اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی

اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 20 فروری 2020


0
Translate
5e4e4f2d983c3.jpg

انور منصور خان جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں حکومت کی پیروی کررہے تھے—فائل فٹو: ڈان نیوز
اٹارنی جنرل فار پاکستان انور منصور خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردہ استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان بار کونسل جس کا میں چیئرمین ہوں، نے 19 فروری 2020 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے سے استعفٰی دے دوں‘۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ انور منصور خان جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواستوں میں حکومت کی نمائندگی کررہے تھے۔

استعفے میں انہوں نے کہا کہ ’کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ ایسوسی بار ایسوسی ایشن کے تاحیات رکن کی حیثیت اور اس سے قبل ایڈوکیٹ جنرل سندھ، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ کےجج کے عہدے پر خدمات انجام دینے کی حیثیت سے میں بار میں اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور پاکستان بار کونسل کے اتحاد اور پیشہ ورانہ مہارت کے اصولوں پر اپنے یقین کی تصدیق چاہتا ہوں جس کے لیے پاکستان بار کونسل ہمیشہ کھڑا ہوا‘۔

'اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد دیں یا تحریری معافی مانگیں'

اپنے استعفے کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ’اس کے مطابق میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے اپنا استعفیٰ دیتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اسی فوری طور پر قبول کیا جائے‘۔

پاکستان بار کونسل کا مطالبہ
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدرعابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے 'غیرمعمولی طرزعمل' پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

قبل ازیں پی بی سی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی حکومتی زیراثر عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔

پی بی سی نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا عدالت عظمیٰ میں غیرمعمولی رویہ پریشان کن ہے لہٰذا ان کے اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

تاہم بعد ازاں توہین عدالت کی درخواست کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن اسے وقت پر دائر نہیں کیا جاسکا۔

معاملے کے آغاز کیسے ہوا؟
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے۔

اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے وکیل اپنے دلائل دے چکے ہیں اور اب حکومتی موقف کے لیے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے تھے، جس پر انہوں نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

تحریر جاری ہے‎
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز ریفرنس: ناخوشگوار انداز میں اٹارنی جنرل کے دلائل کا آغاز

18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈٰیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز' تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں دوبارہ سماعت ہوئی تھی۔

اس سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنا دلائل دیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، اٹارنی جنرل

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

حکومت نے اٹارنی جنرل سے استعفیٰ مانگا تھا، معاون خصوصی
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے نجی چینل اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے 2 روز قبل سپریم کورٹ میں جو بیان دیا تھا وہ ہمارے لیے بھی سرپرائز تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ آج وفاقی سیکریٹری قانون نے وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان بھی جمع کروایا ہے ججس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے بیان کا وفاقی حکومت اور کسی فریق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ بیان غیر مجاز طریقے سے کسی ہدایت کے بغیر دیا گیا تھا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نے اسی تناظر میں سپریم کورٹ میں بیان جمع کروایا ہے کیونکہ وفاقی حکومت، وزیر قانون فروغ نسیم ہم سب سپریم کورٹ اور تمام ججز کا بے حد احترام کرتے ہیں اور اسی لیے وضاحتی بیان جمع کروایا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کو عہدے سے الگ ہونے کا کہا گیا تھا، حکومت نے ان سے استعفی مانگا تھا۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ پاکستان بار کونسل نے مجھ سے استعفیٰ مانگا تھا، اگر اپنی برادری کہتی ہے کہ استعفیٰ دیں تو ان کی بات کو تسلیم کرنا بنتا ہے۔

انور منصور بحیثیت اٹارنی جنرل فار پاکستان
یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد 18 اگست کو انور منصور خان کو اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا تھا تاہم خاصی تاخیر کے بعد 28 اگست کو ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

انور منصور خان کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل ہیں جنہوں اس سے قبل عمران خان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر ان کی جانب سے پیروی کی تھی۔

خیال رہے کہ انور منصور خان اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں بھی اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر فرائض انجام دے چکے تھے۔

تاہم اس وقت انہوں نے 2 اگست 2010 کو اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ مبینہ اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ ہر وہ سیاسی جماعت جو حکومت بناتی ہے مرکز میں اپنی مرضی کے کسی نمایاں وکیل کو اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر تعینات کرتی ہے جس پر اسے مکمل اعتماد ہو۔

