ايران کے خلاف نئ پابندياں

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

30614913797_ea3f8e3083_b.jpg



کچھ رائے دہندگان کی جانب سے اس غلط تاثر کی تشہير کی جاتی ہے کہ امريکی حکومت پرتشدد انتہا پسندی سے نبردآزما ہونے کے ليے محض طاقت کے استعمال اور فوجی کاروائ پر ہی اپنی تمام تر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہے۔

حقيقت يہ ہے کہ دہشت گردوں تک فنڈز کی سپلائ کو روکنا اس مجموعی چيلنج اور اس کے حل سے متعلق حکمت عملی کا انتہائ اہم جزو ہے۔

طالبان اور ديگر دہشت گرد گروہوں تک فنڈز کی منتقلی کے اہم ذرائع ميں مقامی سطح پر منشيات کے کاروبار اور بيرونی ذرائع سے رقم کی منتقلی سر فہرست ہيں۔ دہشت گردی سے درپيش خطرات کو کم کرنے کے ليے موجودہ امريکی انتظاميہ نے فنڈز کی منتقلی اور اس سے وابستہ نيٹ ورکس کو توڑنے کے ليے اپنی کاوشوں کو خصوصی اہميت دی ہے اور اس ضمن ميں عملی کاوشيں تيز کر دی گئ ہيں۔

حال ہی ميں امريکی حکومت نے ايران کے خلاف اہم پابندياں لگائ ہيں جن کا مقصد افغانستان ميں ان پرتشدد انتہا پسند گروہوں تک امداد اور وسائل کی منتقلی کو روکنا ہے جو روزانہ عام شہريوں اور افغان حکومت کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو اپنی بربريت کا نشانہ بنا رہے ہيں۔

امریکی محکمہ خزانہ اور دہشت گردی کی مالیات کے خلاف مرکز کے شراکت داروں کی طالبان سہولت کاروں اور ان کے ایرانی معاونین پر پابندیاں

امریکی محکمہ خزانہ

دفتر برائے عوامی امور

ریاض ۔۔ آج دہشت گردی کی مالیات کے خلاف مرکز (ٹی ایف ٹی سی) کے سات رکن ممالک نے افغان حکومت کی سلامتی کو کمزور کرنے والے طالبان کرداروں اور ان کے ایرانی معاونین کو سامنے لانے اور ان کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ ٹی ایف ٹی سی کے رکن ممالک نے طالبان سے وابستہ سات افراد کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس دہشت گرد گروہ کی مدد کے لیے ایرانی معاونت میں سہولت دے رہے ہیں۔ امریکہ محکمہ خزانہ میں غیرملکی اثاثہ جات پر کنٹرول کے دفتر (او ایف اے سی) نے ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے دیگر رکن ممالک کی شراکت سے ان اہم طالبان ارکان اور ایرانی حکومت میں شامل ان کے معاونین کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے۔ ٹی ایف ٹی سی کے ان ارکان میں سعودی عرب، برطانیہ، کویت، سلطنت اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) شامل ہیں۔

وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا ہے کہ ”ٹی ایف ٹی سی نے خودکش حملوں اور دیگر مہلک سرگرمیوں میں شامل اہم طالبان ارکان کو نشانہ بنانے اور انہیں سامنے لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ عالمگیر سلامتی کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ ہم طالبان کو مالی اور مادی معاونت فراہم کرنے والے اہم ایرانی معاونین کو بھی ہدف بنا رہے ہیں” ان کا کہنا تھا کہ ”طالبان کو ایران کی جانب سے عسکری تربیت، مالیات اور ہتھیاروں کی فراہمی اس امر کی ایک اور مثال ہے کہ کس طرح وہ علاقائی امور میں کھلم کھلا مداخلت اور دہشت گردی کی معاونت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ امریکہ اور ہمارے شراکت دار ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے تخریبی طرزعمل کو وسعت دینے کے لیے افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان کو ایرانی مدد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی یکسر خلاف ورزی اور اس کی جانب سے بنیادی عالمی اصولوں کی کھلی پامالی کی مثال ہے”

