انٹرویو انٹرویو وِد فرحت کیانی

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ کا اردو بلاگ ہوا کرتا تھا دریچہ۔ اردو ٹیک کی وفات کے بعد وہ بلاگ بھی غائب ہوگیا۔ میرا مشورہ ہوگا کہ انٹرنیٹ آرکائیو وے بیک مشین کے ذریعے اس کا بیک اَپ حاصل کریں اور بلاگ اسپاٹ یا ورڈپریس پر ایک بار پھر بلاگنگ شروع کریں۔ آپ کی تحریروں کو ایک بلاگ کی شدید ضرورت ہے!
بہت شکریہ شوبی۔ :)
بلاگ کا بیک اپ تو میں نے شکر ہے لے لیا تھا اور اس کو بلال کی مدد سے بلاگ سپاٹ پر منتقل بھی کر لیا تھا۔ لیکن پھر باقاعدگی سے لکھ نہیں پائی۔ دوسرا دوسروں کو بھی شائد اس بلاگ کی خبر بھی نہیں اور اس تبصرہ کرنا بھی مشکل لگتا ہے۔ وقت ملتا ہے تو اس پر کام کروں گی ان شاءاللہ۔
 
اف میرا سر ابھی تک بلال کے سوالوں کی تعداد سے چکر رہا ہے ۔

ایک سوال کے جواب کا جواب

یہی کہ 'بھائی صاحب موذی کا خطاب صرف میرے لئے ہی کیوں؟'

بھئی ، ہم نے باقاعدہ ایک "موذی" محفل میں سدھایا تو ہوا ہے پھر سانپ اکیلا کیسے بدنام ہوا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سچ کہوں تو آپ کے انٹرویو سے زیادہ مجھے آپ کی مدلل گفتگو اور مفید باتوں نے متاثر کیا ہے۔ اس لیے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ کی اسٹڈی کا کیا طریق کار تھا؟ اسٹڈیز کو کتنا وقت دیتی تھیں؟ کچھ ٹپس عنایت فرمائیں!
تاخیر کے لئے بہت معذرت شوبی۔ کچھ مصروف رہی پچھلے دنوں۔

زمانہ طالبعلمی میں میرا ایک ہی طریقہ تھا کہ روز کا روز پڑھ لوں۔ یعنی جو پڑھایا گیا اور اسی دن گھر آ کر ایک بار ضرور دیکھ لوں۔ لیکن میں کتابی کیڑا یا بالکل پڑھائی میں گم قسم کا بچہ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کا ایک قسم کا ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا گھر والوں نے۔ اسکول ، کالج سے واپسی کے بعد شام تک کا وقت ہمارا ہوتا تھا۔ اس میں ٹیلی ویژن اور کھیل سب شامل تھا۔ پھر کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے ہوم ورک مکمل کرنا۔ اور رات نو سے دس بجے اپنی اضافی پڑھائی۔ اس میں عموماً میرے ابو ہماری انگریزی ، حساب اور اردو چیک کیا کرتے تھے۔ اور کچھ نیا بھی سکھاتے تھے۔ یہ معمول سارا سال رہتا تھا۔ اور امتحان کی تیاری میں ہمیشہ پندرہ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ پہلے شروع کرتی تھی اور چونکہ ساتھ ساتھ پڑھا ہوتا تھا تو یہ صرف دہرائی ہی کا وقت ہوتا تھا۔
پڑھائی کے دوران میرا خیال ہے کہ رُول آف تھمب یہ ہوتا ہے کہ بے شک بہت زیادہ نہ پڑھا جائے لیکن روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے پڑھائی کو ٹائم دیا جائے۔ اور اس میں کم از کم ایک گھنٹہ دہرائی یا کچھ نیا پڑھنے کے لئے رکھا جائے چاہے روزانہ کی بنیاد پر نہیں تو ہفتہ کی بنیاد پر۔
دوسرا یہ کہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور نصابی کتاب تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہئیے۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کو کلاس میں پڑھایا جا رہا ہو تو اس کو غور سے سُنا جائے اور جہاں کوئی چیز واضح نہ ہو وہیں سوال پوچھ لیا جائے اور اگر استاد اتنے خوف ناک ہوں کہ ان کا تعلق کوہِ قاف سے محسوس ہوتا ہو تو اس صورت میں ساتھی طلبہ ، لائبریری اور ان دنوں تو انٹرنیٹ بھی ایک اہم ذیعہ ہے اپنی معلومات کو بہتر بنانے کے لئے۔ اسی طرح اپنے نوٹس لینا بہت اہم ہے۔ استاد کو کوئی جملہ یا نکتہ آپ کو اہم لگے اس کو فوراً نوٹ کر لینا چاہئیے۔ اور بعد میں انہیں نوٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کتاب یا ٹیکسٹ کو پڑھا جائے تو چیزوں کا لنک بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رٹا آپ کو چار سطریں تو یاد کروا دیتا ہے لیکن وہ جتنی آسانی اور تیزی سے یاد ہوتی ہیں اسی رفتار سے بھول بھی جاتی ہیں۔ پھر یہ کہ ہر موضوع کا تعلق عملی زندگی سے ہوتا ہے۔ اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو نہ صرف امتحان کارکردگی اچھی ہو گی، عملی زندگی اور خصوصاً اپنے پروفیشن میں یہ چیز بہت مدد دیتی ہے۔
تیسرا : جب آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں ، چاہے وہ نصابی کتاب ہے یا اضافی مطالعے کے لئے پڑھی جا رہی ہے، کو تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں۔ اور اپنی آسانی کے لئے نوٹس لے لیں۔ مطلب ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد اس کے مرکزی خیال کو 'ون لائنر' یا ایک 'سرخی' کی شکل میں سائیڈ پر لکھ لیں۔ پیرا کی سرخی عموماً آپ کو پہلی یا دوسری سطر میں مل جاتی ہے اور اس کا نچوڑ (jist) آخری ایک دو جملوں میں ملتا ہے۔ جب ہر حصے کی تلخیص اور مرکزی نکات آپ کے پاس موجود ہیں تو ان کو مزید بیان کرنا یا لکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
چوتھا: جو بھی پڑھیں، اپنی سمجھ اور سکھائی کی جانچ کے لئے اپنے لئے کوئی طریقہ وضع کر لیں۔ جیسے سب سے بہترین طریقہ لکھ کر یاد کرنے کا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم لوگ اردو اور انگریزی کے ہجے لکھ کر یاد کرتے تھے۔ اسی لئے ابھی بھی جب مجھے کسی چیز کے ہجوں میں کوئی شک ہوتا ہے تو میں اس کو لکھتی ہوں اور جو میرا ہاتھ لکھتا ہے مجھے یقین ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں اور وہ واقعی کبھی غلط نہیں ہوتے کیونکہ میں نے لکھ لکھ کر یاد کئے تھے۔ اسی طرح اپنے پوائنٹس کو پہلے لکھنا اور پھر اپنی جانچ کے لئے خود سے لکھ کر مرکزی خیال کے لئے ریفرینس بُک (نصابی کتاب یا اضافی مواد) سے ٹیلی کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کہاں تک سمجھ پائے ہیں۔ میرے اس چوتھے پوائنٹ کا تعلق امتحان کی تیاری سے ہے۔ دوسرا لکھنا آپ کی رائٹنگ سپیڈ بھی بڑھاتا ہے اور ٹائم مینیجمنٹ بہتر ہوتی ہے۔