اٹارنی جنرل فار پاکستان کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے عدالت عظمیٰ میں وفاق کی نمائندگی کرنے اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جسے قانون کی گہرائی کے ساتھ مکمل سمجھ، بار کا خاصہ تجربہ اور سپریم کورٹ کا جج تعینات ہونے کی قابلیت پر پورا اترتا ہو۔
 

فرقان احمد

محفلین
اٹارنی جنرل انور منصور خان اپنے عہدے سے مستعفی
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 20 فروری 2020


'اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد دیں یا تحریری معافی مانگیں'

اپنے استعفے کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ’اس کے مطابق میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے اپنا استعفیٰ دیتا ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ اسی فوری طور پر قبول کیا جائے‘۔

پاکستان بار کونسل کا مطالبہ
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدرعابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے غیر مشروط تحریری معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے 'غیرمعمولی طرزعمل' پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

قبل ازیں پی بی سی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان بار کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی حکومتی زیراثر عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔

پی بی سی نے کہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا عدالت عظمیٰ میں غیرمعمولی رویہ پریشان کن ہے لہٰذا ان کے اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی جائے گی۔

تاہم بعد ازاں توہین عدالت کی درخواست کا مسودہ تیار کیا گیا تھا لیکن اسے وقت پر دائر نہیں کیا جاسکا۔

معاملے کے آغاز کیسے ہوا؟
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کے لیے دائر کی گئی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے۔

اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کے وکیل اپنے دلائل دے چکے ہیں اور اب حکومتی موقف کے لیے اٹارنی جنرل کو دلائل دینے تھے، جس پر انہوں نے 18 فروری کو اپنے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

تحریر جاری ہے‎
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز ریفرنس: ناخوشگوار انداز میں اٹارنی جنرل کے دلائل کا آغاز

18 فروری کو اپنے دلائل کے پہلے روز ہی صورتحال اس وقت ناخوشگوار ہوگئی تھی جب اٹارنی جنرل نے شعلہ بیانی سے دلائل کا آغاز کیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کے سامنے ایک بیان دیا تھا، جس پر ججز نے انہیں استثنیٰ دیتے ہوئے بیان سے دستبردار ہونے کا کہا تھا، ساتھ ہی مذکورہ بیان کو ’بلاجواز‘ اور ’ انتہائی سنگین‘ قرار دیا تھا۔

اس بیان سے متعلق عدالت نے میڈٰیا کو رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔

اسی روز کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا کہا تھا جو عدالتی بینچ کے لیے خوشگوار نہیں تھا، جس کے جواب میں بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے ردعمل دیا تھا کہ ’یہ بلاجواز' تھا۔

ساتھ ہی عدالت کے ایک اور رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انور منصور کو اپنے بیان سے دستبردار ہونا چاہیے۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بیان واپس لینے سے انکار کردیا تھا جس کے ساتھ ہی عدالت نے میڈیا کو بیان شائع کرنے سے منع کردیا تھا کیونکہ بعدازاں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ ’اٹارنی جنرل اپنے بیان سے دستبردار ہوگئے تھے‘۔

بعد ازاں 19 فروری کو جسٹس عیسیٰ کے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں دوبارہ سماعت ہوئی تھی۔

اس سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کل آپ نے اتنی بڑی بات کردی ہے، یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں، تحریری طور پر اپنا دلائل دیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئین اور نظام کی مضبوطی کے باعث معاملہ جلد نمٹ گیا، اٹارنی جنرل

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ تحریری دلائل نہیں دے سکتا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا، اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں، اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں۔

حکومت نے اٹارنی جنرل سے استعفیٰ مانگا تھا، معاون خصوصی
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے نجی چینل اے آر وائے نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے 2 روز قبل سپریم کورٹ میں جو بیان دیا تھا وہ ہمارے لیے بھی سرپرائز تھا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ آج وفاقی سیکریٹری قانون نے وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک بیان بھی جمع کروایا ہے ججس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے بیان کا وفاقی حکومت اور کسی فریق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ بیان غیر مجاز طریقے سے کسی ہدایت کے بغیر دیا گیا تھا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ ہم نے اسی تناظر میں سپریم کورٹ میں بیان جمع کروایا ہے کیونکہ وفاقی حکومت، وزیر قانون فروغ نسیم ہم سب سپریم کورٹ اور تمام ججز کا بے حد احترام کرتے ہیں اور اسی لیے وضاحتی بیان جمع کروایا گیا۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کو عہدے سے الگ ہونے کا کہا گیا تھا، حکومت نے ان سے استعفی مانگا تھا۔

