انور قمر کے افسانہ کابلی والا کا ایک تجزیہ از بلراج کومل

mmubin

محفلین
تجزیہ
کابلی والا کی واپسی

n بلراج کومل
انور قمر کا افسانہ ’کابلی والا کی واپسی ‘اور ٹیگور کا افسانہ ’کابلی والا ‘ایک ناگزیر اور نا قابلِ تردید رشتے میں منسلک ہیں۔دونوں افسانوں میں کابلی والا بطور کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔اس کی شخصی خصوصیات انور قمر کے افسانے میں کم و بیش وہی ہیں جو ٹیگور کے افسانے سے ابھرتی ہیں۔دونوں افسانوں میں کچھ اور مشترکہ عناصر بھی ہیں۔ٹیگور کے افسانے کا راوی افسانے کے آغاز سے انجام تک موجود ہے۔انور قمر کے افسانے کا راوی بظاہر غیر موجود بھی نہیں ہے اور ٹیگور کے افسانے کے اندازمیں انور قمر کے افسانے میں شروع سے آخر تک موجود بھی نہیں ہے۔انور قمر کے افسانے میں راوی صرف ان حصّوں میں اپنے وجود کا احساس کراتا ہے جو ٹیگور کے راوی کی مستقل جائے قیام سے متعلّق ہیں۔دونوں افسانوں میں راوی ایک ہمدرد ‘انسان دوست کی حیثیت سے اُبھرتا ہے۔رحمت کابلی والا کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہے۔جو اپنے ملک‘ اپنے خاندان‘ اپنے بیوی بچّوں‘ اپنے بھائیوں بہنوں‘ دوستوں سے جذباتی طور پر ٹھیک اسی طرح وابستہ ہے جس طرح عام انسان وابستہ ہوتے ہیں۔ٹیگور کے افسانے میں کابلی والا اپنی دھرتی‘اپنے ملک اور اپنے خاندان سے جدا ہو کر ہزاروں میلوں کے فاصلے پرہر برس ایک اجنبی شہر میں آکر ذریعۂ معاش تلاش کرنے اور عارضی طور پر رہائش اختیار کرنے کے لئے اقتصادی کارنوں کے دباؤ سے مجبور ہوتا ہے جبکہ انور قمر کا کابلی والا جذباتی تقاضوں کے باعث کابل لوٹ جانے کے لئے عازِمِ سفر ہوتا ہے اور سیاسی جبر و استبداد کی سنگین بے روح میکانکیت سے راہِ فرار ہی کو اپنی نجات تصوّر کرتا ہے۔ٹیگور کے افسانے’کابلی والا ‘کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح ہے:رحمت ۔کابلی والا اپنے ملک‘ اپنے وطن کو چھوڑکر کابل سے ہزاروں میل دوٗر کلکتّہ میں بہ سلسلۂ معاش ہر برس آتا ہے۔وہاں وہ ایک ننھی منّی بچّی’منّی‘میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔اور رفتہ رفتہ یہ دلچسپی کابلی والا اور منّی کے درمیان دوستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کابلی والا کو ’منی ‘ کی صورت میں اپنی بیٹی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔پھر ایک نا خوشگوار واقعہ ہوتا ہے۔کابلی والا کو اپنے ایک بے ایمان گاہک پر قاتلانہ حملہ کرنے کے جرم میں طویل مدّت کی سزائے قید ہو جاتی ہے۔اپنی سزا کی میعاد پوری کرنے کے بعد جس روز کابلی والا جیل سے رہا ہو کر لوٹتاہے وہ دن اتفاقاًمنی کی تقریبِ شادی کا دن ہے۔’منی ‘کے والد ٹیگورکے افسانے کابلی والا کا راوی۔گھر کے لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ‘کابلی والا کو منی سے تھوڑی دیر کے لئے ملواتے ہیں۔منی دلہن کے لباس میں شرماتی لجاتی کمرے میں آتی ہے۔دلہن کے لباس میں منی کو دیکھ کر کابلی والا کو یہ یکا یک یہ کربناک احساس ہوتا ہے کہ اس کی اپنی بیٹی بھی اتنے دنوں میں منی کی طرح سیانی ہو چکی ہو گی۔منی کے والد اس کو کچھ رقم بطورِنذرانہ دیتے ہیں تا کہ کابلی والا اپنے وطن لوٹ سکے ا وراپنی بیٹی سے مل سکے۔