آسٹریا کے صدرنسل پرستی کا شکار بچی کےحق میں بول پڑے ۔

l_431158_030953_updates.jpg

آسٹریا میں رواں سال پیدا ہونے والی پہلی بچی مسلمان ہونے کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کے نشانے پر ہے۔ آسٹریا کے صدر نے اپنی خاموشی توڑ دی اور اس کے حق میں بول پڑے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کے مطابق مسلم خاتون ’نیمی تمگا ‘ نے یکم جنوری کی رات 12 بج کر 47 منٹ پر بچی کو جنم دیا اور تب ہی یہ بچی سال 2018 کی پہلی بچی قرار پائی۔ لیکن مسلمان ہونے کے باعث اسے اور اس کے گھر والوں کو کافی تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔

Austria%2002_l.jpg

نئے سال کے آغاز میں سب سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے اسی لیے اس بچی پر اختلافات جاری ہیں کہ کسی مسلم بچے کو ’نیو ائیر بےبی‘ کا ٹائٹل نہیں ملنا چاہیے۔ ’اسیل تمگا‘ کی پیدائش پر وہاں کےمقامی میڈیا نے گھروں والوں کےساتھ مل کر خوشی منائی اورساتھ ہی ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
تصویروں کو دیکھتے ہی مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوشل میڈیا پر تنقید شروع کردی ۔تصویر میں اسیل کی والدہ حجاب پہنے ہوئے تھیں تو ایک صارف نے لکھا کہ ’اس نے اسکارف کیوں پہنا ہے، کیا اس کو کینسر ہے؟ ‘ کسی نے لکھا کہ ’ایک اور دہشت گرد پیدا ہوگیا‘ اور اس جیسے کئی تبصرے لوگوں کی جانب سے کیے گئے ۔
اس بڑھتے ہوئے تنازع کو دیکھتے ہوئے آسٹریا کے صدرنے اسیل کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے بےبی اسیل کو پہلے دنیا میں آنے کی مبارک باد دی اور پھر کہا کہ ان کے لیے تمام بچے برابر ہیں۔

Austria%2001_l.jpg

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پورا حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں پوری آزادی کے ساتھ آئیں اور ان کو تمام حقوق بھی ملنے چائیں۔
اس معاملے پر آسٹریا کی ایک این جی او نے بھی تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر نسل پرستی اور مذہب پرستی کس حد تک ہے۔
کسی کی خوشی لوگوں سے برداشت نہیں ہوتی جیسے اس خاندان کی ہنستی مسکراتی تصویر نفرت کی نظر ہو گئی۔
 
چاہیں آپ جتنا بھی ان لوگوں میں گھل مل جائیں پر آستین میں چھپا سانپ آخر ڈنک مار ہی دیتا ہے۔ صرف سچا مسلمان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کے دل میں جانور تک کے لئے بھی ہمدردی ہوتی ہے۔بہت سے لوگوں کو میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں ماشاءاللہ تھے، تو بہترین اور اچھے خیالات کے مالک ،مگر دیس کیا بدلا انکی سوچیں ہی بدل گئیں۔ انکا رہن سہن، انکی اخلاقیات و اقدار، ان کا بات چیت کرنے کا انداز، ان کے اسلام کے بارے میں خیالات، غرض ان کا دل و دماغ ان نسل پرستوں اور پکے اسلام دشمنوں جیسا ہو گیا۔ بہرحال اسی لئے قرآنِ کریم نےصاف صاف فرمادیا جسکا مفہوم ہے کہ مسلمان جتنا چاہیں ان سے دوستی کی گانٹھیں باندھیں پر یہ لوگ کبھی بھی سچے دوست نہیں ہو سکتے۔ انکی اسلام اور مسلمانوں سے ازلی و ابدی دشمنی ہے اور رہے گی۔ انکی نفرت سے معصوم دودھ پیتے بچے بھی نہ بچ سکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین
 
آخری تدوین:
Top