علاوہ ازیں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ پاکستان بار کونسل نے مجھ سے استعفیٰ مانگا تھا، اگر اپنی برادری کہتی ہے کہ استعفیٰ دیں تو ان کی بات کو تسلیم کرنا بنتا ہے۔

انور منصور بحیثیت اٹارنی جنرل فار پاکستان
یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد 18 اگست کو انور منصور خان کو اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا تھا تاہم خاصی تاخیر کے بعد 28 اگست کو ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

انور منصور خان کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل ہیں جنہوں اس سے قبل عمران خان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر ان کی جانب سے پیروی کی تھی۔

خیال رہے کہ انور منصور خان اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں بھی اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر فرائض انجام دے چکے تھے۔

تاہم اس وقت انہوں نے 2 اگست 2010 کو اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ مبینہ اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ ہر وہ سیاسی جماعت جو حکومت بناتی ہے مرکز میں اپنی مرضی کے کسی نمایاں وکیل کو اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر تعینات کرتی ہے جس پر اسے مکمل اعتماد ہو۔

اٹارنی جنرل فار پاکستان کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے عدالت عظمیٰ میں وفاق کی نمائندگی کرنے اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جسے قانون کی گہرائی کے ساتھ مکمل سمجھ، بار کا خاصہ تجربہ اور سپریم کورٹ کا جج تعینات ہونے کی قابلیت پر پورا اترتا ہو۔
غصہ ناک پر، اور استعفیٰ جیب میں! جو اٹارنی جنرل کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں؛ یہی معاملہ ہے۔ یہ تو ہو کر ہی رہنا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
غصہ ناک پر، اور استعفیٰ جیب میں! جو اٹارنی جنرل کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں؛ یہی معاملہ ہے۔ یہ تو ہو کر ہی رہنا تھا۔
تحریک انصاف کے نعیم بخاری اور بابر عوان نے بھی اٹارنی جنرل بننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اب یہ مقدمہ جنرل باجوہ کو خود ہی لڑنا پڑے گا۔
 
حکومت وقت کے جھوٹ ایک بار پھر ایکسپوز ہوگئے۔ سابق اٹارنی جنرل نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ نہ تو یہ موقف خالصتاً ان کا اپنا تھا اور نہ ہی حکومتی دعوؤں کے برعکس ان سے استعفیٰ مانگا گیا۔

 

جاسم محمد

محفلین
حکومت وقت کے جھوٹ ایک بار پھر ایکسپوز ہوگئے۔ سابق اٹارنی جنرل نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ نہ تو یہ موقف خالصتاً ان کا اپنا تھا اور نہ ہی حکومتی دعوؤں کے برعکس ان سے استعفیٰ مانگا گیا۔
آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ حکومت وقت جھوٹ بول رہی ہے؟ عین ممکن ہے اٹارنی جنرل ہی بار کونسل کے دباؤ کی وجہ سے غلط بیانی سے کام لے رہے ہوں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا کیس انہوں نے اپنے مضحکہ خیز دلائل کے ساتھ جان بوجھ کر خراب کیا۔ اور جب سپریم کورٹ کے ججز اکتا گئے تو ان کو طیش دلانے کیلئے مذکورہ جج کی معاونت کا الزام لگا دیا۔ جس پر ججز آپے سے باہر ہو گئے اور حکومتی ٹیم شاک میں چلی گئی کہ یہ اٹارنی جنرل سرکار کا ملازم ہے یا بار کونسل کا۔ اپنے استعفے میں بھی اٹارنی جنرل نے بار کونسل کا ذکر کیا ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے تھے۔ تنخواہ حکومت سے لیتے تھے اور اندر سے وکلا، جج برادری یعنی جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اسی لئے فل بینچ کے سامنے مضحکہ خیز دلائل دے کر حکومتی کیس خراب کیا۔ اور اب سارا الزام حکومت پر ڈال کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔
 