ایسا کرتے ہوئے منی کے والد کو ایک ایسی روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے جو شاید دنیا کے سارے سازوسامان اکٹھا کر کے بھی نہ ہوتی۔انور قمر کے افسانے’کابلی والا کی واپسی ‘کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح ہے:کابلی والا ‘منی کے والد سے اجازت لیتا ہے اور کابل کے لئے عازِم سفر ہوتا ہے ۔کابلی والا کے قول کے مطابق وہ ۲۱برس کے بعد گھر لوٹ رہا ہے۔جانے سے پہلے کابلی والا اپنے ملک ‘ اپنی دھرتی کی یاد تازہ کرنے کے لئے تصویروں کی وہ کتاب دیکھتا ہے جو اسے بہت پسند ہے۔اور جسے وہ اس سے قبل کئی بار دیکھ چکا ہے۔خاص طور پر ان موقعوں پر جب منی کے والد کابلی والا کو جیل میں ملنے جایا کرتے تھے۔اور تصویروں کی مذکورہ کتاب کابلی والا کودکھانے کے لئے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔کابلی والا بہر حال کابل پہنچ گیا۔کابل کا پورا ماحول بدل چکا ہے۔ایک غیر ملکی فوجی اس کو بس سے اُتار کر پولیس اسٹیشن میں لے جاتا ہے۔وہاں ایک مخصوص کمرے میں کابلی والا کی با قاعدہ INTERROGATIONشروع ہوتی ہے۔پہلے دور کے بعد اس کو گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔دوسرے اور تیسرے روز ٖاسے پھر پولیس اسٹیشن لایا جاتا ہے۔اور INTERROGATIONکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔اس کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
INTERROGATIONکے دوران میں غیر ملکی فوجی افسر کا مقصد یہ ہے کہ کابلی والا کو جاسوس ثابت کیا جائے جو ہندوستان سے اس غرض سے کابل بھیجا گیا ہے اوردہلی میں مقیم کسی پٹھان دوست لیاقت علی خاں سے منسلک ہے۔رحمت کابلی والا بلآخر لوٹ جاتا ہے اورکابل سے فرار ہو کر ٹھیک اسی شہر‘اسی گھر اور اس کے مکینوں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔جن سے جدا ہو کر وہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے جانبِ کابل عازمِ سفر ہوا تھا۔کابل سے دور اس اجنبی شہر میں کابلی والا اپنے میزبان کی جانی پہچانی اپنی مصوّر کتاب شب و روز اپنے ساتھ رکھتا ہے اور یادوں میں کھویا رہتا ہے۔ٹیگور کے افسانے ’کابلی والا‘ کی منفرد شناخت ہے۔ٹیگور کا افسانہ اپنے آپ میں مکمل ہے اور بغیر کسی دوسرے افسانے یا تحریر کے حوالے کے پڑھا جا سکتا ہے۔اس کے بر عکس انور قمر کا افسانہ ’کابلی والا کی واپسی‘ ناگزیر طور پر ٹیگور کے افسانے ’کابلی والا‘ کے ساتھ منسلک ہے۔دونوں افسانے جسمانی عناصر کی جزوی مماثلتوں کے باوجود موضوع اور دائرۂ عمل کے نقطۂ نظر سے الگ الگ ہیں۔ٹیگور کے افسانے کا راوی انسان دوست‘ آزاد خیال‘ہمدرد اور شریف النفس ہے۔پیشے کے اعتبار سے مصنف ہے۔اور انسانی جذبات اور انسانی رشتوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔منی کردار سے زیادہ استعاراتی سطح کی حامل ہے۔راوی کی رفیقِ حیات‘بنگالی اونچے گھرانے کی ایک عام عورت ہے۔محض ٹائپ ہے۔ٹیگور کے افسانے کا بغور مطالعہ کرنے سے جو جذبہ قاری کو متاثر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جغرافیائی‘ اور نسلی و ملکی حدود کے باوجودانسان ایک ہی نوعیت کی قربتوں‘ہمدردیوں اور محبتوں کے اسیر ہیں۔کابلی والا محض ٹائپ نہیں ہے۔رحمت پٹھان ہوتے ہوئے بھی بنیادی طور پر انسان کی حیثیت سے ٹیگور کی کہانی کے راوی کے مماثل ہے۔