ام اویس

محفلین
دادی جان آج کیا تاریخ ہے؟ سوہا نے لکھتے لکھتے سر اٹھا کر پوچھا:

آٹھ تاریخ ہے۔ دادی جان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سعود نے بیگ میں کتابیں ڈالتے ہوئے جواب دیا:

دادی جان سمجھ گئیں اور مسکراتے ہوئے، اپنی میز پر رکھی کتابوں میں سے ماہنامہ بقعہ نور نکالا اور دکھاتے ہوئے بولیں: ”رسالہ مل گیاہے، ٹائم ٹیبل کے مطابق آج کا کام مکمل ہو جائے تو تمہیں پڑھنے کے لیے مل جائے گا۔“

”جی دادی جان! میرا کام مکمل ہو گیا ہے ۔“ سوہا نے کاپی بند کر کے بیگ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: ہر بار کی طرح آپ ہمیں ام عبد منیب کی نظم سنائیں اور رسالہ ہمارے حوالے کر دیں۔

دادی جان نے مسکرا کر سر ہلایا اور رسالہ کھول کر ترنم سے “ام عبد منیب کی نظم ”واہ مزہ آ گیا“ سنانے لگیں ۔

بچے سبز چنوں کے بارے میں نظم سن کر بہت حیران ہوئے ، سوہا نے ہنستے ہوئے کہا: واہ سچ مچ مزہ آ گیا ”پھر بولی: ”دادی جان ! ہر بار ام عبد منیب کا نام سن کر مجھے خیال آتا ہے ، ان کا نام کیسا ہے؟ عبد منیب تو لڑکوں والا نام ہے اور اُمّ : اس کا کیا مطلب ہے؟ “

کیا آپ نے اُم المؤمنین نہیں پڑھا؟ دادی جان نے پوچھا:

”جی! اس کا مطلب ہے مؤمنوں کی ماں،“ تو کیا یہ عبد منیب کی ماں ہیں؟ سوہا نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے پھر پوچھا:

”جی بالکل! ان کا نام سمعیہ ہے اور عبد منیب ان کی کنیت ہے۔“ دادی جان نے جواب دیا:

”لیکن کنیت میں تو نام کے ساتھ ابو لگتا ہے، جیسے ابو القاسم ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو کہا جاتا ہے۔“سعود نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا:

”جب کوئی والد اپنے بیٹے کے نام پر بلایا جائے تو اس کی کنیت میں ابو لفظ استعمال ہوتا ہے اور جب ماں کے نام کی نسبت اولاد کی طرف ہو، تو اس کے لیے اُم لگایا جاتا ہے۔“دادی جان نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا:

”جیسے ، ہم اُم المؤمنین ،مؤمنوں کی ماں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بیوی صاحبہ کو کہا جاتا ہے۔ ام کی جمع امہات ہے، اسی لیے جب ساری ماؤں کا ذکر ہو تو امہات المؤمنین کہتے ہیں۔“

”کچھ بچے اپنی ماں کو ماما کہتے ہیں، کچھ ممی اور کچھ ماں جی اور ہم اپنی ماں کو امی کہتے ہیں، کیا امی لفظ بھی اُم سے نکلا ہے؟ “سعود نے ایک اور سوال کیا:

” اس کا جواب بہت دلچسپ ہے، والدہ کے لیے ماں کا لفظ ہر زبان میں تقریبا ایک جیسا یا ملتا جلتا ہے۔ دنیا کی اکثر زبانوں میں بچے اپنی ماں کو اماں، امی، ممی، ماما یا مادر کہتے ہیں اور باپ کو بابا ، ابو اور پاپا وغیرہ کہہ کر بلاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیدائش کے بعد، ہر بچے کے منہ سے نکلنے والی پہلی پہلی آوازیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔“ دادی جان نے مسکراتے ہوئے بتایا:

کیسی ہوتی ہیں؟ ننھے سعد نے دادی جان کے پاس بیٹھتے ہوئے حیرت سے پوچھا:

”پیدائش کے بعد بچہ صرف رونے کی آواز نکالتا ہے یا اوں آں کرتا ہے، جیسے تم کیا کرتے تھے،“ دادی جان نے سعد کے بال سنوارتے ہوئے کہا: “پھر کچھ ماہ بعد جب وہ آواز یں نکالنا اور بولنا سیکھتا ہے تو عام طور پر وہ اُم اُم ، ماما، مم مم ، مما مما ، پا پاوغیرہ جیسی سادہ آوازیں نکالتا ہے اور ماں باپ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ بچے کو سب سے زیادہ ماں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچہ ماں کو بلا رہا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ دوسری آواز یعنی بب بب یا پپ پپ کی آواز نکالے تو یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ اپنے ابا جان کو آواز دے رہا ہے۔