اور فائنلی یہ کہ جس بھی لیول پر پڑھائی کر رہے ہوں چاہے وہ اسکول ہے یا کالج ، یونیورسٹی ، اپنے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہئیے۔ جو بھی پڑھ رہے ہیں اس سے متعلقہ مواد کو ضرور پڑھیں۔ جب ہمارے کونسپٹس واضح ہوں تو پڑھائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
اب کچھ ٹپس:
1۔ ٹائم ٹیبل: اپنی آسانی اور اپنا معمول مدِ نظر رکھ کر پہلے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بنائیں، پھر اس کو مزید بریک ڈاؤن کریں۔ چھ ماہ ، تین ماہ، ہفتہ وار اور روزانہ کی بنیاد پر۔ اس طرح جب ایک ٹارگٹ سامنے ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کر لی جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو بالکل آن ٹریک رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ آخر میں کسی مسئلے کی وجہ سے تیاری نہ ہو سکے تو پورا سال باقاعدگی سے پڑھنے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
2۔ پڑھائی ۔ کھیل اور ذاتی تفریح کا توازن: خود کو یہ سب کرنے کا موقع دیں۔ کسی ایک چیز کو اپنا لینا اور خود کو دوسرے معمولات سے بالکل الگ کر لینا کبھی بھی اچھا نتیجہ نہیں دیتا۔
3۔ دوسروں سے سیکھنا: ساتھ طلبہ سے ڈسکشن اور مل کر پڑھنا بھی بہت سے کونسپٹس کو کلیئر کر دیتا ہے۔ اگر چار لوگ مل کر پڑھ رہے ہیں تو ایک ایک ٹاپک لے لیں۔ ہر ایک اپنا اپنا ٹاپک تیار کرے اور باقیوں کو پڑھائے۔ اسے ہم 'جِگسا ریڈنگ' کہتے ہیں۔ یوں کم وقت میں زیادہ چیز کوَر ہو جاتی ہے۔
4۔ امتحان ، پریذنٹیشن یا اسائمنٹ کو سر پر سوار نہ کریں۔ تیاری پوری لگن سے کریں اور اس خوف کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیں کہ کیا ہو گا ، کیسے ہو گا وغیرہ
5۔ جب کسی امتحان میں شامل ہو رہے ہوں تو آخری وقت تک نہ پڑھیں۔ مثلاً اگر صبح آٹھ بجے امتحان ہے تو آپ کو بہت حد ہوئی تو رات ایک بجے کے بعد پڑھنا بند کر دینا چاہیئے۔ آرام بہت ضروری ہے ورنہ انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ ٹھیک طرح پرفارم نہیں کر پاتا۔ اور صبح اٹھ کر بھی پڑھیں تو امتحانی سنٹر پہنچ کر بھی وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے آنکھیں اور کان بند کر لیں۔ نہ کسی سے ڈسکشن اور نہ ہی کتاب یا کچھ اور۔ اس وقت کو ریلیکس کرنے اور دعا کرنے میں گزاریں۔

