مریم افتخار
محفلین
پردہ نشینوں کے نام۔۔۔ایتھے رکھ!داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
(یہاں سے کلپ کٹے گا!!!)
پردہ نشینوں کے نام۔۔۔ایتھے رکھ!داورِ حشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
کلائمیکس یعنی کہانی کی پیک جہاں سارے معاملات ریزولو ہو رہے ہوتے ہیں۔ یا کچھ اور بھی ہے اس کا مطلب؟ہم نے کلائمیکسُ آنے نہیں دیا
اللہ رب العزت ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں یہ تصور راسخ ہو جائے کہ تم مرض سے نفرت کرو مگر مریض سے نہیں، اس لئے کہ اگر تم مریض سے ہی نفرت کرنے لگو گے تو اس کا ٹھکانہ کیا ہو گا۔
ہر بار ہم واپس لے آئےدو بار ہوا
🤓🤓🤓🤓🤓🤓🤓🤓🤓پردہ نشینوں کے نام۔۔۔ایتھے رکھ!
(یہاں سے کلپ کٹے گا!!!)
کاٹنے والے کیا ہوئے؟پردہ نشینوں کے نام۔۔۔ایتھے رکھ!
(یہاں سے کلپ کٹے گا!!!)
قصہ پارینہ وغیرہ ہوئے۔ اب بس یاد باقی ہے!کاٹنے والے کیا ہوئے؟
وہ تو درست، لیکن جی ایم ٹی کے حساب سے آپ کو ہنوز محوِ خواب وغیرہ ہونا چاہیے ۔قصہ پارینہ وغیرہ ہوئے۔ اب بس یاد باقی ہے!
ایک دن۔۔۔پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں وغیرہ۔وہ تو درست، لیکن جی ایم ٹی کے حساب سے آپ کو ہنوز محوِ خواب وغیرہ ہونا چاہیے ۔
اور آپ کے خواب کیا ہوئے؟ جی ایم ٹی کے حساب سے تو گھنٹے بھر کا ہی فرق ہے غالبا۔جی ایم ٹی کے حساب سے آپ کو ہنوز محوِ خواب
نیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سےاور آپ کے خواب کیا ہوئے؟ جی ایم ٹی کے حساب سے تو گھنٹے بھر کا ہی فرق ہے غالبا۔
خوابناک و غم ناک وغیرہنیند سے میرا تعلق ہی نہیں برسوں سے
خواب آ آ کے مری چھت پہ ٹہلتے کیوں ہیں
سوال بظاہر لائیٹ مُوڈ میں لگتا ہے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے ۔1) قرآنی صبر اور پاکستانی صبر میں کیا فرق ہے؟
سب سے پہلے تو شدتِ جذبات میں کوئی فیصلہ نہ کریں، صرف معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیئے نفسیات کی Pause Technique کو اختیار کریں ۔ یعنی وقفہ لیں ۔ جب جذبات مانند پڑ نے لگتے ہیں تو عقل کام کرنا شروع کردیتی ہے ۔ نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ غصہ ، اشتعال ، شدتِ جذبات کا دورانیہ 14 سے 15 منٹ کا ہوتا ہے ۔ اس دوران یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا میں یہ فیصلہ میں جذبات میں کر رہا / رہی ہوں ۔ کیا کل میں اپنےاس فیصلہ کو صحیح سمجھوں گا / گی ۔ امید ہے اس عمل سے شدتِ جذبات میں کمی آئے گی اور صحیح فیصلے کی ترغیب ملے گی ۔2) شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلہ کرنے سے کیسے بچا جائے؟
اس کا اتفاق نہیں ہوا ۔ نہ ہی ابھی تک کوئی پیارا اس حال کو پہنچا ہے ۔3) کبھی تھیراپی لینے کا اتفاق ہوا؟ جب آپ کے پیاروں کی مینٹل ہیلتھ خراب ہوتی ہے تو ان کے لیے کیا کرتے ہیں؟
میں اس سوال کا جواب قرآن کی ان آیتوں سے شروع کرتا ہوں ۔4) کیا واقعی علم کی کوئی حد ہے؟ اور اگر نہیں تو کیسے جانا جائے کہ کتنے علم کے بعد ہاتھ روک کر عمل پر توجہ مرکوز کرنی ہے؟