خاص طور پر ‘او ایف اے سی’ نے ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے خلیجی شراکت داروں کے تعاون سے محمد ابراہیم اوحدی (معروف بہ جلال وحیدی)، اسماعیل الرضاوی، عبداللہ صمد فاروقی، محمد داؤد مزمل، عبدالرحیم منان، عبدالعزیز (معروف بہ عزیز شاہ زمانی) صدر ابراہیم اور حافظ ماجد کو انتظامی حکم 13224 کی مطابقت سے پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے اقدامات کی معاونت کرنے والوں کو نشانہ بناتا ہے۔ علاوہ ازیں ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے رکن ممالک نے نائم باریش کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جو ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات کا نگران ہے۔ قبل ازیں 15 نومبر 2012 کو امریکہ نے نائم باریش کو ‘منشیات کے غیرملکی سرغنوں کی پابندیوں کے لیے نامزدگی’ کے قانون (کنگ پن ایکٹ) کے تحت نامزد کیا تھا۔

یہ 21 مئی 2017 کو ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے قیام کے بعد تیسری مربوط نامزدگی ہے۔ ٹی ایف ٹی سی دہشت گردی کی مالیات سے نمٹنے کے لیے سات رکن ممالک کے باہمی تعاون کو وسعت دینے اور مضبوط بنانے کی دلیرانہ اور تاریخی کوشش ہے۔ ٹی ایف ٹی سی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے مربوط اقدامات، مالیاتی انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اور دہشت گردی کی مالیات کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے نیز ٹی ایف ٹی سی ارکان کی قومی سلامتی کے لیے خطرات کا باعث متعلقہ سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔

یہ نامزدگیاں افغان حکومت کو کمزور کرنے والے کرداروں کو سامنے لانے اور ان کے خلاف کارروائی نیز جنوبی ایشیا میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے قلع قمع کے ذریعے صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی حکمت عملی میں بھی معاون ہیں۔ ہم طالبان کو مالی مدد دینے والوں کو متحرک طور سے نشانہ بناتے رہیں گے یہاں تک کہ بات چیت کے ذریعے امن تصفیہ نہ ہو جائے۔ اس کارروائی میں طالبان عناصر کی مدد کرنے والے ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے ارکان کو ہدف بنائے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حکومت کی ضرررساں سرگرمیوں کی وسعت کہاں تک ہے اور یہ اقدام علاقائی سطح پر اس کے تخریبی طرزعمل کو سامنے لاتا اور ایران کے خلاف امریکہ کی دباؤ بڑھانے کی مہم میں مدد دیتا ہے۔

محمد ابراہیم اوحدی (اوحدی)

محمد ابراہیم اوحدی کو پاسداران انقلاب-قدس فورس کے لیے کام کرنے اور طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 میں ایرانی علاقے بیرجند میں فرائض انجام دینے والے پاسداران انقلاب-قدس فورس کے افسر اوحدی نے افغان صوبہ ہرات میں طالبان کے نائب شیڈو گورنر عبداللہ صمد فاروقی (صمد) سے معاہدہ کیا کہ پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کی فورسز کو عسکری اور مالیاتی مدد فراہم کرے گی جس کے بدلے میں میں صمد کی فورسز صوبہ ہرات میں افغان حکومت کے خلاف حملے کریں گی۔ آج صمد کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ ایرانی علاقے بیرجند میں ہوا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کے جنگجوؤں کو بیرجند کے قریب اپنے مراکز میں تربیت فراہم کرے گی۔ 2017 کے وسط تک دونوں فریقین اس معاہدے پر عمل کر رہے تھے جس میں پاسداران انقلاب-قدس فورس صمد کی فورسز کو بنیادی عسکری تربیت فراہم کرنے میں مصروف تھی۔

2016 میں اوحدی نے طالبان کے لیے ایرانی مدد کے معاملے پر صمد سے بات چیت کی۔ اس میں ایران میں ایک احاطہ تعمیر کرنا بھی شامل تھا جس میں زخمی اور ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کے اہلخانہ کو رکھا جانا تھا۔ اوحدی نے جنگجوؤں کو تربیت کے لیے ایران بھیجے جانے کے معاملے پر پیش رفت کی بابت بھی پوچھا۔

2014 تک اوحدی بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کا دوسرا نائب عہدیدار تھا اور افغان حکومت کے مخالفین کو ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی اس کی ذمہ داری تھی۔

2008 میں اوحدی ایرانی علاقے نیہبندان میں پاسداران انقلاب کا عہدیدار تھا جہاں بارہ سے پندرہ سال تک عمر کے بہت سے بچوں کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کی تربیت دی گئی۔ نیہبندان میں تعینات حکام بیرجند میں پاسداران انقلاب کے ماتحت تھے۔

اسماعیل رضاوی

اسماعیل رضاوی کو پاسداران انقلاب-قدس فورس کے لیے کام کرنے اور طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