اور اب آخر میں سب سے اہم۔ اوپر تو ہم نے دوا کی ، لیکن ساتھ دعا کرنا نہیں بھولنا چاہئیے۔ 'حسبنا للہ و نعم الوکیل' بار بار پڑھیں۔ پھر پریذینٹیشن سے پہلے، اسائمنٹ جمع کرانے سے پہلے اور پیپر ممتحن کو دینے سے پہلے لوحِ قرآنی کے پانچ حروف 'ک ، حا ، یا، عین ، ص ' ایک ایک انگلی پر پڑھتے ہوئے مٹھی بند کریں اور پھر دوبارہ پڑھتے ہوئے مٹھی کو بالترتیب 'حاضرین ، استاد اور ممتحن کی طرف مٹھی کھول دیں۔ زبردست اثر ہو گا :) :angel:۔
یہ اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اماں ابا حتیٰ کہ بیگم سے بھی ڈانٹ کا خدشہ ہو تو اس کو ان پر پھونک دیں۔ اور phew...سب ٹھیک:party: ۔ آزمودہ نسخہ۔

میں شاید کوئی ایک بات بھول رہی ہوں جو یہاں لکھنی تھی۔ یاد آئی تو شامل کر دوں گی۔
 

نایاب

لائبریرین
تاخیر کے لئے بہت معذرت شوبی۔ کچھ مصروف رہی پچھلے دنوں۔

زمانہ طالبعلمی میں میرا ایک ہی طریقہ تھا کہ روز کا روز پڑھ لوں۔ یعنی جو پڑھایا گیا اور اسی دن گھر آ کر ایک بار ضرور دیکھ لوں۔ لیکن میں کتابی کیڑا یا بالکل پڑھائی میں گم قسم کا بچہ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کا ایک قسم کا ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا گھر والوں نے۔ اسکول ، کالج سے واپسی کے بعد شام تک کا وقت ہمارا ہوتا تھا۔ اس میں ٹیلی ویژن اور کھیل سب شامل تھا۔ پھر کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے ہوم ورک مکمل کرنا۔ اور رات نو سے دس بجے اپنی اضافی پڑھائی۔ اس میں عموماً میرے ابو ہماری انگریزی ، حساب اور اردو چیک کیا کرتے تھے۔ اور کچھ نیا بھی سکھاتے تھے۔ یہ معمول سارا سال رہتا تھا۔ اور امتحان کی تیاری میں ہمیشہ پندرہ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ پہلے شروع کرتی تھی اور چونکہ ساتھ ساتھ پڑھا ہوتا تھا تو یہ صرف دہرائی ہی کا وقت ہوتا تھا۔
پڑھائی کے دوران میرا خیال ہے کہ رُول آف تھمب یہ ہوتا ہے کہ بے شک بہت زیادہ نہ پڑھا جائے لیکن روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے پڑھائی کو ٹائم دیا جائے۔ اور اس میں کم از کم ایک گھنٹہ دہرائی یا کچھ نیا پڑھنے کے لئے رکھا جائے چاہے روزانہ کی بنیاد پر نہیں تو ہفتہ کی بنیاد پر۔
دوسرا یہ کہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور نصابی کتاب تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہئیے۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کو کلاس میں پڑھایا جا رہا ہو تو اس کو غور سے سُنا جائے اور جہاں کوئی چیز واضح نہ ہو وہیں سوال پوچھ لیا جائے اور اگر استاد اتنے خوف ناک ہوں کہ ان کا تعلق کوہِ قاف سے محسوس ہوتا ہو تو اس صورت میں ساتھی طلبہ ، لائبریری اور ان دنوں تو انٹرنیٹ بھی ایک اہم ذیعہ ہے اپنی معلومات کو بہتر بنانے کے لئے۔ اسی طرح اپنے نوٹس لینا بہت اہم ہے۔ استاد کو کوئی جملہ یا نکتہ آپ کو اہم لگے اس کو فوراً نوٹ کر لینا چاہئیے۔ اور بعد میں انہیں نوٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کتاب یا ٹیکسٹ کو پڑھا جائے تو چیزوں کا لنک بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رٹا آپ کو چار سطریں تو یاد کروا دیتا ہے لیکن وہ جتنی آسانی اور تیزی سے یاد ہوتی ہیں اسی رفتار سے بھول بھی جاتی ہیں۔ پھر یہ کہ ہر موضوع کا تعلق عملی زندگی سے ہوتا ہے۔ اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو نہ صرف امتحان کارکردگی اچھی ہو گی، عملی زندگی اور خصوصاً اپنے پروفیشن میں یہ چیز بہت مدد دیتی ہے۔
تیسرا : جب آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں ، چاہے وہ نصابی کتاب ہے یا اضافی مطالعے کے لئے پڑھی جا رہی ہے، کو تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں۔ اور اپنی آسانی کے لئے نوٹس لے لیں۔ مطلب ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد اس کے مرکزی خیال کو 'ون لائنر' یا ایک 'سرخی' کی شکل میں سائیڈ پر لکھ لیں۔ پیرا کی سرخی عموماً آپ کو پہلی یا دوسری سطر میں مل جاتی ہے اور اس کا نچوڑ (jist) آخری ایک دو جملوں میں ملتا ہے۔ جب ہر حصے کی تلخیص اور مرکزی نکات آپ کے پاس موجود ہیں تو ان کو مزید بیان کرنا یا لکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
چوتھا: جو بھی پڑھیں، اپنی سمجھ اور سکھائی کی جانچ کے لئے اپنے لئے کوئی طریقہ وضع کر لیں۔ جیسے سب سے بہترین طریقہ لکھ کر یاد کرنے کا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم لوگ اردو اور انگریزی کے ہجے لکھ کر یاد کرتے تھے۔ اسی لئے ابھی بھی جب مجھے کسی چیز کے ہجوں میں کوئی شک ہوتا ہے تو میں اس کو لکھتی ہوں اور جو میرا ہاتھ لکھتا ہے مجھے یقین ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں اور وہ واقعی کبھی غلط نہیں ہوتے کیونکہ میں نے لکھ لکھ کر یاد کئے تھے۔ اسی طرح اپنے پوائنٹس کو پہلے لکھنا اور پھر اپنی جانچ کے لئے خود سے لکھ کر مرکزی خیال کے لئے ریفرینس بُک (نصابی کتاب یا اضافی مواد) سے ٹیلی کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کہاں تک سمجھ پائے ہیں۔ میرے اس چوتھے پوائنٹ کا تعلق امتحان کی تیاری سے ہے۔ دوسرا لکھنا آپ کی رائٹنگ سپیڈ بھی بڑھاتا ہے اور ٹائم مینیجمنٹ بہتر ہوتی ہے۔