آورکزئی

محفلین
جاسم صاحب کبھی کبھی حقیقت بھی بیان کیا کریں۔۔۔ یا کم از کم برداشت کیا کریں۔۔۔۔۔۔ اب یہاں یہ بات کیسے بنتی ہے کہ اپ کو کیسے معلوم ہوا حکومت وقت جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔
حلانکہ اپ کو سب پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔۔ لیکن مجبوری ہے اپکی کہ دفاع ہی کرنا ہے اس ’’ اہل ‘‘ حکومت کی۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
اٹارنی جنرل کے دلائل فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے مشاورت سے تیار کئے کیس کی سماعت سے پہلے بھی وہ کورٹ روم میں مشاورت کر رہے تھے پہلے یہ کیس پیر کے دن کیلئے فکس تھی اس دن بھی AG فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کے ساتھ کورٹ روم میں آئے تھے اس دن ایک جج کی بیماری کیوجہہ سے کیس ملتوی ہوا
 

جاسم محمد

محفلین
اب یہاں یہ بات کیسے بنتی ہے کہ اپ کو کیسے معلوم ہوا حکومت وقت جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔
حلانکہ اپ کو سب پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔۔
جب آپ کے پاس پورے معاملہ کی معلومات موجود نہیں تو محض حکومتی وزرا اور اٹارنی جنرل کے میڈیا پر دئے گئے بیانات کے بعد کیسے فیصلہ ہوگا کہ کون سچ یا جھوٹ بول رہا ہے؟ اگر اٹارنی جنرل کے پاس ججز کے خلاف الزامات کے ثبوت ہوتے تو ان کو پیش کرنے سے کون روک سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کا کیس خراب کرنے کیلئے سپریم کور ٹ میں جان بوجھ کر جھوٹ بولا اور بعد میں غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جب ثبوت سرے سے موجود ہی نہیں تھے تو سپریم کورٹ کے ججز پر یہ گھٹیا الزام کیوں لگایا کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل اب اتنا بھی کاکے بچے نہیں کہ انہیں معلوم نہ ہوتا کہ سپریم کورٹ میں اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل نے اپنے بیان پر سپریم کورٹ سے 'غیر مشروط' معافی مانگ لی
 

جاسم محمد

محفلین
اٹارنی جنرل کے دلائل فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے مشاورت سے تیار کئے کیس کی سماعت سے پہلے بھی وہ کورٹ روم میں مشاورت کر رہے تھے پہلے یہ کیس پیر کے دن کیلئے فکس تھی اس دن بھی AG فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کے ساتھ کورٹ روم میں آئے تھے اس دن ایک جج کی بیماری کیوجہہ سے کیس ملتوی ہوا
سرکاری ٹیم کیس کی معاونت کیلئے کورٹ روم میں ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ البتہ کیس کی سماعت کے دوران فاضل ججوں کی طرف سے پوچھے جانے والا سوالات کا جواب اٹارنی جنرل کو ہی دینا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب ججز کے سوالات کا جواب دینے کی بجائے ان کا وقت ضائع کرتے رہے۔ اور پھر ان کو مزید زچ کرنے کیلئے الزام لگا دیا کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ان حقائق کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر اپنا کیس خراب کر رہی ہے تو آپ کو سو توپوں کی سلامی!
 
نیازی صاحب بہرحال پھنس گئے۔ اس پر تو آپ کے اپنے لفافہ شاہد مسعود بھی متفق ہیں۔ فاشسٹ انداز میں عدالتوں پر کنٹرول کی جو کوشش جسٹس شوکت صدیقی سے شروع کی پھر جسٹس فائز عیسیٰ اور پشاور ہائیکورٹ کے جج جنھوں نے پرویز مشرف کو سزا سنائی۔ آج اس کوشش کا راز طشت ازبام ہوگیا۔ معصوم صورت بناکر سارا الزام اٹارنی جنرل پر تھوپ دیا لیکن یہ خیال نہ آیا کہ وہ سلطانی گواہ بن گیا تو رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ ہائے ری قسمت!!!!
 