رضاوی ایرانی علاقے بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے تربیتی مرکز کا انچارج تھا جہاں سے 2014 تک افغان صوبے فراح، غور، بادیس اور ہلند میں طالبان فورسز کو تربیت، انٹیلی جنس اور ہتھیار فراہم کیے گئے۔ 2017 میں رضاوی نے افغان صوبے فراح کا دورہ کیا جہاں اس نے افغانستان کے سرحدی علاقے میں حملوں کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کی۔ علاوہ ازیں اس نے ایک طالبان کمانڈر کو مغربی افغانستان میں ایک ڈیم پر جاری تعمیر کو نقصان پہنچانے کا حکم دیا اور محمد داؤد مزمل کو دو خودکش بمبار تیار کرنے کو کہا جس کا مقصد جنوب مغربی صوبوں میں افغان حکومت کی جانب سے کام کرنے والے کسی عہدیدار کو ہلاک کروانا تھا۔ آج محمد داؤد مزمل کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ رضاوی نے آج پابندیوں کے لیے نامزد ہونے والے افغان صوبہ ہلمند کے شیڈو گورنر عبدالرحیم منان کو طیارہ شکن ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

2008 میں بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے اس نے اپنے فوجی اڈے کو افغان صوبہ فراح اور ہرات میں اتحادی افواج کے خلاف حملوں میں مدد دینے کے لیے بھی استعمال کیا۔

عبداللہ صمد فاروقی (صمد)

عبداللہ صمد فاروقی کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2018 کے اوائل میں صوبہ ہرات میں طالبان کا نائب شیڈو گورنر صمد ایسے متعدد طالبان حکام میں شامل تھا جو بیرجند میں پاسداران انقلاب-قدس فورس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھے اور جس کا مقصد طالبان کے لیے ایران کی جانب سے ہتھیار اور عسکری مدد قبول کرنا تھا۔ 2018 کے اوائل تک صمد نے پاسداران انقلاب سے ہزاروں کلو گرام دھماکہ خیز مواد وصول کیا جسے اس نے ہرات بھر میں طالبان کمانڈروں میں تقسیم کرنا تھا۔ صمد نے ایرانی علاقے بیرجند میں قائم ایک تربیتی مرکز کا دورہ بھی کیا جہاں پاسداران انقلاب طالبان جنگجوؤں کو تربیت دینے میں مصروف تھے جنہوں نے افغانستان سے گزرنے والی مجوزہ پائپ لائن پر حملہ کرنا تھا۔ صمد نے ایران کے مہیا کردہ مالی وسائل جنگجوؤں کے اہلخانہ کو دینے کا وعدہ کیا۔

2006 کے اوائل میں صمد ایرانی انٹیلی جنس حکام سے ملاقات کے لیے زاہدان جانے والے طالبان رہنماؤں کے ایک گروہ کا حصہ تھا۔ صمد سابق اعلیٰ سطحی طالبان رہنما ملا عبیداللہ کا نمائندہ بھی رہ چکا ہے۔ ایرانی حکام نے طالبان رہنماؤں کے گروہ کو رقم اور سازوسامان دیا جنہوں نے مغربی افغانستان میں تعمیرنو کی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے لیے دہشت گرد حملوں پر آمادگی ظاہر کی۔

مزیدبراں 2017 کے وسط میں صمد نے ہرات میں حوالہ کے ذریعے پاسداران انقلاب سے رقم بھی وصول کی۔

محمد داؤد مزمل (داؤد)

محمد داؤد مزمل کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 کے اواخر تک افغان صوبہ بلمند میں طالبان کے سابق نائب شیڈو گورنر داؤد کو فراح صوبے کا شیڈو گورنر بنایا گیا۔ 2017 کے اوائل میں داؤد کو کوئٹہ فوجی کمیشن میں طالبان کا رہنما مقرر کیا گیا۔

عبدالرحیم منان (رحیم)

عبدالرحیم منان کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

رحیم افغان صوبہ ہلمند میں طالبان کا شیڈو گورنر ہے جس نے افغان حکومت پر حملوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں جنگجو مہیا کیے۔ 2018 کے اوائل میں رحیم افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کو مربوط و منظم بنانے کا ذمہ دار تھا اور اس کے پاسداران انقلاب سے تعلقا ت تھے۔

2007 کے اواخر میں رحیم نے پاسداران انقلاب-قدس فورس کی جانب سے طالبان کو ہلاکت خیز امداد کی منتقلی کی نگرانی کی۔ اعلیٰ سطحی طالبان کمانڈر رحیم نے سازوسامان اور مہلک نوعیت کی امداد کی فراہمی کے لیے طالبان کے ساتھ ایران کے بنیادی معاملہ کار کے ہمراہ کام بھی کیا۔