اور فائنلی یہ کہ جس بھی لیول پر پڑھائی کر رہے ہوں چاہے وہ اسکول ہے یا کالج ، یونیورسٹی ، اپنے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہئیے۔ جو بھی پڑھ رہے ہیں اس سے متعلقہ مواد کو ضرور پڑھیں۔ جب ہمارے کونسپٹس واضح ہوں تو پڑھائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
اب کچھ ٹپس:
1۔ ٹائم ٹیبل: اپنی آسانی اور اپنا معمول مدِ نظر رکھ کر پہلے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بنائیں، پھر اس کو مزید بریک ڈاؤن کریں۔ چھ ماہ ، تین ماہ، ہفتہ وار اور روزانہ کی بنیاد پر۔ اس طرح جب ایک ٹارگٹ سامنے ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کر لی جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو بالکل آن ٹریک رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ آخر میں کسی مسئلے کی وجہ سے تیاری نہ ہو سکے تو پورا سال باقاعدگی سے پڑھنے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
2۔ پڑھائی ۔ کھیل اور ذاتی تفریح کا توازن: خود کو یہ سب کرنے کا موقع دیں۔ کسی ایک چیز کو اپنا لینا اور خود کو دوسرے معمولات سے بالکل الگ کر لینا کبھی بھی اچھا نتیجہ نہیں دیتا۔
3۔ دوسروں سے سیکھنا: ساتھ طلبہ سے ڈسکشن اور مل کر پڑھنا بھی بہت سے کونسپٹس کو کلیئر کر دیتا ہے۔ اگر چار لوگ مل کر پڑھ رہے ہیں تو ایک ایک ٹاپک لے لیں۔ ہر ایک اپنا اپنا ٹاپک تیار کرے اور باقیوں کو پڑھائے۔ اسے ہم 'جِگسا ریڈنگ' کہتے ہیں۔ یوں کم وقت میں زیادہ چیز کوَر ہو جاتی ہے۔
4۔ امتحان ، پریذنٹیشن یا اسائمنٹ کو سر پر سوار نہ کریں۔ تیاری پوری لگن سے کریں اور اس خوف کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیں کہ کیا ہو گا ، کیسے ہو گا وغیرہ
5۔ جب کسی امتحان میں شامل ہو رہے ہوں تو آخری وقت تک نہ پڑھیں۔ مثلاً اگر صبح آٹھ بجے امتحان ہے تو آپ کو بہت حد ہوئی تو رات ایک بجے کے بعد پڑھنا بند کر دینا چاہیئے۔ آرام بہت ضروری ہے ورنہ انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ ٹھیک طرح پرفارم نہیں کر پاتا۔ اور صبح اٹھ کر بھی پڑھیں تو امتحانی سنٹر پہنچ کر بھی وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے آنکھیں اور کان بند کر لیں۔ نہ کسی سے ڈسکشن اور نہ ہی کتاب یا کچھ اور۔ اس وقت کو ریلیکس کرنے اور دعا کرنے میں گزاریں۔

اور اب آخر میں سب سے اہم۔ اوپر تو ہم نے دوا کی ، لیکن ساتھ دعا کرنا نہیں بھولنا چاہئیے۔ 'حسبنا للہ و نعم الوکیل' بار بار پڑھیں۔ پھر پریذینٹیشن سے پہلے، اسائمنٹ جمع کرانے سے پہلے اور پیپر ممتحن کو دینے سے پہلے لوحِ قرآنی کے پانچ حروف 'ک ، حا ، یا، عین ، ص ' ایک ایک انگلی پر پڑھتے ہوئے مٹھی بند کریں اور پھر دوبارہ پڑھتے ہوئے مٹھی کو بالترتیب 'حاضرین ، استاد اور ممتحن کی طرف مٹھی کھول دیں۔ زبردست اثر ہو گا :):angel:۔
یہ اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اماں ابا حتیٰ کہ بیگم سے بھی ڈانٹ کا خدشہ ہو تو اس کو ان پر پھونک دیں۔ اور phew...سب ٹھیک:party: ۔ آزمودہ نسخہ۔

