انٹرویو انٹرویو وِد ظفری

ہم نے کلائمیکسُ آنے نہیں دیا ؀
اللہ رب العزت ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تمہاری زندگیوں میں یہ تصور راسخ ہو جائے کہ تم مرض سے نفرت کرو مگر مریض سے نہیں، اس لئے کہ اگر تم مریض سے ہی نفرت کرنے لگو گے تو اس کا ٹھکانہ کیا ہو گا۔
کلائمیکس یعنی کہانی کی پیک جہاں سارے معاملات ریزولو ہو رہے ہوتے ہیں۔ یا کچھ اور بھی ہے اس کا مطلب؟
 

یاز

محفلین
واہ واہ۔ کیا کہنے
بقول ندا فاضلی
ہم سے محبت کرنے والے روتے ہی رہ جائیں گے
ہم جو سوئے کسی دن تو سوتے ہی رہ جائیں گے
 

ظفری

لائبریرین
1) قرآنی صبر اور پاکستانی صبر میں کیا فرق ہے؟
سوال بظاہر لائیٹ مُوڈ میں لگتا ہے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے ۔
قرآن مجید میں "صبر" ایک جامع، فعال، اور بامقصد عمل ہے۔ جو مشکلات ، مصیبتوں ، آزمائشوں میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے کا نام ہے ۔ جبکہ" پاکستانی صبر" بے بسی کا دوسرا نام ہے ۔ یعنی ظلم ، ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا اور اسے صبرکہہ کر ، سہہ لینے کا نام ہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق پاکستانی معاشرے میں کچھ نہ کرنے کے بہانے کے طور پر بھی صبر کا نام استعمال کیا جاتا ہے ۔ فرسودہ روایتوں کے تحت خواتین ، غریب اور مظلوموں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ صبر ہی تمہارا زیور ہے ۔ یعنی چپ چاپ ظلم و ستم سہتے رہو ۔ قرآنی صبر، مزاحمت، استقامت اور بصیرت کا تقاضا کرتا ہے۔
جبکہ "پاکستانی صبر" محض بے بسی اور بے حسی کا دوسرا نام ہے ۔
2) شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلہ کرنے سے کیسے بچا جائے؟
سب سے پہلے تو شدتِ جذبات میں کوئی فیصلہ نہ کریں، صرف معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیئے نفسیات کی Pause Technique کو اختیار کریں ۔ یعنی وقفہ لیں ۔ جب جذبات مانند پڑ نے لگتے ہیں تو عقل کام کرنا شروع کردیتی ہے ۔ نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ غصہ ، اشتعال ، شدتِ جذبات کا دورانیہ 14 سے 15 منٹ کا ہوتا ہے ۔ اس دوران یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا میں یہ فیصلہ میں جذبات میں کر رہا / رہی ہوں ۔ کیا کل میں اپنےاس فیصلہ کو صحیح سمجھوں گا / گی ۔ امید ہے اس عمل سے شدتِ جذبات میں کمی آئے گی اور صحیح فیصلے کی ترغیب ملے گی ۔
3) کبھی تھیراپی لینے کا اتفاق ہوا؟ جب آپ کے پیاروں کی مینٹل ہیلتھ خراب ہوتی ہے تو ان کے لیے کیا کرتے ہیں؟
اس کا اتفاق نہیں ہوا ۔ نہ ہی ابھی تک کوئی پیارا اس حال کو پہنچا ہے ۔
4) کیا واقعی علم کی کوئی حد ہے؟ اور اگر نہیں تو کیسے جانا جائے کہ کتنے علم کے بعد ہاتھ روک کر عمل پر توجہ مرکوز کرنی ہے؟
میں اس سوال کا جواب قرآن کی ان آیتوں سے شروع کرتا ہوں ۔
وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ" (یوسف: 76)"ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے۔"یعنی انسان چاہے جتنا جان لے، کوئی اور ہمیشہ اس سے زیادہ جاننے والا ہوگا ۔ اور بالآخر ، علمِ کامل صرف اللہ کے لیے ہے۔
"وما أوتيتم من العلم إلا قليلاً" (الإسراء: 85)
"تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔" علم لامحدود ہے، انسان کی صلاحیت محدود۔
سوال دراصل علم اور عمل کے توازن کے تناظر میں ہے ۔ اس لیئے اس کا جواب حد میں نہیں بلکہ مقصد میں پنہاں ہے ۔ جب تک علم کی مقصدیت واضع نہیں ہوگی ۔ ہم علم اور عمل میں تواز ن پیدا نہیں کرسکتے ۔ علم برائے علم نہیں بلکہ علم برائے عمل کا نام ہے ۔ یہ علم اور عمل کی گردش ہے ۔ جو ہم کو حدبندی کے درجات طے کر نے میں مدد دیتی ہے ۔ یعنی علم سے فکر پھر نیت سے عمل کی ترویج اور پھر نتائج کا برآمد ہونا اور مزید علم کی طرف سفر۔ یعنی ایک دائرہ ہے ۔ جس میں علم سفر کرتا ہے اور اپنی حد بندی متعین کرتا ہے ۔ یعنی جب کچھ علم عمل میں ڈھل جائے، تو اس کے نتیجے میں نئی سمجھ، نیا ظرف اور مزید علم عطا ہوتا ہے۔لہٰذا علم کے ہر مرحلے پر رک کر عملی reflection ضروری ہے۔ علم ایک چراغ ہے ۔ مگر اس کی روشنی تب ملتی ہے جب ہم اندھیرے سے اس کی طرف سفر کرتے ہیں ۔