جاسم محمد

محفلین
نیازی صاحب بہرحال پھنس گئے۔
جسٹس فائز عیسیٰ ، جسٹس شوکت صدیقی اور پشاور ہائی کورٹ کے وہ معزز ججز جنہوں نے مشرف کو سزا سنائی۔ ان سب کی لڑائی نیازی صاحب سے تھی ہی کب جو وہ اب پھنس گئے ہیں؟
یہ سب بیچارے تو خود ملک کی طاقتور ایجنسیوں اور مقتدرہ کے ستائے ہوئے ہیں اور کبھی کبھار اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ اور پھر جلد ہی زیر عتاب آجاتے ہیں۔ نیازی صاحب کو صرف مہرہ بنایا گیا ہے۔ پیچھے سے لڑائی تو وہی لڑ رہے ہیں جو ہمیشہ سے لڑتے آئے ہیں۔
 
جسٹس فائز عیسیٰ ، جسٹس شوکت صدیقی اور پشاور ہائی کورٹ کے وہ معزز ججز جنہوں نے مشرف کو سزا سنائی۔ ان سب کی لڑائی نیازی صاحب سے تھی ہی کب جو وہ اب پھنس گئے ہیں؟
یہ سب بیچارے تو خود ملک کی طاقتور ایجنسیوں اور مقتدرہ کے ستائے ہوئے ہیں اور کبھی کبھار اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ اور پھر جلد ہی زیر عتاب آجاتے ہیں۔ نیازی صاحب کو صرف مہرہ بنایا گیا ہے۔ پیچھے سے لڑائی تو وہی لڑ رہے ہیں جو ہمیشہ سے لڑتے آئے ہیں۔
اور نیازی صاحب اتنے بھولے ہیں کہ وہ مہرہ بن بھی گئے۔ اب رونا کس بات کا!!!
 

جاسم محمد

محفلین
اور نیازی صاحب اتنے بھولے ہیں کہ وہ مہرہ بن بھی گئے۔ اب رونا کس بات کا!!!
ہمیشہ کی طرح گول دائروں میں سفر۔۔۔

پھر وہی پرانی غلطیاں

حامد میر

24 فروری ، 2020

214921_9105288_updates.jpg

فوٹو: فائل

یہ حکمران بھی بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں، بار بار پرانی غلطیاں ہی کیے جاتے ہیں، نئی غلطیوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے، دوسروں کیلئے گڑھا کھودتے ہیں اور پھر خود ہی اس میں گر کر جمہوریت کو خطرات سے دوچار کر دیتے ہیں، انور منصور خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

وہ پچھلے 9 ماہ سے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل قرار دلوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس دوران لندن کے کئی چکر بھی لگا چکے تھے لیکن اچانک ٹھوکر کھا کر اس گڑھے میں خود گر گئے جو انہوں نے وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ مل کر جج صاحب کیلئے کھودا تھا۔

پچھلے سال مئی میں حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس فائل کیا تو انور منصور خان کے کافی تحفظات تھے لیکن اٹارنی جنرل کی حیثیت سے انہیں حکومت کا مقدمہ تو ہر حال میں لڑنا تھا۔

مقدمہ بہت کمزور تھا، حکومت نے وکلا کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کردار کشی کی ایک مہم چلائی گئی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود جج صاحب کے خلاف مالی بدعنوانی یا منی لانڈرنگ کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہ لایا جا سکا۔

ریفرنس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام بیرونِ ملک موجود جائیداد اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیوں نہیں کی، یہ ریفرنس دائر کرنے کی وجہ 2017ء میں فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا لکھا ہوا فیصلہ تھا جس پر تحریک انصاف، ایم کیو ایم، شیخ رشید احمد اور کچھ اداروں کو شدید اعتراضات تھے۔

جن دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر ریفرنس دائر کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس ناچیز نے کچھ صاحبانِ اختیار کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے گئے فیصلے کو اَنا کا مسئلہ نہ بنایا جائے کیونکہ ماضی میں ان سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی ناراض تھی۔

اب اگر تحریک انصاف بھی ناراضی کا اظہار کرے گی تو ایسا لگے گا ہم بدستور پرانے پاکستان میں رہتے ہیں، یہ نیا پاکستان نہیں ہے، مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر دھکیلا جا رہا ہے اور ماضی کی حکومتوں کی پرانی غلطیوں کو بڑے بےہنگم طریقے سے دہرایا جا رہا ہے۔

صاحبانِ اختیار کی ناراضی مول لیتے ہوئے اس ناچیز نے 15اپریل 2019ء کو ’’شہداء کے ساتھ غداری‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں حکمرانوں کو آگاہ کیا کہ آج آپ فیض آباد دھرنا کیس میں جس جج کے فیصلے سے ناراض ہیں 2016ء میں اسی جج نے کوئٹہ بم دھماکے کی انکوائری رپورٹ میں اس وقت کی حکومت کی غلطیوں اور غفلت کی نشاندہی کی تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سیخ پا ہو گئے تھے اور انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ کے خلاف ناصرف پریس کانفرنس کی بلکہ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا حالانکہ معزز جج صاحب نے اس رپورٹ کے ذریعہ کوئٹہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے 70وکلا اور ان کے اہلخانہ کو انصاف دلانے کی کوشش کی تھی۔