میں شاید کوئی ایک بات بھول رہی ہوں جو یہاں لکھنی تھی۔ یاد آئی تو شامل کر دوں گی۔

بہت سی دعائیں محترم بہنا آپ کے نام ۔
آپ کی مندرجہ بالا تحریر بلاشبہ رہنما تحریر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سرخ کشیدہ اقتباس تو کم و بیش چالیس سال پہلے کا وہ منظر تازہ کر گیا ۔ جب اینٹ پر اینٹ رکھتے " یقین کامل " کو آزمانا سیکھا تھا ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت سی دعائیں محترم بہنا آپ کے نام ۔
آپ کی مندرجہ بالا تحریر بلاشبہ رہنما تحریر ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اور سرخ کشیدہ اقتباس تو کم و بیش چالیس سال پہلے کا وہ منظر تازہ کر گیا ۔ جب اینٹ پر اینٹ رکھتے " یقین کامل " کو آزمانا سیکھا تھا ۔
جزاک اللہ نایاب بھائی۔ :) میرا تو ہمیشہ سے ماننا ہے کہ اپنی پوری کوشش کرو اور پھر دعا کا سہارا لو۔ اللہ تعالیٰ اس طرح آپ کی مشکلات آسان کرتے ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مزید کچھ بتائیں نایاب بھائی۔
 

نایاب

لائبریرین
جزاک اللہ نایاب بھائی۔ :) میرا تو ہمیشہ سے ماننا ہے کہ اپنی پوری کوشش کرو اور پھر دعا کا سہارا لو۔ اللہ تعالیٰ اس طرح آپ کی مشکلات آسان کرتے ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
مزید کچھ بتائیں نایاب بھائی۔
بلا شک درست کہا آپ نے ۔
اسی لیئے کہا گیا ہے کہ " یقین کامل ہی پیر کو کامل ٹھہراتا ہے "
بنا یقین سب وہم و گمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان شاءاللہ ۔ اپنی باتوں والے دھاگے میں ان یادوں کو تازہ کرتا ہوں ۔ تاکہ یہاں کا تسلسل برقرار رہے ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بلا شک درست کہا آپ نے ۔
اسی لیئے کہا گیا ہے کہ " یقین کامل ہی پیر کو کامل ٹھہراتا ہے "
بنا یقین سب وہم و گمان ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

ان شاءاللہ ۔ اپنی باتوں والے دھاگے میں ان یادوں کو تازہ کرتا ہوں ۔ تاکہ یہاں کا تسلسل برقرار رہے ۔
:)
جی میں انتظار کروں گی۔ بلکہ میں ابھی اپنا سوال وہاں پوسٹ کرتی ہوں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
@فرحت ، میں سمجھوں کہ ایک "سافٹ بال" کے بعد ایک مشکل گیند کھیلنے کے لیے چوکنی ہو گئی ہیں یا ابھی پچھلی شاٹ کا سرور باقی ہے۔ :cool:
یہ پوسٹ تو میں نے ابھی دیکھی۔ اس سافٹ بال یا مشکل گیند کا کیا ذکر۔ اس کے بعد تو محمد بلال اعظم کے 100 سوالوں کے باؤنسرز نے دماغ گھما دیا تھا۔ :openmouthed:

ریکارڈ کی درستگی کے لئے۔
میں نے اس بارے میں بہت معلوم کیا ہے لیکن مجھے کہیں بھی لشکر جھنگوی کا لنک جہلم سے نہیں پتہ چل سکا اور یہ معلومات انتہائی معتبر ذریعہ سے حاصل کی گئی ہیں۔ میں خود بھی بہت وقت اس شہر میں رہی ہوں اس لئے میرے ذہن میں بھی کہیں ایسی کسی بات کی یاد نہیں ہے۔
جہلم کی لوکیشن روالپنڈی اور گجرات کے درمیان ہے۔ اور یہ چھوٹا سا شہر بہت پُرسکون ہے اور فرقہ پرستی یا شدت پرستی کا عنصر اس کے عمومی ماحول کا ہر گز حصہ نہیں ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اف میرا سر ابھی تک بلال کے سوالوں کی تعداد سے چکر رہا ہے ۔

ایک سوال کے جواب کا جواب



بھئی ، ہم نے باقاعدہ ایک "موذی" محفل میں سدھایا تو ہوا ہے پھر سانپ اکیلا کیسے بدنام ہوا۔
وہ موذی بھی تو سانپ ہی کا کزن ہے۔ اور جب سدھا لیا تو پھر موذی کہاں رہا۔ :openmouthed:
 
