم کورٹ کی الیکشن کمیشن کو بلاامتیاز کارروائی کی ہدایت کا مطلب ہے کہ دیگر جماعتوں کے فنڈ بھی چیک کئے جائیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکائونٹس کی اسکروٹنی ہوتی رہی ہے، ہم نے سپریم کورٹ میں تمام ثبوت دے دیئے ہیں، نہ پہلے کچھ چھپایا نہ اب چھپائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو 400 صفحات پر مشتمل 15 والیمز دے دیئے ہیں، فارا کی ویب سائٹ پر تمام تفصیلات موجود ہیں، اب اگر الیکشن کمیشن دوبارہ شواہد مانگے گا تو دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اوورسیز پاکستانیز فنڈنگ کر رہے ہیں جس پر ہمیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے تو وہ مظلوم بن جاتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور جب عدالت ان کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو وہ مٹھائیاں تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حماد اظہر نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات شفاف تھے، عالمی اداروں کی اس حوالے سے رپورٹس موجود ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فنڈنگ کا ماخذ(سورس) معلوم کرنا نہایت اہم بات ہے ، اس طرح یہ معلوم ہو سکے گا کہ کون لوگ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پیسے دی کر اپنے مرضی کی پالیسی بنوانے کے خواہش رکھتے ہیں اور پاکستان کے عوام کی رائے اور امنگوں کے خلاف اپنی مرضی کی قانون سازی کروانا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پاکستان سے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
فنڈنگ کا ماخذ(سورس) معلوم کرنا نہایت اہم بات ہے ، اس طرح یہ معلوم ہو سکے گا کہ کون لوگ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پیسے دی کر اپنے مرضی کی پالیسی بنوانے کے خواہش رکھتے ہیں اور پاکستان کے عوام کی رائے اور امنگوں کے خلاف اپنی مرضی کی قانون سازی کروانا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ پاکستان سے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
زیادہ تر بیرونی فنڈنگ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی انٹرسٹ گروپ نے کی ہے تو یہ قانون کی پکڑ میں آئے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ جو ہندوستان اور اسرائیل کے افراد یا گروہوں کا تذکرہ ہے، اگر یہ سچ ہے، تو پاکستانی سیاست کے تناظر میں، اس کے سیاسی نتائج بھی ہوں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص مذہبی جماعتوں کے پاس حکومت کو بیک فٹ پر لانے کے لیے اچھا خاصا مواد مل جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ کیسے معلوم ہوا؟
کیونکہ دھرنے کے دوران عمران خان نے اپنے حامیوں سے جلسے کیلئے پیسے مانگے تھے جس پر ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے خوب پیسے اکٹھے کر کے دئے تھے۔ امریکہ سے 30 لاکھ ڈالر آئے تھے جسے خفیہ رکھا گیا تھا۔
پارٹی کے بانی اکبر ایس بابر نے جب یہ ایشو اٹھایا تو عمران خان نے اسے کان سے پکڑ کر گھر سے باہر پھینکوا دیا۔ وہ یہ کیس الیکشن کمیشن میں لے کر چلا گیا۔ تحریک انصاف تب سے اس کیس میں راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ جو ہندوستان اور اسرائیل کے افراد یا گروہوں کا تذکرہ ہے، اگر یہ سچ ہے، تو پاکستانی سیاست کے تناظر میں، اس کے سیاسی نتائج بھی ہوں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص مذہبی جماعتوں کے پاس حکومت کو بیک فٹ پر لانے کے لیے اچھا خاصا مواد مل جائے گا۔
آپ کو نہیں معلوم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس کتنا پیسا ہے۔ تحریک انصاف انہی پیسوں پر چلتی ہے۔ سرکاری خزانہ میں بار بار ڈاکہ ڈال کر تو ن لیگ اور پی پی پی چل رہی ہیں۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
کیونکہ دھرنے کے دوران عمران خان نے اپنے حامیوں سے جلسے کیلئے پیسے مانگے تھے جس پر ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے خوب پیسے اکٹھے کر کے دئے تھے۔ امریکہ سے 30 لاکھ ڈالر آئے تھے جسے خفیہ رکھا گیا تھا۔
آپ نے کتنے پیسے دئیے تھے؟ بہتر تو یہ تھا کہ ملکی خزانے میں جمع کرواتے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کو نہیں معلوم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس کتنا پیسا ہے۔ تحریک انصاف انہی پیسوں پر چلتی ہے۔ سرکاری خزانہ میں بار بار ڈاکہ ڈال کر تو ن لیگ اور پی پی پی چل رہی ہیں۔ :)
عامۃ الناس کے سامنے تفصیلات رکھنے میں کوئی امر مانع نہ ہونا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی ناروے میں تو زیادہ تر آپ کے دین کے لوگ شامل ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟
ایک الزام تو یہ بھی ہے کہ عمران خان کے امریکہ جلسے میں زیادہ تر لوگ قادیانی تھے۔ اسی طرح جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن اس لئے دی گئی کیونکہ وہ قادیانی ہیں۔ ان کا کرتارپور راہداری پراجیکٹ بھی اسی لئے عمل میں لایا گیا کیونکہ یہ روٹ قادیان کے سب سے قریب ہے۔ اگر یہ تمام الزامات درست ہیں تو پاکستان میں مقیم تحریک انصاف کے حامی اور سپورٹر بھی قادیانی ہوئے :)
 
Top