( ۷ ) ۔۔۔۔۔۔۔ دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے راحت اور عذاب قبر وغیرہ کے مسائل ثابت ہیں اور اور متواتر احادیث کے علاوہ" مما خطیتہم اغرقا فادخلوا نارا" وغیرھا آیات اس پر نص قطعی ہیں ۔ مگر چکڑالوی صاحب یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ : ۔
" باب ہفتم عذاب قبر و سوال منکر و نکیر ۔ جب یہ بات ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ مرنے کے بعد روح کے لیے بھی بقا نہیں ہے ۔ اور یہ بات بھی بہ دلائل پختہ بیان ہونے والی ہے کہ انسان کے لیے مرنے کے بعد روز قیامت تک درمیانی زمانہ میں کوئی جزا و سزا نہیں ہے تو عذاب قبر کا غلط اور من گھڑت ہونا صاف ظاہر ہے ۔ عذاب قبر و سوال منکر و نکیر کی بنیاد جھوٹی حدیثوں پر ہے " الخ ( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۹۵ پ ۷ تحت قولہ حتی اذ جاء احد کم الموت و مثلہ فی روح الانسان ص ۸۹ از چکڑالوی )
( ۸ ) ۔۔۔۔۔۔۔ ایصال ثواب کا مسئلہ اہل اسلام کے ہاں ایک طے شدہ حقیقت ہے ۔ ملائکہ مقربین کی مغفرت کی دعائیں ، نماز جنازہ کی مشروعیت نیز قرآن کریم کی متعدد دعائیں جو پہلے مسلمانوں کی حق میں کی جاتی ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت ہے۔ مگر چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں کہ :۔
" یہ بے شک میرا اعتقاد ہے کہ مردہ کو بدنی عبادت یا مالی صدقہ وغیرہ کسی چیز کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔ " ( اشاعۃ القرآن ص ۴ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )
چکڑالوی صاحب کو یہ اعتقاد مبارک ہو اہل اسلام اس کو باطل یقین کرتے ہیں
( ۹ ) ۔۔۔۔۔۔۔ نماز تراویح پر تمام اہل اسلام تا ہنوز متفق چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن چکڑالوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ " نماز تراویح پڑھنا ضلالت ہے اور اس پر ایک مستقل رسالہ بھی انہوں نے لکھا ہے البیان الصریح لا ثبات کراہۃ التراویح ۔ ( اشاعۃ القرآن ص ۱۳ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )
( ۱۰ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قطعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ کبھی کسی رسول اور نبی پر القاء شیطانی کا اثر نہیں ہوا اور خصوصیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ مگر چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں کہ ۔
" رسول اللہ کی زبان مبارک سے دین کے متعلق یا قرآن شریف نکلتا تھا اور یا سہوا اپنے خیالات و قیاسات ، جن میں القاء شیطانی موجود ہوتا تھا جن کو خدا تعالی نےمنسوخ و مذکور فی القرآن کر کے آپ کی ان سے بریت کر دی ۔ " ( بلفظہ اشاعۃ القرآن ص ۴۴ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )
( ۱۱ ) ۔۔۔۔۔۔۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام قول اور فعلی حدیثیں نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر تا ہنوز تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہا جاتا ہے ۔ مگر عبداللہ صاحب چکڑالوی کہتے ہیں کہ اللہ اکبر تو کفار مکہ کی تکبیر ہے ۔ ( بلفظہ اشاعۃ القرآن شوال ۱۳۴۰ ھ ) ص ۱۲ ، ۱۳ میں لکھا ہے کہ یہ کلمہ ازروئے قرآن مشرکانہ کلمہ ہے و (بلفظہ ) اور شرک کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ " کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اور بھی الہ ہیں مگر اللہ ان سب سے بڑا ہے ۔ لہذا یہ شرک ہوا " لا حول ولا قوۃ الا باللہ یہ ہے چکڑالوی صاحب کی قرآنی بصیرت اور منطق ۔ نحو اور گریمر کے اس سہل مسئلہ سے بھی ان کی نگاہ مبارک چوک گئی ہے کہ یہاں اسم تفضیل ( اکبر ) اضافت کے ساتھ مستعمل نہیں ہے بلکہ " من " کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور اصل یوں ہے اللہ اکبر من کل شیء ۔ یعنی اللہ ہر شے سے بڑا ہے ۔ یہاں اور الہوں کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ شرک لازم آتا ہے ۔اور یہ نعرہ تکبیر مسلمانوں کا ایک امتیازی نشان سمجھا جاتا تھا اور اب بھی بفضلہ سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن چکڑالوی صاحب اس کو کفار مکہ کی تکبیر اور مشرکانہ کلمہ کہتے ہیں لا حول و لا قوۃ الا باللہ
( ۱۲ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی نصوص قطعیہ ، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ ، درجہ اور شان سب نبیوں سے بڑھ کر ہے اور آپ خاتم النبیین اور سید الرسل ہیں مگر چکڑالوی صاحب " فبھداھم اقتدہ " اور " ان اتبع ملۃ ابراھیم " وغیرھا آیات اور بعض احادیث سے دھوکہ کھا کر اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈال کر یوں ایک سائل کے جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ۔ آپ نے اپنے مسلمہ قرآن مجید اور بخاری اور صحاح ستہ کے خلاف رسول اللہ سلام علیہ کو نبیوں کا سردار لکھا ہے ۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان کو متبع اور مقتدی کل انبیاء کا عموماً اور ابراھیم ہ سلام علیہ کا خصوصا لقب مرحمت فرمایا ہے ۔ ( اشاعۃ القرآن جلد اول نمبر ۷ ماہ مئی ۱۹۲۲ ص ۱۳ ) اور اتنی بات چکڑالوی صاحب کو معلوم نہ ہو سکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا متبع اور مقتدی نہیں کہا گیا بلکہ ملت ابراھیم علیہ السلام اور نبیوں کی ہدایت کا متبع اور مقتدی کہا گیا ہے اور ملت ابراھیم علیہ السلام اور نبیوں کی ہدایت منزل من اللہ ہے جس میں اصولی طور پر سب نبی متفق رہے ہیں ۔ درجہ اور رتبہ میں آپ کو انبیاء کا متبع اور مقتدی نہیں کیا گیا ۔
اور ص ۱۴ میں لکھا ہے کہ :۔
" اور پھر آپ نے انکو نبیوں کا سردار بنا کر اور انبیاء اور رسل کی تحقیر اور تذلیل کر کے لانفرق بین احد من رسلہ کا کفر کیا یا نہیں " الخ (بلفظہ ) مگر اتنی اسان اور سہل بات پر چکڑالوی صاحب نے غور نہیں کیا تو یہ عدم تفریق تو بسلسلہ ایمان ہے کہ بعض انبیاء اور رسل پر ایمان لایا جائے اور بعض کا انکار کیا جائے جو مصداق ہے نومن ببعض و نکفر ببعض کا باقی درجہ اور فضیلت میں فرق کا ہونا تو قطعی طور پر ثابت ہے ۔ تیسرے پارے کی پہلی ہی آیت اس مسئلہ کو آفتاب نیم روز کی طرح واشگاف کرتی ہے ۔ : ۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض
الغرض ایک ہے انبیاء و رسل میں ایمان لانے اور نہ لانے میں تفریق کرنا ، یہ اول نمبر کا کفر ہے اور ایک ہے رتبہ اور فضیلت میں تفریق ۔ یہ امر ثابت ہے اور اس کا انکار نری بے دینی ، الحاد اور زندقہ ہے ۔ اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ فاین الثرای من الثریا ۔ چکڑالوی صاحب کی عربی دانی دیکھیے کہ وہ بجائے مسلم کے آپ کے مسلمہ قرآن مجید لکھتے ہیں ۔
