arifkarim
معطل
نذرانہ یوسفزئ
بچوں تم سب آ تو گئے ہو لیکن کاش تم نہ اتے۔ دیکھو سلمان امریکہ سے ایا ، ہارون کینڈا اور ثانیہ فرانس سے ائی ہے۔ یہ سب بچے پاکستان یعنی اپنے اباو اجداد کا ملک دیکھنے ائے ہیں۔ اور میں یہاں کی مجبوری کی باسی ان سب کو اب یہاں کی سیر کروارہی ہوں۔
چلو پہلے اپنے ہی شہر پشاور چلتے ہیں۔ پشاور پاکستان کے دو بڑے تاریخی شہروں میں سے ایک ہے۔ اس لئے اس کو دیکھ کر اگر بیس سالہ جوان کے چہرے پر بھی “ پرانا پن” یا تھکاوٹ کے اثار نظر ائے تو اسکو اس اثار قدیمہ کا عکس سمجھ لینا۔ اگے دیکھئے۔ کچھ لاشیں بکھری پڑی ہے لیکن لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ نہیں یہ اپنے اپ کو بچانے نہیں بھاگ رہے۔ انکے گھر بچے کھانے کا انتظار کرہے ہیں توکوئی کام کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ان سب کی اس بھاگ دوڑ میں دن میں ایک ادھ دھماکہ ہوجاتا ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ دھماکے کرنے والے اپنے ہی لوگ ہیں۔ ہم ان سے بات کررے ہیں۔ تب تک تم کو اس ادمی کی کہانی سناتی ہوں جو سڑک کے کنارے پڑا بھیک مانگ رہا ہے۔ اسکی شکل کو غور سے دیکھو۔ کیا اسکی شکل پاکستان سے نہیں ملتی۔ ہر وقت بس مانگتا ہی رہتا ہے۔
اس شہر کی سب سے خاص بات مہمان نوازی ہے۔ اس نے ہر مہمان کو سر انکھوں پر بھٹایا۔ کچھ مہمانو نے تو ایبٹ اباد کی بہتر سیکورٹی انتظامات کیوجہ سے وہاں کچھ سال ارام سے گزارے۔ہم نے انکا بہت خیال رکھا۔
اس شہر کو ماشاللہ سب نے لوٹا ہے۔ اسکے اپنوں غیروں سب نے اچھی طرح سے لوٹا ہے۔
چلو اب چلتے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی۔ یہاں ہر مزار قائد ہے۔ وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ ورنہ بہت سارے سوال ہیں اور مزار بات نہیں کرتے۔ کراچی کو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ اور اب موت کا شہر کہلاتا ہے۔ سنا ہے یہاں پر مارنے سے پہلے اپکا شناختی کارڈ ضرور دیکھا جاتا ہے۔ اگر اپکو اپکے اللہ نے کسی خاص قومیت کا پیدا کیا ہے تو پھر اپکو اسی سمے اللہ کے پاس لوٹنا ہوگا۔
کراچی کی کہانی مختصر ہے۔ یہاں کے قاتلوں سے بات چیت نہیں ہوتی۔ انکو بڑے بڑے عہدے دیے جاتے ہیں۔
اجاو اب کویٹہ کی باری ہے۔ اس شہر کی کہانی بھی پشاور اور کراچی سے مختلف نہیں۔ کوئٹہ جس صوبہ میں واقعہ ہے۔ اس صوبے کیساتھ ایک لفظ وابستہ ہوگیا ہے اور وہ لفظ ہے “ مسخ شدہ” ۔۔ یہاں مسخ شدہ لاشیں ملنے کیوجہ سے کچھ لوگوں کو تو بالکل کوئی مسلہ ہی نہیں۔ جیسے لاشیں نہیں کوئی خزانہ مل رہا ہو۔ کویٹہ میں بھی بم دھماکے ہونا روز کا معمول ہے۔ لیکن بچو، میں نے کہا تھا ناں۔ ہم دھماکے کرنے والوں سے بات چیت کررہے ہیں، وہ پاکستان کے دشمن تھوڑی ہے ؟ اپنے ہی بھائی ہیں۔ اب پچاس ہزار قتل کرنا کوئی بڑی بات تو نہیں۔ بس کچھ امن دشمن ڈالر خوروں نے ان معصوموں کیخلاف اودھم مچائی ہے۔
بچوں پریشان مت ہو۔ اب اصلی پاکستان دیکھنے کا وقت آچکا ہے۔ آنکھیں کھولو۔۔
سامنے دیکھو، وہ بڑے بڑے شاپنگ مال۔۔ اچھے سکول ، اور تو اور غریب بچوں کے لئے دانش سکول سسٹم۔ میٹرو کا بہتریں نظام او کشادہ سڑ کیں۔۔ بچوں یہی تو ہمارا اصلی پاکستان ہے، ہمارا پیارا شہر لاہور۔ دیکھوناں ؛ ویسے ہی لوگ کہتے ہیں پاکستانی یہ اور وہ ، سب دنیا والوں کو اصلی پاکستان دیکھنا چاہیے۔ شکر اللہ کا
http://www.enkaar.com/2014/03/18/آو-بچو-سیر-کراو-تم-کو-پاکستان-کی/