تاخیر کے لئے بہت معذرت شوبی۔ کچھ مصروف رہی پچھلے دنوں۔

زمانہ طالبعلمی میں میرا ایک ہی طریقہ تھا کہ روز کا روز پڑھ لوں۔ یعنی جو پڑھایا گیا اور اسی دن گھر آ کر ایک بار ضرور دیکھ لوں۔ لیکن میں کتابی کیڑا یا بالکل پڑھائی میں گم قسم کا بچہ نہیں تھی۔ ہم لوگوں کا ایک قسم کا ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا گھر والوں نے۔ اسکول ، کالج سے واپسی کے بعد شام تک کا وقت ہمارا ہوتا تھا۔ اس میں ٹیلی ویژن اور کھیل سب شامل تھا۔ پھر کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے ہوم ورک مکمل کرنا۔ اور رات نو سے دس بجے اپنی اضافی پڑھائی۔ اس میں عموماً میرے ابو ہماری انگریزی ، حساب اور اردو چیک کیا کرتے تھے۔ اور کچھ نیا بھی سکھاتے تھے۔ یہ معمول سارا سال رہتا تھا۔ اور امتحان کی تیاری میں ہمیشہ پندرہ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ پہلے شروع کرتی تھی اور چونکہ ساتھ ساتھ پڑھا ہوتا تھا تو یہ صرف دہرائی ہی کا وقت ہوتا تھا۔
پڑھائی کے دوران میرا خیال ہے کہ رُول آف تھمب یہ ہوتا ہے کہ بے شک بہت زیادہ نہ پڑھا جائے لیکن روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے پڑھائی کو ٹائم دیا جائے۔ اور اس میں کم از کم ایک گھنٹہ دہرائی یا کچھ نیا پڑھنے کے لئے رکھا جائے چاہے روزانہ کی بنیاد پر نہیں تو ہفتہ کی بنیاد پر۔
دوسرا یہ کہ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور نصابی کتاب تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہئیے۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ایک اہم بات یہ ہے کہ جب آپ کو کلاس میں پڑھایا جا رہا ہو تو اس کو غور سے سُنا جائے اور جہاں کوئی چیز واضح نہ ہو وہیں سوال پوچھ لیا جائے اور اگر استاد اتنے خوف ناک ہوں کہ ان کا تعلق کوہِ قاف سے محسوس ہوتا ہو تو اس صورت میں ساتھی طلبہ ، لائبریری اور ان دنوں تو انٹرنیٹ بھی ایک اہم ذیعہ ہے اپنی معلومات کو بہتر بنانے کے لئے۔ اسی طرح اپنے نوٹس لینا بہت اہم ہے۔ استاد کو کوئی جملہ یا نکتہ آپ کو اہم لگے اس کو فوراً نوٹ کر لینا چاہئیے۔ اور بعد میں انہیں نوٹس کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کتاب یا ٹیکسٹ کو پڑھا جائے تو چیزوں کا لنک بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رٹا آپ کو چار سطریں تو یاد کروا دیتا ہے لیکن وہ جتنی آسانی اور تیزی سے یاد ہوتی ہیں اسی رفتار سے بھول بھی جاتی ہیں۔ پھر یہ کہ ہر موضوع کا تعلق عملی زندگی سے ہوتا ہے۔ اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو نہ صرف امتحان کارکردگی اچھی ہو گی، عملی زندگی اور خصوصاً اپنے پروفیشن میں یہ چیز بہت مدد دیتی ہے۔
تیسرا : جب آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوں ، چاہے وہ نصابی کتاب ہے یا اضافی مطالعے کے لئے پڑھی جا رہی ہے، کو تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں۔ اور اپنی آسانی کے لئے نوٹس لے لیں۔ مطلب ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد اس کے مرکزی خیال کو 'ون لائنر' یا ایک 'سرخی' کی شکل میں سائیڈ پر لکھ لیں۔ پیرا کی سرخی عموماً آپ کو پہلی یا دوسری سطر میں مل جاتی ہے اور اس کا نچوڑ (jist) آخری ایک دو جملوں میں ملتا ہے۔ جب ہر حصے کی تلخیص اور مرکزی نکات آپ کے پاس موجود ہیں تو ان کو مزید بیان کرنا یا لکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
چوتھا: جو بھی پڑھیں، اپنی سمجھ اور سکھائی کی جانچ کے لئے اپنے لئے کوئی طریقہ وضع کر لیں۔ جیسے سب سے بہترین طریقہ لکھ کر یاد کرنے کا ہوتا ہے۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم لوگ اردو اور انگریزی کے ہجے لکھ کر یاد کرتے تھے۔ اسی لئے ابھی بھی جب مجھے کسی چیز کے ہجوں میں کوئی شک ہوتا ہے تو میں اس کو لکھتی ہوں اور جو میرا ہاتھ لکھتا ہے مجھے یقین ہوتا ہے کہ وہ درست ہیں اور وہ واقعی کبھی غلط نہیں ہوتے کیونکہ میں نے لکھ لکھ کر یاد کئے تھے۔ اسی طرح اپنے پوائنٹس کو پہلے لکھنا اور پھر اپنی جانچ کے لئے خود سے لکھ کر مرکزی خیال کے لئے ریفرینس بُک (نصابی کتاب یا اضافی مواد) سے ٹیلی کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کہاں تک سمجھ پائے ہیں۔ میرے اس چوتھے پوائنٹ کا تعلق امتحان کی تیاری سے ہے۔ دوسرا لکھنا آپ کی رائٹنگ سپیڈ بھی بڑھاتا ہے اور ٹائم مینیجمنٹ بہتر ہوتی ہے۔