( ۱۳ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم ۔ سنت متواترہ اور تمام امت کے اتفاق سے یہ امر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ایک سے زائد ( بلکہ بیک وقت نو ۹ ) منکوحہ بیویاں تھیں ۔ یا نساء النبی اور یایہاالنبی قل لازواجک و غیرھا آیات اس کا واضح اور صریح ثبوت ہیں اور عام مسلمانوں کو بھی مخصوص شرائط کے تحت بیک وقت چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت قرآن کریم اور حدیث صحیح میں مصرح ہے ۔ لیکن چکڑالوی صاحب ان آیات کو یہود کو شرما دینے والی تحریف کر کے یوں تحریر کرتے ہیں کہ : ۔
"تعدد ازواج بحوالہ قرآن ( لعنۃ اللہ علی الکذبین ۔ کہاں ہے یہ حکم قرآن میں باقی تحریف کا نام قرآن نہیں ہے ۔ صفدر ) زنا میں داخل ہے ۔ ( معاذ اللہ ۔ صفدر ) جس سے انبیاء اور رسل سلام علیہم اور ان کی امت پاک ہے اور ان پر سراسر افتراء اور بہتان ہے : ( بلفظہ اشاعۃ القرآن ج ۱ نمبر۷ ص ۱۸ ماہ مئی ۱۹۲۲)
ملاحظہ کیا آپ نے کہ چکڑالوی صاحب نے کس بے حیائی کے ساتھ تعدد ازواج کو زنا میں داخل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظالمانہ حملہ کیا ہے۔ ( العیاذ باللہ ) اور کس طرح امت مرحومہ کے ان نیک اور صالح افراد کو زانی بنایا ہے ۔ جنہوں نے قرآن و حدیث کے رو سے مسئلہ تعدد ازواج پر عمل کیا ہے ۔ یہ ہے چکڑالوی صاحب کی دعوت قرآنی اور ان کے جماعت کے افکار و نظریات لاحولہ ولا قوۃ الا باللہ ۔ سچ کہا ہے کہ
گربہ میر وسگ وزیر و موش رادیواں کنند
ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویران کنند
( ۱۴ ) ۔۔۔۔۔۔ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بحالت بیداری معراج جسمانی پر متفق ہیں مگر چکڑالوی صاحب معراج نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ۔
رب العالمین نے آپ کو بطور معجزہ (خواب میں کونسا معجزہ کار فرما ہوتا ہے ؟ صفدر ) سخت اندھیری رات میں صرف بحالت نیند ہی نیند ، خواب میں ہی اس خاص زمین کی سیر کرائی ۔ یعنی السجد الحرام بیت مکہ سے لے کر مسجد اقصی بیت المقدس تک سب مقامات کو ظاہر باہر طور پر پورا پورا دکھا دیا ۔ ( تفسیر ترجمۃ القرآن بآیات الفرقان پ ۱۵ ص ۱ )
چونکہ اس مسئلہ پر ہم نے ایک مستقل رسالہ ضوء السراج فی تحقیق المعراج لکھا ہے اس لیے ہم اس پر یہاں مزید کچھ بحث نہیں کرتے البتہ صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ لغت کی کس کتاب میں یہ حوالہ ملے گا کہ اسراء کا لفظ خواب میں سیر کرانے پر ہی بولا جاتا ہے اور بیداری میں رات کی رات کی سیر پر اس کا اطلاق ہوتا ؟ اور نیز خواب کا یہ واقعہ کون سا تعجب خیز تھا جس کو اللہ تعالی نے "سبحان" کے ساتھ شروع کیا ہے ؟ اور یہ کہ لفظ "عبد" محض روح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جسم اور روح دونوں کے لیے مستعمل نہیں ہے ؟ دیکھیے اس کا کیا جواب ملتا ہے ؟ مگر
وہ اپنی منزل مقصود تک ہرگز نہ پہنچے گا کہ جو آغاز ہی میں نے خود انجام ہو جائے
( ۱۵ ) حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات قرآن کریم میں مذکور ہیں کہ وہ مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو باذن اللہ وہ پرندے بن کر اڑ جاتے تھے اندھوں کو باذن بینا کر دیتے تھے مگر چکڑالوی صاحب کے نزدیک اس کا مطلب ہی خیر سے کچھ اور ہے وہ یہ کہ : ۔