جی بلکل ، انسان کی فیلڈ آف اسٹڈی کا اس کے مزاج پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ۔ انسان جس علم کی فیلڈ میں وقت گذارتا ہے ۔ وہی اس کی سوچ کا زاویہ بدلتا ہے ۔ بلکہ سوچ کو ایک نئے سانچے میں بھی ڈھال دیتا ہے ۔ لفظوں کو معونیت دینا آجاتا ہے ۔ حقیقت کو جانچے کا طریقہ کار سمجھ آجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر جو انسان سائنس پڑتا ہے ۔ اس میں تجربے ، مشاہدے اور ثبوت پر زور دینے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ جو ادب میں مہارت رکھتا ہے، وہ جذبات، تشبیہات اور انسانی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے۔جو فلسفہ/نفسیات پڑھتا ہے، وہ چیزوں کے "پیچھے کی تہوں" کو کھولنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔اس میں چیزوں کی جزیات سمجھنے کی صلاحیت عود کر آتی ہے ۔ یعنی علم صرف معلومات مہیا نہیں کرتا ۔ بلکہ مزاج کی ساخت بھی تبدیل کردیتا ہے ۔ اگر یہ سوال مجھ سے براہ راست ہے کہ میں بروج پر یقین نہیں رکھتا تو یہ بالکل درست بات ہے ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں بروج یا ستاروں کی بنیاد پر شخصیت اور تقدیر کا تعین کرنا میں درست نہیں سمجھتا ۔اپنی فطرت پر یقین کریں۔ ہر انسان کے اندر کچھ پیدائشی رجحانات (temperament)ہوتے ہیں ۔ ان کو بروئےکار لائیں ۔ گھر ،استاتذہ اور ماحول سے تربیت کے مراحل طے کریں ۔ یہ سب شخصیت میں صلاحیت کا رنگ بھرتے ہیں ۔ اپنے فیصلے اور اعمال شفاف نیت کی بنیاد پروان چڑھائیں ۔ یقین اُن اصولوں پر کریں۔جو اللہ کے کلام میں دیے گئے۔جو انسان کے اختیار، نیت اور کوشش کو بنیاد بناتے ہیں۔نہ کہ ستاروں کو۔5) کیا انسان کی فیلڈ آف سٹڈی کا اس مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے؟ اگر بروج پر یقین نہیں تو پھر کس شے پر ہے؟ کیسے مختلف انسانوں کے رجحان اور مزاج کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں؟
بہت سے شگوفے ہیں ۔ جو پچپن میں چھیڑے ۔ اردو محفل میں کئی ایک درج کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک کا لنک یہ رہا ۔ مراسلہ نمبر 182۔6) کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیں۔ کوئی ایسا واقعہ جس پہ ہم ہنسیں اور کوئی ایسی اچھی یاد جو پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو؟
میں فرینڈلی سب کیساتھ ہوجاتا ہوں ۔ اس محفل پر وہ احباب جن سے مل چکا ہوں ۔ وہ گواہی دیں گے ۔ فیملی میں سسٹر ہے ۔ جس سے میں دوستوں کی طرح باتیں کرتا ہوں ۔ بچے بھی ( اب تو ماشاءاللہ بڑے ہوگئے ) ان سے بھی میں بہت مذاق کرتا ہوں ۔ اس لیئے سال میں دو ، تین دفعہ میرے پاس ضرور حاضری دیتے ہیں ۔ آپ نے جورج لوپیز شو دیکھ رکھا ہو تو میں کچھ ایسا ہی ہوں فیملی کیساتھ ۔7) گھر پر کون کون ہیں اور کتنا فرینڈلی ہوتے ہٰیں سب کے ساتھ؟
مشاغل بہت ہیں کلائمنگ ، واکنگ ، فشنگ ، باسکٹ بال ،کبھی شاعری کرلی تو کبھی مصوری بھی ۔ رہی بات پودے اُگانے کی تو وہ سب سے اہم مشغلہ ہے کہ جب ہمارے پاس گرمیاں شروع ہوجائیں ۔ بیک یارڈ کو پوری طرح تبدیل کردیتا ہوں ۔آپ کے مشاغل میں کیا کیا شامل رہا ہے؟ کیا کبھی پودے اگانے کا کام بھی کیا ہے؟