اور فائنلی یہ کہ جس بھی لیول پر پڑھائی کر رہے ہوں چاہے وہ اسکول ہے یا کالج ، یونیورسٹی ، اپنے آپ کو محدود نہیں کرنا چاہئیے۔ جو بھی پڑھ رہے ہیں اس سے متعلقہ مواد کو ضرور پڑھیں۔ جب ہمارے کونسپٹس واضح ہوں تو پڑھائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
اب کچھ ٹپس:
1۔ ٹائم ٹیبل: اپنی آسانی اور اپنا معمول مدِ نظر رکھ کر پہلے پورے سال کا ٹائم ٹیبل بنائیں، پھر اس کو مزید بریک ڈاؤن کریں۔ چھ ماہ ، تین ماہ، ہفتہ وار اور روزانہ کی بنیاد پر۔ اس طرح جب ایک ٹارگٹ سامنے ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کر لی جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو بالکل آن ٹریک رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ آخر میں کسی مسئلے کی وجہ سے تیاری نہ ہو سکے تو پورا سال باقاعدگی سے پڑھنے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
2۔ پڑھائی ۔ کھیل اور ذاتی تفریح کا توازن: خود کو یہ سب کرنے کا موقع دیں۔ کسی ایک چیز کو اپنا لینا اور خود کو دوسرے معمولات سے بالکل الگ کر لینا کبھی بھی اچھا نتیجہ نہیں دیتا۔
3۔ دوسروں سے سیکھنا: ساتھ طلبہ سے ڈسکشن اور مل کر پڑھنا بھی بہت سے کونسپٹس کو کلیئر کر دیتا ہے۔ اگر چار لوگ مل کر پڑھ رہے ہیں تو ایک ایک ٹاپک لے لیں۔ ہر ایک اپنا اپنا ٹاپک تیار کرے اور باقیوں کو پڑھائے۔ اسے ہم 'جِگسا ریڈنگ' کہتے ہیں۔ یوں کم وقت میں زیادہ چیز کوَر ہو جاتی ہے۔
4۔ امتحان ، پریذنٹیشن یا اسائمنٹ کو سر پر سوار نہ کریں۔ تیاری پوری لگن سے کریں اور اس خوف کو پاس بھی نہ پھٹکنے دیں کہ کیا ہو گا ، کیسے ہو گا وغیرہ
5۔ جب کسی امتحان میں شامل ہو رہے ہوں تو آخری وقت تک نہ پڑھیں۔ مثلاً اگر صبح آٹھ بجے امتحان ہے تو آپ کو بہت حد ہوئی تو رات ایک بجے کے بعد پڑھنا بند کر دینا چاہیئے۔ آرام بہت ضروری ہے ورنہ انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ ٹھیک طرح پرفارم نہیں کر پاتا۔ اور صبح اٹھ کر بھی پڑھیں تو امتحانی سنٹر پہنچ کر بھی وقت سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے آنکھیں اور کان بند کر لیں۔ نہ کسی سے ڈسکشن اور نہ ہی کتاب یا کچھ اور۔ اس وقت کو ریلیکس کرنے اور دعا کرنے میں گزاریں۔

اور اب آخر میں سب سے اہم۔ اوپر تو ہم نے دوا کی ، لیکن ساتھ دعا کرنا نہیں بھولنا چاہئیے۔ 'حسبنا للہ و نعم الوکیل' بار بار پڑھیں۔ پھر پریذینٹیشن سے پہلے، اسائمنٹ جمع کرانے سے پہلے اور پیپر ممتحن کو دینے سے پہلے لوحِ قرآنی کے پانچ حروف 'ک ، حا ، یا، عین ، ص ' ایک ایک انگلی پر پڑھتے ہوئے مٹھی بند کریں اور پھر دوبارہ پڑھتے ہوئے مٹھی کو بالترتیب 'حاضرین ، استاد اور ممتحن کی طرف مٹھی کھول دیں۔ زبردست اثر ہو گا :) :angel:۔
یہ اثر کسی پر بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً اماں ابا حتیٰ کہ بیگم سے بھی ڈانٹ کا خدشہ ہو تو اس کو ان پر پھونک دیں۔ اور phew...سب ٹھیک:party: ۔ آزمودہ نسخہ۔

میں شاید کوئی ایک بات بھول رہی ہوں جو یہاں لکھنی تھی۔ یاد آئی تو شامل کر دوں گی۔

جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

اس تفصیلی جواب پر آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اللہ کریم آپ کو خوش و خرم رکھے اور آپ اسی طرح کی مفید تحاریر لکھ کر ہماری رہنمائی کرتی رہیں۔ آمین۔۔!

آپ کی اس نہایت مفید تحریر کو اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کر دیا ہے۔ ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ!
 

