انکارِ حدیث : ایک تاریخی جائزہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔۔۔بعد!۔

عزیز دوستوں!۔
قرآن سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لئے دو شرطیں ضروری ہیں۔

١۔ قلب سلیم۔
٢۔ اور صحیح عقل سلیم۔


اگر کوئی شخص دو شرطوں کو ملحوظ رکھ کر یعنی خلوص نیت سے اور خالی الذہن ہو کر قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریق کار کو تسللیم کرنے اور اس کی اتباع کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو آپ نے قرآنی احکام کی تکمیل کے دوران اختیار کر کے اُمت مسلمہ کو دکھلایا تھا اس طریق کار کو قرآن نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اور اس کی اتباع کو مسلمانوں کے لئے تا قیامت واجب الاتباع قرار دیا ہے کیونکہ اس کی اتباع کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے حتٰی کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ شرک کے بعد قرآن نے جتنا زور اطاعت و اتباع رسول اور اس کے ادب واحترام پر دیا ہے اتنا اور کسی بات پر نہیں دیا تو یہ بیجا بات نہ ہوگی۔۔۔

سنت رسول کی حضت سے انکار کے فتنہ نے دوسری صدی میں سر اُٹھایا تھا میں اس طبقی کے بہت سے لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ انکار سنت کے بنیادی محرکات دو ہی چیزیں ہیں۔۔

١۔ فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت۔
٢۔ اتباع ہوائے نفس۔

یعنی ایک مسلمان کی طرز بودو باش اعمال و افعال اور اکتساب رزق پر سنت رسول جو پانبدیاں عائد کرتی ہے ان سے فرار وگریز اس دور میں بھی اس فتنہ کے بنیادی محرکات یہی دو باتیں تھیں اور آج بھی یہی دونوں باتیں ہیں۔۔۔

دوسری صدی ہجری میں جب اس فتنے نے ناجائز طریقے سے جنم لیا تو علمائے اُمت نے اس کا بھرپور دفاع کیا جن آئمہ کرام نے یہ فریضہ سرانجام دیا ان میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام بخاری اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ علیہم کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس دور میں اس فتنہ انکار سنت یا اعتزال کو حکومت کی سرپرسیت حاصل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ تقریبا سوا سو سال زندہ رہا اور جب یہ سرپرستی ختم ہوگئی تو یہ فتنہ بھی آپ ہی اپنی موت مرگیا اور اس کی موت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سنت رسول کی حجت سے انکار ایک ایسا نظریہ تھا جو اسلام کے مزاج سے بالکل لگا نہیں کھاتا تھا۔۔۔

موجودہ دور میں اس فتنے کو اگرچہ کہیں بھی حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں تاہم اس کی پذیرائی کے اور کئی اسباب پیدا ہوگئے ہیں سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جب قرآن کے نام پر نوجوان انگریزی تعلیم یافتہ اور اسلام بیزار طبقہ کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اسلام دراصل ان گنے چنے اصولوں و قوانین اور احکام کا نام ہے جو قرآن میں مذکور ہیں رہا ان پر عمل درآمد اور تعمیل کا طریق کار تو اس کے لئے ہر دور کے (باذوق) مسلمانوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے دور کے علم کے مطابق اور اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان احکامات کی تاویل و تعبیر کر لیا کریں پھر کچھ حضرات نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آزاد ہوکر اور لغت کے بنیادی معنوں سے فرار اور دور کے کنائی اور مجازی معنی استعمال کر کے قرآنی احکام کی اس انداز میں تاویل و وضاحت فرمائی جس سے شریعت کی عائد کردہ پابندیاں ایک ایک کر کے ختم ہوجاتی تھیں تو ان مبشرات سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو مغربی تہذیب وافکار میں پھلا پھولا اور اسلام کے مبادیات تک سے ناواقف ہوتا ہے بہت خوش ہوجاتا ہے بھلا جس شخص کو اپنے اتباع ہوائے نفس کی پوری آزادی حاصل رہے اور اس سے کے ایمان و اسلام کا بھی کچھ نہ بگڑے تو اس کے لئے اس سے زیادہ اور خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے؟؟؟۔۔۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے عقائد و افکار میں کتنا ملحد اور اعمال وکردار میں کتنا ہی مفید کیوں نہ ہوجائے وہ اپنے آپ سے اسلام کے لیبل کو اتارنا گوارا نہیں کرتا نہ تو وہ یہ گوارا کرتا ہے کہ مذہب تبدیل کر کے یہودیوں یا عیسائیوں یا ہندو یاسکھ ہوجائے اور نہ ہی یہ گوارہ کرتا ہے کہ اسے اس کے اعمال و عقائد کی بنا پر کوئی دوسرا کافر مرتد یا ملحد قرار دے لہذا ایسے حضرات کو جو راستہ منکریں حدیث نے دکھایا ہے وہ ان کے لئے نہایت پسندیدہ ہے۔۔۔

آج کے دور میں یہ اگرچہ بعض دوسرے بلاد الاسلامیہ میں بھی اس فتنہ کا سراغ ملتا ہے مگر جو پذیرائی اسے برصغیر پاک وہند میں ہوئی ہے دوسرے مقامات پر نہیں ہوئی برصغیر پاک وہند میں اس طبقہ کا سب سے بڑا ترجمان ادارہ طلوع اسلام ہے جس نے چند ایسے نظریات کی داغ بیل ڈالی ہے جو اس کی شہرت اور پذیرائی کا اچھا خاصہ سبب بن گئی ہے مثلا ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی ہمنوائی نے اسے کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ میں مقبول بنادیا ہے۔۔۔

انکار سنت اور نظریہ مرکز ملت نے جج صاحبان کو اجتہاد کے بے پناہ اختیار دے کر ان میں پذیرائی حاصل کر لی ہے اور نظریہ نظام ربوبیت انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے حکمران طبقہ کے لئے بہت خوش آئندہ ہے اور یہ ہی وہ طبقے ہیں جو کسی ملک کے تہذیب و تمدن اور مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں گویا موجودہ دور کا یہ حملہ دوسری صدی کے حملے سے وسیع تر بھی ہے اور شدید تر بھی تاہم دو باتیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے قابل اطمینان ہیں ایک یہ کہ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قرآن کے احکام و فرامین کی تعمیل کا کوئی دوسرا تصور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں حتی کہ مذکورہ بالا طبقوں کی اکثریت بھی اس نظریہ کو مردہ قرار دیتی ہے اور دوسرے یہ کہ علمائے امت کے(باذوق) مسلمان اس فتنے کے بھرپور دفاع کے لئے اُتھ کھڑے ہوئے ہیں عربی زبان میں پہلے ہی ایسا لٹریچر موجود تھا جس میں سابقہ دور کے منکرین حدیث کے حدیث پر اعتراضات اور پھر ان اعتراضات کے مسکت جواب بھی موجود تھے جن میں ایک طرف تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت واہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا تو دوسرئ طرف اس بات کی وضاحت موجود تھی کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم تک نہایت قابل اعتماد ذرائع سے پہنچی ہے۔۔۔

ذوق والوں کے نام۔۔۔

وسلام۔۔۔
 
السلام و علیکم،
میں‌آپ کی بات سے متفق ہوں‌کہ قول رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوپر کسی قسم کا اجتہاد یا قیاس نہ صرف شیطانی سوچ ہے بلکہ انکار حدیث کا ٓغاز ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت دے اور صراط مستقیم کی طرف چلنے کی توفیق عطا کرے۔

والسلام
 
Top