انگیٹھی کے پاس ایک نظم

الف عین

لائبریرین
انگیٹھی کے پاس ایک نظم​

اعجاز عبید​
بوندوں کا عذاب کھو چکا ہے
پانی کا ثواب کھو چکا ہے
اب بہتی ہوا میں برف کے سے
ننھے کئی ذرّے تیرتے ہیں
ہر سمت ہوا میں ٹھنڈکیں ہیں
دن بھر تو گھروں کے آنگنوں میں
ہم دھوپ کےساتھ ساتھ کھیلے
اب رات کو کون گھر سے نکلے
جسموں پہ ہیں گرم گرم سے کوٹ
اور پھر بھی لحاف ہیں لپیٹے
اور پھر بھی انگیٹھی پاس میں ہے
نانی بی کہانی کہہ رہی ہیں
انجان زمیں کے باسیوں کی
اورہم ہیں کہ ٹھنڈی رات میں بھی
اپنے ہی خیالوں کے پروں پر
اُڑ اُڑ کے وہاں پہنچ گئے ہیں
شہزادوں کے ساتھ کھیلتے ہیں
پریوں کے پروں میں چھپ رہے ہیں
سردی کا جہاں گزر نہیں ہے
سردی کا وہاں گزر نہیں ہے
*****
 
Top