”جی دادی جان ! مجھے یاد ہے سعد نے سب سے پہلے مم کہنا شروع کیا تھا، اگرچہ آپ اسے ہر روز الله الله یاد کرواتی تھیں اور یہ سُن کر سر بھی ہلاتا تھا۔“ سوہا نے پرجوش انداز میں کہا :

سعد جھنپ گیا اور دادی جان مسکرا کر بولیں ۔ ” تم دونوں کی طرح ، سعد نے بھی مم اور بب کے بعد ہی الله کہنا سیکھا تھا۔ عربی زبان میں اُم کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کی اصل یا بنیاد۔“ دادی جان نے ان کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا: ” حقیقت میں یہ تین حروف ہیں‌؛ الف، میم اور میم ۔ یہ لفظ حقیقی ماں‌ کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور نانی، دادی کے لیے بھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو ”امّنا“ ( ہماری ماں‌) اور اُم البشر یعنی انسانوں کی ماں کہا جاتا ہے ۔“

” کیا کسی کھانے کا نام بھی ”ام“ سے شروع ہوتا ہے؟ سعود جو کھانے کا شوقین تھا اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے پوچھا:

”سعودی عرب اور دوبئی میں ایک میٹھے پکوان کا نام ام علی مشہور ہے، جو روٹی، دودھ، چینی اور خشک میوہ جات یعنی بادام، پستے وغیرہ سے بنتا ہے، لیکن مجھے علم نہیں کہ یہ اس کا برانڈ نام ہے یا واقعی کھانے کو ہی کہتے ہیں؛ البتہ جہاں کھانا جاتا ہے یعنی یہ تمہارا پیٹ اسے ”ام الطعام“ کہتے ہیں۔“ دادی جان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیٹ پر گدگدی کرتے ہوئے کہا: وہ ہنستے ہوئے نیچے جھکا تو دادی جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ” اور یہ جو تمہارے سر میں دماغ ہے اسے “ام الرأس “ کہتے ہیں، البتہ جو دعوتیں کرنے ، کھانے کھلانے اور مہمانوں کو جمع کرنے کا شوقین ہو اُسے اُم الضیاف کہتے ہیں۔ “

”دادی جان آپ نے ایک بار بتایا تھا کہ سورة الفاتحہ ” ام الکتاب“ ہے، کیونکہ اس میں قرآن مجید کے تمام مضامین موجود ہیں“ سوہا نے اُمّ کے متعلق اپنی معلومات کا اظہار کیا:

” شاباش، بٹیا رانی! آپ نے خوب یاد رکھا۔ ہر وہ چیز جس کے اندر اس سے متعلق تمام چیزیں سما جائیں‌وہ ان کی اُم کہلاتی ہے۔قرآن مجید میں لوح محفوظ کو بھی ”اُم الکتاب“ کہا گیاہے؛ کیونکہ تمام علوم اس میں محفوظ ہیں، اسی طرح مکہ مکرمہ کو اُم القری کہتے ہیں کیونکہ وہ خطہ عرب کا مرکز ہے اور ستاروں کے جھرمٹ یا کہکشاں کو “اُم النجوم” کہتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے ستارے سمائے ہوتے ہیں، اسی طرح کسی فوج کے سپہ سالار کو اُم الجیش کہتے ہیں اور کسی قوم کے سردار کو ”ام القوم“ ۔

ان کی گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ باورچی خانے سے امی جان کی آواز سنائی دی: ” سوہا! اگر سکول کا کام کر لیا ہے تو دسترخوان بچھا دو۔ “

”چلو بچو ”اُم المثوی“ یعنی گھر کی مالکن کی پکار رہی ہیں ، ام سعد کی بات پر فورا عمل کرو، ورنہ ڈانٹ پڑے گی۔“ دادی جان نے سوہا کو رسالہ پکڑاتے ہوئے کہا: اور اٹھ کر اندر چل دیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ماشاءاللہ، بچوں کے لیے بہت مفید معلوماتی اور دلچسپ اندازِ تحریر ہے۔ اللہ پاک آپ کی کاوش کو قبول فرمائے اور آپ کے قلم کی چاشنی میں اور اضافہ فرمائے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ماشاءاللہ ام اویس بہنا! بہت اچھی تحریر ہے۔ سادہ اور پرُاثر اندازِ تحریر ہے آپ کا۔اللہ آپ کو اس کارِ خیر کی جزا عطا فرمائے اور آپ کے قلم کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنائے رکھے آمین۔
 
Top