مہ جبین

محفلین
ماشاءاللہ فرحت کیانی ! پڑھائی کرنے کے اتنے بہترین نسخے لکھے ہیں جو طالبعلموں کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی نہایت سود مند ہیں
اسکو کہتے ہیں تعلیم اور تربیت ساتھ ساتھ
بہت زبردست چندا فرحت
انشاءاللہ یہ سب باتیں تمہارے لئے صدقہء جاریہ ثابت ہونگی
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے مندرجہ بالا نسخے پر عمل بہت عرصہ کیا کہ سکول یا کالج سے گھر واپس آ کر بھی پڑھنا ہے، امتحانات کے دوران اضافی وقت دینا ہے وغیرہ وغیرہ، ہمیشہ اوسط درجے کا نتیجہ آیا کرتا تھا۔ میری دو گریجوائشن ہیں دونوں الگ الگ یونیورسٹیوں سے اور بیک وقت کی گئی تھیں۔ اس دوران میں نے دو چیزیں سیکھیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں کے نوٹس بالکل ویسے ہی ناکارہ ہیں جیسے کہ رٹا۔ رٹے سے مجھے شروع سے ہی نفرت رہی ہے۔ دوسری بات یہ سیکھی کہ اگر آپ نے لیکچر کے دوران آنکھیں اور کان کھلے جبکہ منہ بند رکھا (تاکہ کوئی شرارت نہ کر سکیں، سوال پوچھنا اور بات ہے) تو سب ٹھیک ہے
بچپن میں مجھے ADHD اور OCD کا مسئلہ تھا جو ہائی سکول کے بعد ارتکاز توجہ کی کمی کا سبب بنا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایف ایس سی میں سارا سارا دن میرے سامنے نوٹس کا ایک ہی صفحہ کھلا رہتا تھا (چھٹی کا دن ابو کے حکم کے مطابق کسی خالی کمرے میں بیٹھ کر پڑھائی کرنی ہوتی تھی) اور میں یا تو اس صفحے پر فل ان دی بلینکس کر رہا ہوں (یعنی a ہے یا o وغیرہ تو ان کے دائروں کے اندر رنگ بھرنا) یا پھر لکھے ہوئے الفاظ پر مختلف رنگوں کی بال پوائنٹ پن سے دوبارہ لکھتے رہنا۔ جی ہاں آپ کا اندازہ بالکل درست ہے کہ ایف ایس سی میں مجھے انہی مسائل کی وجہ سے بہت عرصہ لگا
گریجوائشن میں میرا یہ معمول تھا کہ جو کچھ لیکچر کے دوران پڑھ لیا، وہ کافی ہے۔ گھر آ کر کبھی کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ امتحان کی رات زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ بیٹھ کر سارے سمسٹر کو ری وائز کر لیا اور بس۔ شاید ہی کوئی پیپر ایسا ہو کہ جس میں فرسٹ ڈویژن نہ آئی ہو
شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ میں نے ADHD اور OCD کو کور کرنا سیکھ لیا تھا :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

فرحت کیانی

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !!

اس تفصیلی جواب پر آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اللہ کریم آپ کو خوش و خرم رکھے اور آپ اسی طرح کی مفید تحاریر لکھ کر ہماری رہنمائی کرتی رہیں۔ آمین۔۔!

آپ کی اس نہایت مفید تحریر کو اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کر دیا ہے۔ ایک بار پھر آپ کا بہت شکریہ!
جزاک اللہ، شوبی۔ میں آپ کی ممنون ہوں کہ آپ نے اس پوسٹ کو اپنے بلاگ پر جگہ دی۔ بہت شکریہ۔ خوش رہیں بہت سا۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اور کیا۔ اور آپ بھی یہ سوچے بغیر کہ باؤنسرز میرے جیسے ٹیل اینڈرز کے لئے نہیں ہوتے، ایک کے بعد ایک باؤنسر پھینکے جاتے ہیں۔ :shock:
شاید یہی وجہ تھی ایک دو شارٹ پچ ڈلیوریز ایسی گئیں کے وارننگ ملنے کے بعد نو بال بھی ہو گئی:LOL:
 

نایاب

لائبریرین
محترم بہنا سدا ہنستی مسکراتی رہیں آمین
کافی کا کپ سنبھالیں اور " ڈوب کر اپنے من میں پا جا سراغ زندگی " کے بارے اپنی سوچ کا اظہار کریں ۔
کہ " ڈوب " کر تو زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ تو پھر کیسے کوئی پائے سراغ زندگی ۔۔۔۔؟
آپ نے زندگی بارے کیا جانا کیا سمجھا ۔۔۔۔۔۔۔؟
کب یہ آگہی ملی کہ زندگی واقعی امتحان لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محترم بہنا سدا ہنستی مسکراتی رہیں آمین
کافی کا کپ سنبھالیں اور " ڈوب کر اپنے من میں پا جا سراغ زندگی " کے بارے اپنی سوچ کا اظہار کریں ۔
کہ " ڈوب " کر تو زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ تو پھر کیسے کوئی پائے سراغ زندگی ۔۔۔ ۔؟
آپ نے زندگی بارے کیا جانا کیا سمجھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
کب یہ آگہی ملی کہ زندگی واقعی امتحان لیتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
بہت شکریہ نایاب بھائی۔
اتنا مشکل سوال پوچھ لیا :( ۔ میں تو ابھی زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان پائی۔ ہر روز ایک نیا رخ دیکھنے کو ملتا ہے۔:idontknow2:
میں ذرا کچھ رٹا شٹا لگا لوں پھر آتی ہوں :openmouthed:۔
تفنن برطرف۔ میں فارغ ہو کر اپنے مشاہدہ اور تجربے کے بارے میں لکھتی ہوں نایاب بھائی۔
 
Top