5) کیا انسان کی فیلڈ آف سٹڈی کا اس مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے؟ اگر بروج پر یقین نہیں تو پھر کس شے پر ہے؟ کیسے مختلف انسانوں کے رجحان اور مزاج کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں؟
جی بلکل ، انسان کی فیلڈ آف اسٹڈی کا اس کے مزاج پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے ۔ انسان جس علم کی فیلڈ میں وقت گذارتا ہے ۔ وہی اس کی سوچ کا زاویہ بدلتا ہے ۔ بلکہ سوچ کو ایک نئے سانچے میں بھی ڈھال دیتا ہے ۔ لفظوں کو معونیت دینا آجاتا ہے ۔ حقیقت کو جانچے کا طریقہ کار سمجھ آجاتا ہے ۔ مثال کے طور پر جو انسان سائنس پڑتا ہے ۔ اس میں تجربے ، مشاہدے اور ثبوت پر زور دینے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ جو ادب میں مہارت رکھتا ہے، وہ جذبات، تشبیہات اور انسانی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے۔جو فلسفہ/نفسیات پڑھتا ہے، وہ چیزوں کے "پیچھے کی تہوں" کو کھولنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔اس میں چیزوں کی جزیات سمجھنے کی صلاحیت عود کر آتی ہے ۔ یعنی علم صرف معلومات مہیا نہیں کرتا ۔ بلکہ مزاج کی ساخت بھی تبدیل کردیتا ہے ۔ اگر یہ سوال مجھ سے براہ راست ہے کہ میں بروج پر یقین نہیں رکھتا تو یہ بالکل درست بات ہے ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں بروج یا ستاروں کی بنیاد پر شخصیت اور تقدیر کا تعین کرنا میں درست نہیں سمجھتا ۔اپنی فطرت پر یقین کریں۔ ہر انسان کے اندر کچھ پیدائشی رجحانات (temperament)ہوتے ہیں ۔ ان کو بروئےکار لائیں ۔ گھر ،استاتذہ اور ماحول سے تربیت کے مراحل طے کریں ۔ یہ سب شخصیت میں صلاحیت کا رنگ بھرتے ہیں ۔ اپنے فیصلے اور اعمال شفاف نیت کی بنیاد پروان چڑھائیں ۔ یقین اُن اصولوں پر کریں۔جو اللہ کے کلام میں دیے گئے۔جو انسان کے اختیار، نیت اور کوشش کو بنیاد بناتے ہیں۔نہ کہ ستاروں کو۔
سب انسان اندر سے ایک جیسےبننا چاہتے ہیں ۔ مگر ان کے اندر صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔دراصل انسان ایک پیکج لیکر پیدا ہوتا ہے ۔ کچھ تُند مزاج ، کچھ ٹہرے لہجے لیئے ۔ کچھ ہنس مکھ ، کچھ سوچ مین ڈُوبے ہوئے ۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جینیاتی فرق بھی ہوسکتا ہے ۔ کچھ ماحولیت سے بھی فرق پڑتا ہے ۔ پھر یہ اپنے اپنے تجربات پر بھی منحصر ہے کہ اس نے ان سے کیا سیکھا ، جو جھیلا ۔ وہ اس کے مزاج کاحصہ بن گیا ۔ کوئی دھوکہ کھاتا رہے تو شاید شک میں رہنا سیکھے ۔ جس کے ساتھ معاملات ٹھیک رہے ۔ وہ دوسروں پر جلد اعتماد کی ترغیب اپنائے ۔ مگر انسان اپنا مزاج نہیں بدل سکتا ۔لیکن اپنے ردِعمل ، رویئے اور فیصلوں میں تبدیلی پیدا کرسکتا ہے ۔ یہ بھی فطرت کا حُسن ہے کہ اس نے انسا ن میں تنوع رکھا ہے ۔ جس سے انفرادیت کا تاثر برقرار رہتا ہے ۔ ورنہ سب باٹا کی جوتوں کی طرح ایک جیسے بنےہوتے تو شاید دنیا میں یہ دلکشی اور انفرادیت نہیں ہوتی ۔
6) کچھ اپنے بچپن کے بارے میں بتائیں۔ کوئی ایسا واقعہ جس پہ ہم ہنسیں اور کوئی ایسی اچھی یاد جو پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو؟
بہت سے شگوفے ہیں ۔ جو پچپن میں چھیڑے ۔ اردو محفل میں کئی ایک درج کئے ہیں ۔ ان میں سے ایک کا لنک یہ رہا ۔ مراسلہ نمبر 182۔
کیا آپ نے کبھی کسی کو چھیڑا
پا کستان کے ساتھ بہت سی ایسی اچھی یادیں ہیں ۔ جو میرے امریکہ آنے سے پہلے وجود پزیر ہوئیں ۔ بعد میں کوئی نہیں رہی ۔ اس لیئے خواب سمجھ کر انہیں بھول جانے میں ہی عافیت ہے ۔
7) گھر پر کون کون ہیں اور کتنا فرینڈلی ہوتے ہٰیں سب کے ساتھ؟
میں فرینڈلی سب کیساتھ ہوجاتا ہوں ۔ اس محفل پر وہ احباب جن سے مل چکا ہوں ۔ وہ گواہی دیں گے ۔ فیملی میں سسٹر ہے ۔ جس سے میں دوستوں کی طرح باتیں کرتا ہوں ۔ بچے بھی ( اب تو ماشاءاللہ بڑے ہوگئے ) ان سے بھی میں بہت مذاق کرتا ہوں ۔ اس لیئے سال میں دو ، تین دفعہ میرے پاس ضرور حاضری دیتے ہیں ۔ آپ نے جورج لوپیز شو دیکھ رکھا ہو تو میں کچھ ایسا ہی ہوں فیملی کیساتھ ۔ :D