جی ہاں ۔۔۔ کالج کے دور میں بہت بلنڈر ہوئے تھے ۔ مگرجس واقعہ کو سوچ کر ہنسی آتی ہے ۔وہ کوئی اخلاقی طور پر تو اتنا قابلِ گرفت نہیں ۔ مگر پھر بھی اس کے ذکر کو موقوف کرتا ہوں ۔9) جب امریکہ نئے نئے گئے تھے تو کوئی بلنڈرز ہوئے؟ کوئی واقعہ جو اب سوچ کر ہنسی آتی ہو؟
سب سے پہلے تو میں وقت کے بارے میں کہوں گا کہ اس کاکوئی نعم البدل نہیں ۔ ایک بار گذر گیا تو گذر گیا ۔ پھر لوٹ کر نہیں آتا ۔ بے شک آپ پھر اسی دوراہے پر کھڑے ہوں ۔ جہاں آپ کبھی بے فکر ، آزاد اور مسرور تھے ۔ مگر وقت آپ کو پھر وہ مواقع اور احساس فراہم نہیں کرتا ۔ جو کہ بہت پہلے میسر تھے ۔ پھر صحت کے بارے میں کہوں گا کہ یہ بھی ایک انمول دولت ہے ۔ جب تک ہے ۔ اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ جب چلی جاتی ہے تو سب کچھ تھم جاتا ہے ۔ پھر ایمان کہ دل کا سکون اسی میں ہے ۔ ماں باپ کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ عزت بھی ایک عظیم سرمایہ ہے ۔ جب کھو جائے تو پھر آسانی سے نہیں ملتی ۔ پھر ایسے کچھ مواقع جن سے زندگی میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی تھی ۔ مگر جب آپ اسے کھو دیں تو پھر ان کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے ۔10) جن چیزوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، آپ کے خیال میں وہ کون کون سی چیزیں ہیں اور ان کو کیسے پراؤرٹائز کیا جائے؟
یاد باقی بات باقیقصہ پارینہ وغیرہ ہوئے۔ اب بس یاد باقی ہے!
بہت خوبصورت بات جو ہم نے آپ سے ہر ملاقات میں دل سے محسوس کی وہ آپکیپھر ایمان کہ دل کا سکون اسی میں ہے ۔ ماں باپ کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ عزت بھی ایک عظیم سرمایہ ہے ۔ جب کھو جائے تو پھر آسانی سے نہیں ملتی ۔ پھر ایسے کچھ مواقع جن سے زندگی میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی تھی ۔ مگر جب آپ اسے کھو دیں تو پھر ان کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے ۔
ان چیزوں کو پرائرٹائز (Prioritize) کیسے کریں ؟ ۔
اچھا سوال ہے ۔ بس ایک سادہ سا اصول رکھیں کہ جو چیز دوبارہ نہیں آسکتی اسے پہلے رکھیں ۔ جو چیز کمائی جاسکتی ہے ۔ اسے بعد میں رکھیں
آپا جی آپ بھائی کے بی ہاف پر انٹرویو دینے لگیں یا یہ لڑی غلط سیلیکٹ ہو گئی ہے؟The Idea of Pakistan
یہ کتاب رضا کی تھی جب پڑھی تو بہت اچھی لگی
پاکستان میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ ڈاکٹر کوہن کی یہ کتاب، ’دی آئیڈیا آف پاکستان پڑھے ۔
یہ کتاب گواہی دیتی ہے کہ ڈاکٹر کوہن کو کس حد تک میں پاکستانی تاریخ، پاکستانی سیاست اور پاکستانی فوج کی سمجھ تھی۔ لیکن اس کتاب سے یہ بھی عیاں تھا کہ ان معلومات کی روشنی میں وہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں زیادہ
پرامید بھی نہیں تھے۔
سنہ 1984 میں لکھی گئی ان کی کتاب ’دی پاکستان آرمی‘ کے بارے میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ، فوجی آمر جنرل ضیا الحق سے براہ راست بات چیت کی تھی۔ جنھوں نے ڈاکٹر کوہن کو پاکستان فوج تک بھرپور رسائی فراہم کی۔
یہ ہمیں صحیح سے یاد نہیں کے اس کتا ب پر کسی کاُتبصرہ ہمُنے پڑھا تھا جو کہتا ہے
that most countries have an army, but Pakistan's army has a country.