اپنے لیے کچھ اس کے سوا راستہ نہیں

محمد حسین

محفلین
اپنے لیے کچھ اس کے سوا راستہ نہیں
ورنہ ستم گر آپ کوئی پالتا نہیں

بے چارگی میں قلب بھی مثلِ دماغ ہے
یہ سوچتا نہیں تو وہ کچھ چاہتا نہیں

کچھ ہے تو کیوں ہےاور نہیں کچھ تو کیوں نہیں
بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ جانتا نہیں

پیری کو اِس کے واسطے رکھ چھوڑیئے حسیں
یادوں کی خاطر آج جوانی عطا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
اپنے لیے کچھ اس کے سوا راستہ نہیں
ورنہ ستم گر آپ کوئی پالتا نہیں

بے چارگی میں قلب بھی مثلِ دماغ ہے
یہ سوچتا نہیں تو وہ کچھ چاہتا نہیں

کچھ ہے تو کیوں ہےاور نہیں کچھ تو کیوں نہیں
بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ جانتا نہیں

پیری کو اِس کے واسطے رکھ چھوڑیئے حسیں
یادوں کی خاطر آج جوانی عطا نہیں
//مکمل غزل میں قوافی غلط ہیں۔ یا تو مجرد قوافی ہوں۔ کہا نہیں، سنا نہیں، روا نہیں خدا نہیں وغیرہ۔ راستا، پالتا، چاہتا اور جانتا میں اگر ’تا‘ پہ ختم ہونے والے قوافی ہوں(جو ایطا کا سقم ہے) تو آخری شعر میں ’عطا‘ کو کیا کہا جائے؟ مفہوم کے لحاظ سے یہ شعر درست ہے۔ اور بس۔
کچھ ہے تو کیوں ہےاور نہیں کچھ تو کیوں نہیں
بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ جانتا نہیں

شرم، جرم، زخم قوافی غلط ہیں۔ ان میں دوسرا حرف ساکن ہے۔
 
Top