8) آپ کے مشاغل میں کیا کیا شامل رہا ہے؟ کیا کبھی پودے اگانے کا کام بھی کیا ہے؟
مشاغل بہت ہیں کلائمنگ ، واکنگ ، فشنگ ، باسکٹ بال ،کبھی شاعری کرلی تو کبھی مصوری بھی ۔ رہی بات پودے اُگانے کی تو وہ سب سے اہم مشغلہ ہے کہ جب ہمارے پاس گرمیاں شروع ہوجائیں ۔ بیک یارڈ کو پوری طرح تبدیل کردیتا ہوں ۔
9) جب امریکہ نئے نئے گئے تھے تو کوئی بلنڈرز ہوئے؟ کوئی واقعہ جو اب سوچ کر ہنسی آتی ہو؟
جی ہاں ۔۔۔ کالج کے دور میں بہت بلنڈر ہوئے تھے ۔ مگرجس واقعہ کو سوچ کر ہنسی آتی ہے ۔وہ کوئی اخلاقی طور پر تو اتنا قابلِ گرفت نہیں ۔ مگر پھر بھی اس کے ذکر کو موقوف کرتا ہوں ۔:battingeyelashes:
10) جن چیزوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، آپ کے خیال میں وہ کون کون سی چیزیں ہیں اور ان کو کیسے پراؤرٹائز کیا جائے؟
سب سے پہلے تو میں وقت کے بارے میں کہوں گا کہ اس کاکوئی نعم البدل نہیں ۔ ایک بار گذر گیا تو گذر گیا ۔ پھر لوٹ کر نہیں آتا ۔ بے شک آپ پھر اسی دوراہے پر کھڑے ہوں ۔ جہاں آپ کبھی بے فکر ، آزاد اور مسرور تھے ۔ مگر وقت آپ کو پھر وہ مواقع اور احساس فراہم نہیں کرتا ۔ جو کہ بہت پہلے میسر تھے ۔ پھر صحت کے بارے میں کہوں گا کہ یہ بھی ایک انمول دولت ہے ۔ جب تک ہے ۔ اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ جب چلی جاتی ہے تو سب کچھ تھم جاتا ہے ۔ پھر ایمان کہ دل کا سکون اسی میں ہے ۔ ماں باپ کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ عزت بھی ایک عظیم سرمایہ ہے ۔ جب کھو جائے تو پھر آسانی سے نہیں ملتی ۔ پھر ایسے کچھ مواقع جن سے زندگی میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی تھی ۔ مگر جب آپ اسے کھو دیں تو پھر ان کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے ۔
ان چیزوں کو پرائرٹائز (Prioritize) کیسے کریں ؟ ۔
اچھا سوال ہے ۔ بس ایک سادہ سا اصول رکھیں کہ جو چیز دوبارہ نہیں آسکتی اسے پہلے رکھیں ۔ جو چیز کمائی جاسکتی ہے ۔ اسے بعد میں رکھیں ۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پھر ایمان کہ دل کا سکون اسی میں ہے ۔ ماں باپ کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ عزت بھی ایک عظیم سرمایہ ہے ۔ جب کھو جائے تو پھر آسانی سے نہیں ملتی ۔ پھر ایسے کچھ مواقع جن سے زندگی میں بڑی تبدیلی لائی جاسکتی تھی ۔ مگر جب آپ اسے کھو دیں تو پھر ان کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے ۔
ان چیزوں کو پرائرٹائز (Prioritize) کیسے کریں ؟ ۔
اچھا سوال ہے ۔ بس ایک سادہ سا اصول رکھیں کہ جو چیز دوبارہ نہیں آسکتی اسے پہلے رکھیں ۔ جو چیز کمائی جاسکتی ہے ۔ اسے بعد میں رکھیں
بہت خوبصورت بات جو ہم نے آپ سے ہر ملاقات میں دل سے محسوس کی وہ آپکی
شکر گزاری ،عاجزی و انکساری کی عادت
یہی ایک کامیاب انسان کی پہچان ہے ۔۔ماشاء اللہ ۔اللہ
پاک کے حضور دعا ہے کہ وہ آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیشہ آپکا حامی و نا صر ہو ۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
The Idea of Pakistan
یہ کتاب رضا کی تھی جب پڑھی تو بہت اچھی لگی
پاکستان میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ ڈاکٹر کوہن کی یہ کتاب، ’دی آئیڈیا آف پاکستان پڑھے ۔
یہ کتاب گواہی دیتی ہے کہ ڈاکٹر کوہن کو کس حد تک میں پاکستانی تاریخ، پاکستانی سیاست اور پاکستانی فوج کی سمجھ تھی۔ لیکن اس کتاب سے یہ بھی عیاں تھا کہ ان معلومات کی روشنی میں وہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں زیادہ
پرامید بھی نہیں تھے۔
سنہ 1984 میں لکھی گئی ان کی کتاب ’دی پاکستان آرمی‘ کے بارے میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ، فوجی آمر جنرل ضیا الحق سے براہ راست بات چیت کی تھی۔ جنھوں نے ڈاکٹر کوہن کو پاکستان فوج تک بھرپور رسائی فراہم کی۔
یہ ہمیں صحیح سے یاد نہیں کے اس کتا ب پر کسی کاُتبصرہ ہمُنے پڑھا تھا جو کہتا ہے ؀
that most countries have an army, but Pakistan's army has a country.
 