میں نے اپنے کالم کا اختتام ان الفاظ پر کیا ’میں دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کی طرف سے حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججوں کو متنازع بنانے کے بجائے ان کے لکھے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کریں اور ان شہدا کے ساتھ غداری نہ کریں جن کو قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف دینے کی کوشش کی‘۔

اس کالم پر مجھے کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست مسترد کرکے ایک متنازع فیصلہ دیا، جب میں نے پوچھا کہ نیب کی درخواست مسترد کرنے والے تین رکنی بنچ میں دو اور جج صاحبان بھی تھے، آپ ان پر الزام کیوں نہیں لگاتے تو کوئی جواب نہ تھا۔

سچ یہ تھا کہ 2012ء میں قاضی فائز عیسیٰ نے میموگیٹ کمیشن کی رپورٹ میں حسین حقانی کو قصوروار لکھا تو پیپلز پارٹی نے انہیں سازش کا مرتکب قرار دیا، 2016ء میں کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں وزیر داخلہ کی کالعدم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتوں کا ذکر آیا تو مسلم لیگ (ن) کو اچھا نہیں لگا اور پھر جب فیض آباد دھرنا کیس میں انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اگر 12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام کرنے والوں کو سزا ملتی تو فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کو تشدد کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔

انہوں نے 2014ء میں تحریک انصاف کے دھرنے کا بھی ذکر کیا اور بعض اداروں کو آئین کی حدود میں رہنے کی تلقین کی تھی، 18اپریل 2019ء کو میں نے اندھیری رات کے عنوان سے اپنے کالم میں دوبارہ عرض کیا کہ تحریک انصاف کو ادارہ انصاف کے ساتھ لڑائی زیب نہیں دیتی جو آپ کو اس لڑائی میں دھکیل رہا ہے وہ آپ کا دوست ہے نہ اپنا دوست ہے، چار دن کی چاندنی کے بعد اندھیری رات کی طرف مت بڑھیے۔

اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور سوچیے کہ وزیراعظم کو عدلیہ سے لڑائی نہ کرنے کا بار بار مشورہ دینے میں میرا کیا مفاد تھا؟ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے عمران خان کی غلطیاں دراصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی غلطیوں کا ایکشن ری پلے نظر آرہی تھیں۔

ریاض حنیف راہی نے 2016ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نااہل قرار دلوانے کیلئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس کو رجسٹرار نے تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ 2018ءمیں جسٹس ثاقب نثار نے اس درخواست پر سماعت شروع کر دی جس میں علی ظفر بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف فریق بن گئے۔

مجھے اس درخواست پر ہونے والی سماعتوں کو غو ر سے سننے کا موقع ملا اور آخر میں یہ درخواست مسترد ہو گئی، مئی 2019ء میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف باقاعدہ ریفرنس دائر کر دیا گیا جسے بعد ازاں انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

گزشتہ ہفتے ان کی درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ ان کے جن اہلخانہ کی جائیدادوں پر اعتراض کیا گیا، وہ اہلخانہ جج صاحب کے زیر کفالت نہیں لیکن ان کی جاسوسی کیلئے برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بعدازاں انور منصور خان نے عدالت میں کچھ ایسی باتیں کیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ دیگر ججوں کی بھی جاسوسی کرائی جا رہی ہے۔

اس معاملے پر انور منصور خان کو استعفیٰ دینا پڑ گیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ کسی کے کہنے پر نہیں، اپنی مرضی سے دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے وزیر قانون کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

حکومت کو یہ معاملہ ختم کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا، یہ معاملہ جج صاحب کے اہلخانہ اور ایف بی آر کے درمیان طے ہو سکتا ہے۔

اگر حکومت جج صاحب پر اپنے الزامات ثابت نہ کر سکی تو پھر وزیر قانون اور وزیراعظم پر توہین عدالت کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا۔ خدارا! پرانی غلطیاں مت دہرائیے اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیجئے۔

کل کو فروغ نسیم کسی نئے نیلسن منڈیلا کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور آپ انہیں برا بھلا کہنے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔
 
Top