اپنے پیچھے دوڑتے سایوں کو سمجھانا پڑا

ظفری

لائبریرین
اپنے پیچھے دوڑتے سایوں کو سمجھانا پڑا​
تھا اکیلے ہی مجھے جا نا جدھر جانا پڑا​
سوچ کی مہلت ملی لیکن ہوا پھر بھی وہی​
دل کے نزدیک تر تھا جو اس کو ٹھکرانا پڑا​
اک ہوا لے جا چکی تھی سب ہوائیں شہر کی​
ڈھونڈنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹ آنا پڑا​
بے صدا گلیوں کی ہیبت ڈھونڈنے آئی مجھے​
پھر مجھے ایسے لگا جیسے مجھے جانا پڑا​
وسعت دشت ہوا تھی ایک میں تھا ایک وہ​
خامشی ایسی کہ ہر اک حرف دہرانا پڑا​
 
Top