The Idea of Pakistan
یہ کتاب رضا کی تھی جب پڑھی تو بہت اچھی لگی
پاکستان میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ ڈاکٹر کوہن کی یہ کتاب، ’دی آئیڈیا آف پاکستان پڑھے ۔
یہ کتاب گواہی دیتی ہے کہ ڈاکٹر کوہن کو کس حد تک میں پاکستانی تاریخ، پاکستانی سیاست اور پاکستانی فوج کی سمجھ تھی۔ لیکن اس کتاب سے یہ بھی عیاں تھا کہ ان معلومات کی روشنی میں وہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں زیادہ
پرامید بھی نہیں تھے۔
سنہ 1984 میں لکھی گئی ان کی کتاب ’دی پاکستان آرمی‘ کے بارے میں خاص بات یہ تھی کہ اس کے لیے انھوں نے پاکستان کے اُس وقت کے سربراہ، فوجی آمر جنرل ضیا الحق سے براہ راست بات چیت کی تھی۔ جنھوں نے ڈاکٹر کوہن کو پاکستان فوج تک بھرپور رسائی فراہم کی۔
یہ ہمیں صحیح سے یاد نہیں کے اس کتا ب پر کسی کاُتبصرہ ہمُنے پڑھا تھا جو کہتا ہے ؀
that most countries have an army, but Pakistan's army has a country.
آپا جی آپ بھائی کے بی ہاف پر انٹرویو دینے لگیں یا یہ لڑی غلط سیلیکٹ ہو گئی ہے؟
 
Top