اپنے پیچھے دوڑتے سایوں کو سمجھانا پڑا
تھا اکیلے ہی مجھے جا نا جدھر جانا پڑا
سوچ کی مہلت ملی لیکن ہوا پھر بھی وہی
دل کے نزدیک تر تھا جو اس کو ٹھکرانا پڑا
اک ہوا لے جا چکی تھی سب ہوائیں شہر کی
ڈھونڈنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹ آنا پڑا
بے صدا گلیوں کی ہیبت ڈھونڈنے آئی مجھے
پھر مجھے ایسے لگا جیسے مجھے جانا پڑا
وسعت دشت ہوا تھی ایک میں تھا ایک وہ
خامشی ایسی کہ ہر اک حرف دہرانا پڑا