اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں ( اختر شمار )

ظفری

لائبریرین
اُس کے نزدیک غمِ ترکِ وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اُس کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اُس نے آنے کے لیئے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چُپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

اے شمار آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آجائے پتا کچھ بھی نہیں

( ڈاکٹر اختر شمار )​
 
Top