نائم باریش (باریش)

نائم باریش کو ‘ٹی ایف ٹی سی’ کے رکن ممالک کی جانب سے طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔ باریش کو عالمی سطح پر منشیات کی خریدوفروخت میں نمایاں کردار پر ‘او ایف اے سی’ نے 15 نومبر 2012 کو ‘کنگ پن ایکٹ’ کے تحت پابندیوں کے لیے بھی نامزد کیا تھا۔ طالبان کی مدد کرنے کی پاداش میں باریش کا نام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1988 میں لگائی گئی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

2017 کے اواخر میں باریش طالبان کا شیڈو وزیر خارجہ تھا اور اس نے ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاسداران انقلاب-قدس فورس کے حکام نے کم از کم 2006 سے باریش کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔

عبدالعزیز عزیز (عزیز)

عبدالعزیز عزیز کو طالبان کی معاونت یا انہیں مالی، مادی یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں مدد فراہم کرنے یا ان کی مدد کے لیے مالیاتی سرگرمیوں یا دیگر کاموں میں ملوث ہونے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

2017 کے اوائل میں عبدالعزیز کے دو طالبان کمانڈروں سے کاروباری تعلقات تھے اور اس نے ان کمانڈروں کے لیے افغانستان سے پاکستان کے راستے یورپ اور افریقہ تک منشیات پہنچانے کا اہتمام کیا۔ اس کے بدلے میں ان طالبان کمانڈروں نے افغان صوبہ ہلمند میں عبدالعزیز کے منشیات کی تیاری کے مرکز کو تحفظ فراہم کیا۔ 2016 کے اواخر میں اس نے پاکستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کو معاونت فراہم کی اور طالبان کمانڈروں کے مخصوص سفری اخراجات اٹھائے۔ عزیز کے یورپ، افریقہ اور مشرقی ایشیا میں منشیات سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے تعلقات ہیں۔ قبل ازیں اس نے افغانستان سے قیمتی پتھر عالمی منڈی میں فروخت کے لیے سمگل کیے اور اس کام سے حاصل ہونے والے منافع کا بڑا حصہ پاکستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت کو دیا۔ عزیز ہر سال طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے منشیات کے دیگر عالمگیر بیوپاریوں سے رقم جمع کرنے کے لیے سالانہ بنیادوں پر خلیجی ممالک کے دورے کرتا ہے۔

مزید براں فروری 2017 کےاواخر میں عزیز نے ایک کمپنی قائم کرنے کے لیے چین کے دورے کی منصوبہ بندی بھی کی۔ امکانی طور پر اس کمپنی کا تعلق پاکستان میں ماربل کی کھدائی کے ایک کاروبار سے تھا۔ عزیز نے ماربل کے اس کام کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں ایک سفر کیا ہے ۔ جولائی 2017 کے اواخر میں عزیز نے یواے ای کے دورے میں سبز، سفید اور گلابی رنگ کے قیمتی پتھر ساتھ لے جانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے منشیات کے اس بیوپاری نے افغان کسانوں سے ایرانی اور ترکی منشیات بیوپاریوں کو افیون کی فروخت کے لیے دلال کا کردار بھی ادا کیا ہے۔

صدر ابراہیم (ابراہیم)

صدر ابراہیم کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

گزشتہ چار برس میں ابراہیم نے طالبان کے فوجی کمیشن کے رہنما کے طور پر ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ قبل ازیں وہ طالبان کے پشاور فوجی کمیشن کا حصہ تھا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت میں وزارت دفاع میں خدمات انجام دے چکا ہے۔

2018 میں ایرانی حکام نے ابراہیم کو مالی مدد اور افرادی تربیت دینے پر اتفاق کیا تاکہ اس میں ایران کا نام سامنے نہ آئے۔ ایرانی تربیت کاروں نے طالبان کی تزویراتی اور جنگی اہلیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینا تھی۔

حافظ ماجد (ماجد)

حافظ ماجد کو طالبان کے لیے یا ان کی جانب سے کام کرنے پر پابندیوں کے لیے نامزد کیا گیا۔

ماجد طالبان کی شوریٰ اور فوجی کمیشن کا اعلیٰ سطحی رکن ہے اور افغانستان میں خودکش حملوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ماجد طالبان کے سابق امیر ملاعمر کا مشیر رہ چکا ہے۔ طالبان حکومت کےد وران ماجد صوبہ قندھار میں طالبان کا سکیورٹی چیف (پولیس کا سربراہ) تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top