انٹارکٹک کی پوشیدہ دنیا

راج

محفلین
banner.gif

1141758_1.jpg

انٹارکٹک سی فلور کے ایک نئے دریافت شدہ حصہ بہت سے آبی سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ سائنسدان پولرسٹرن نامی جہاز پر اس علاقے کے سفر پر بھی گئے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سفر کے دوران انہیں اہم معلومات اور جانداروں کی ایسی اقسام ملی ہیں جن کے بارے مںی پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

114184_2.jpg

نئی دریافت شدہ اقسام میں سے ایک ’جائنٹ ایمفیپوڈ‘ ہے۔ یہ کرسٹیشیئن کی ایک قسم ہے اور اسے محققین نے جال لگا کر پکڑا۔ چار انچ لمبا یہ ایمفیپوڈ اس خطے میں پائے جانے والے برے ایمفیپوڈز میں سے ایک ہے۔
(تصویر: سی ڈیوڈی کم)

1141810_3.jpg

علاقے میں موجود اس ٹرکوئٹ آکٹوپس کے بارے میں سائنسدان پہلے سے جانتے ہیں۔ اس آبی جانور کی موجودگی ایلیفنٹ سیل، الباٹروس اور شیگز جیسے جانداروں کی بقا کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ آکٹوپس ان کی خوراک کا اہم جزو ہے۔
(تصویر: ای جورگنسن، نووا)

1141816_4.jpg

محقق جولین گٹ کے مطابق اس علاقے کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا ’ورجن‘ جغرافیہ ہے۔ لارسن اے اور بی آئس شیلف بالترتیب بارہ اور پانچ برس قبل ٹوٹ کر گرے۔ اس کے نتیجے میں ایسا علاقہ سامنے آیا جہاں اس سے قبل رسائی ناممکن تھی۔ اب یہاں آبی جاندار اپنی آبادیاں تشکیل دے رہے ہیں۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

1141823_5.jpg

کولونائزنگ جانداروں کی ایک مثال ’سی سکوئرٹس‘ ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہ جاندار2002 میں آئس شیلف ٹوٹنے کے بعد اس علاقے میں منتقل ہوئے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں مزید ایسی ہجرتیں عمل میں آ سکتی ہیں۔
(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

1141832_6.jpg

انٹارکٹک میں شدید سرد درجہ حرارت میں آبی حیات کی مطابقت کی ایک حیران کن مثال’آئس فش‘ ہے۔ اس مچھلی کے خون میں نہ تو سرخ خلیے ہیں اور نہ ہی ہیموگلوبین۔ جس کی وجہ سے خون کی روانی میں زیادہ آسانی ہوتی ہے۔ اس مچھلی کے پٹھوں کو درکار آکسیجن کو صرف خون میں گھلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

1141927_7.jpg

ایک گلیشیئر کے نزدیک سے ملنے والے اس ’سی سٹار‘ کے بارہ بازو ہیں جبکہ عام ’سی سٹار‘ کے پانچ بازو ہوتے ہیں۔

(تصویر: جی گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

1141940_8.jpg

یہ خیال صحیح نہیں کہ مونگے صرف استوائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ وہ تو آرکٹک کے لارسن بی ایریا میں بھی موجود ہیں۔ مہم میں شریک ڈاکٹرگٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس آبی ایکو سسٹم سے جہاں چاہتے نمونہ حاصل کر لیتے کیونکہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے انسان نے سب سے کم چھیڑا ہے۔
(تصویر:ً جے گٹ، الفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ)

1142013_9.jpg

تیرتی امید
جرمنی کے الفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ کے پولرسٹرن کا دس ہفتے کا سفر آبی حیات کی گنتی کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ جہاز اور بہت سے سائنسدان ’انٹرنیشنل پولر ایئر‘ کے منصوبوں میں بھی شریک ہوں گے۔
(تصویر: جی چیپل، الفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ)
 

حسن نظامی

لائبریرین
بہت خوب راج ويسے ايک بات ہے انٹارکٹکا بہت پراسرار سرزمين ہے ہميں اس کے بارے کچھ مزيد بتائيں يہاں بسنے والے لوگ اور معاشرتي حالات وغيرہ ويسے کيا يہاں کوئي لوگ رہتے بھي ہيں :confused:
 
Top