محسن نقوی اُجڑے ہوئے لوگوں سے گُریزاں نہ ہوا کر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر

اُس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر

اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ میرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

برہم نہ ہو کم فہمی کوتہ نظراں پر
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقِہ یاراں میں بھی مُحتاط رہا کر

میں مر بھی چکا مِل بھی چُکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اب گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں
زخموں کو ہی وابستہِ زنجیرِ صبا کر

اِک روح کی فریاد نے چُونکا دیا مجھ کو
تُو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر

اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

(محسن نقوی)
 
Top