" جیسے چار مشہور شکاری پرندے باز ، باشہ ، چرخ ، شاہین شکاری پرندے تعلیم و تربیت سے فرماں بردار ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے مردگان ایمان کو تعلیم و تربیت فرمائی اور وہ مطیع ہو گئے " دیکھیے ( تفسیر پ ۳ ص ۱۷۲ ) اور ابراء کمہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ : ۔
" جسمانی اندھے ہرگز ہرگز مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ رسل انبیاء ڈاکٹر و طبیب جسمانی نہیں ہوا کرتے " اگے لکھا ہے کہ " ایمانی اندھوں ہی کو صحت یاب اور شفا یاب کیا "( محصلہ ص ۱۷۲ و ص ۱۳ ) اور لکھتے ہیں کہ : ۔
" احیاء موتی سے جسمانی مردوں کو زندہ کرنا ہر گز ہرگز وہم و خیال تک نہیں ہو سکتا بلکہ خاص ایمانی مردوں ہی کو زندہ کرنا مراد ہے ۔ " ( ص ۱۷۴ )
یہ سب کچھ چکڑالوی صاحب کہ اور لکھ گئے مگر یہ عقدہ حل نہ کیا کہ روحانی بیماریوں کا علاج تو سبھی انبیاء و رسل علیہم السلام کرتے رہے پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی تخصیص کی وجہ اس میں کیا ہوئی ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ معجزات حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان ہوئے ہیں اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے مذکور نہ ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا اور جس قدر ظلم نام نہاد اہل قرآن اور منکرین حدیث نے قرآن کریم پر روا رکھا ہے اس کی نظیر علم اور تحقیق کی دنیا میں نا پید ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تحریف چکڑالوی صاحب نے کی ہے مثلاً : ۔۔
( ۱۶ ) ۔۔۔۔۔۔۔ نار ابراھیم علیہ السلام سے فتنہ آگ مراد لی ہے ۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح پڑھنے سے مراد یہ لی ہے کہ "یا جبال" سے پہاڑی لوگ مراد ہیں اور "الطیر " سے طیر نام قوم مراد ہے ۔ وادی تیہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ " فقلنا اضرب بعصاک الحجر " ۔ چکڑالوی صاحب نے اس سے مراد یہ لی ہے کہ آپ اپنی جماعت کو پہاڑ کی طرف لے جائیں ۔ چنانچہ وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں چشمے بہہ رہے تھے۔ مگر یہ راز حل نہ کیا کہ جب اس قوم کو چالیس سال تک وادی تیہ سے نکلنا ہی ممنوع تھا تو پھر پانی کے لیے پہاڑوں کی طرف جانے کا کیا سوال ؟ مگر ان امور سے چکڑالوی صاحب اور ان کی جماعت کو کیا عرض ؟ عرض ان کے نظریات تو اپنی جگہ اٹل اور محکم ہیں اور یہ عقدہ بھی حل نہ کیا کہ فتنہ کی آگ تو تمام انبیاء کرام کے خلاف دشمنوں نے بھڑکائی تھی پھر " قلنا یا نار کونی بردًا و سلاماً علی ابراھیم" کی تخصیص کیا وجہ ہے ؟ اور جب ان پر فتنہ کی آگ ٹھنڈا پڑ گئی تھی تو لا محالہ لوگ ان کے دین کو قبول کر چکے ہوں گے ( کیونکہ کفار تو کبھی کسی نبی کے مقابلے سے نہیں ہارے ) پھر حضرت ابراھیم علیہ السلام کو "انی مہاجر الی ربی " کہہ کر عراق اور بابل کے علاقہ سے ہجرت کر کے ملک شام جانے کی کیا ضرورت درپیش ہوئی ۔ اور کیا پہاڑی لوگوں کی طرف صرف حضرت داؤد علیہ السلام ہی مبعوث ہوئے تھے۔
ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے " یا جبال اوبی " (کا معجزہ یا ) خطاب کیوں وارد نہیں ہوا ؟ اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تخصیص کی علت کیا ہے ؟ حضرات یہ ہے انکار حدیث کا شاخسانہ
عمل ان سے ہوا رخصت عقیدوں میں خلل آیا
کوئی پوچھے کہ ان کے ساتھ کیا نعم البدل آیا