کابلی والا کی منفرد افغانی شناخت یا تو میوہ فروشی سے ظاہر ہوتی ہے یا اس مخصوص مزاج سے جس کی علامات کابلی والا کی جانب سے ایک بے ایمان گاہک پر قاتلانہ حملے کی صورت میں ظہور پزیر ہوتی ہیں۔بلا شبہ ٹیگور کے ہاں بنیادی جذبہ مثبت انسانی جذبوں کی مماثلت کا جذبہ ہے۔انور قمر کا افسانہ اس مقام سے شروع ہوتا ہے جہاں ٹیگور کا افسانہ ختم ہوتا ہے۔مثبت انسانی دوستی اور ہمدردی کے جذبے سے شروع ہو کر انور قمر کا افسانہ فوجی اور سیاسی جبر واستبداد کے انسان کش زیرو بم سے گزرتا ہوااس حقیقت کے اشارے پر ختم ہوتا ہے کہ فوجی اور سیاسی تشدّد آمیز قوتیں رفتہ رفتہ ایسا ماحول پیدا کر رہی ہیں جس میں انسان کی غیر محفوظیت شدید تر ہو گئی ہے۔انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے ارفع جذبات اگر چہ انسانی دلوں میں اب بھی موجود ہیں لیکن رشتوں ‘ قربتوں‘ مثبت جذبوں کا وجود اور تواترتیزی سے مشینی‘فوجی اور سیاسی قوتوں کے انہدام پزیر عمل کے زیرِ اثرآتا جا رہا ہے۔انسان ہجرتوں کا اسیر ہے۔اپنے ہی ملک‘ اپنے ہی گھر آنگن میں غیر محفوظ !وہ آج کے دور میں یا تو انفرادی ہمدردیوں کا سہارا لے سکتا ہے یا پھر یادوں کے سہارے نا گزیر اجنبی قبولیت کا ذائقہ بہتر بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ارجمند بانو بھی منی کی طرح استعاراتی نوعیت کی آئینہ دار ہے۔اس لئے اجنبی شہر میں کابلی والا کے لئے ایک بار پھر منی مینارۂ نور بن جاتی ہے‘ارجمند بانو بن جاتی ہے۔اور ٹیگور کے افسانے کا راوی۔ایک ہمدرد میزبان۔کابلی والا کے چند آخری سہاروں میں سے ایک سہارا۔!!انور قمر کا افسانہ’کابلی والاکی واپسی ‘ٹیگور کے افسانے’کابلی والا‘ہی کی طرح بیانیہ طریقِ اظہار کا افسانہ ہے۔علامتی‘ استعاراتی اساطیری پرکاری‘داستان سازی‘خواب سازی‘ خواب طرازی‘ تکنیکی شعبدہ بازی۔۔ان سب سے آزاد ہے۔اور خرابیِِِ موسم کے امکان کے با وجود انسان دوستی اور جذبۂ قبولیت کی تصدیق کا افسانہ ہے۔انور قمر کے افسانے کی کچھ تفصیلات کی تہ تک اترنے میں مجھے کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ان کا ذکر کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔کابلی والا ٹیگور کے افسانے میں غالباًآٹھ برس تک جیل میں رہا۔ آٹھ برس کا ذکر ٹیگور کے افسانے کے آ خری صفحے پر آیا ہے۔انور قمر کے افسانے میں وہ اکیس برس بعد کابل لوٹ رہا ہے۔ٹیگور کے افسانے میں کابلی والا کے جرمِ قتل کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
’’ہمارے پڑوس کے ایک شخص نے رحمت کابلی سے ایک رامپوری چادر اُدھار لی تھی جس کا کچھ روپیہ باقی رہ گیا تھا۔مگر اب وہ شخص چادر لینے ہی سے مُکر گیا۔اس تکرار میں بات بڑھ گئی اور رحمت نے اسے چھُرا مار دیا۔‘‘انور قمر کے افسانے میں تفصیل یوں درج ہے:
’میوے کی فروخت۔۔پھر خریدار کامیوے کی خریداری سے مُکر جانا۔۔۔۔طیش میں آکرخان کا اسے چھُرا مار دینا۔
’’اور پھر مجھے بیس سال کی سزا ہو گئی۔‘‘ یہ کہتے کہتے خان کی آوازبلندہو گئی۔‘اگر ہم انور قمر کا افسانہ ٹیگور کے افسا نے سے الگ کر کے پڑھیں تو ان تفصیلات کا اور دیگرکچھ تفصیلات کا تضاد غیر اہم ہے۔انور قمر کا افسانہ اپنی انفرادی ساخت میں بھی بہر حال شروع سے آخر تک قابلِ مطالعہ ‘ با معنی اور اس امکانی اشارے سے منوّر ہے کہ زندگی(انور قمر کے الفاظ میں)باوجود اپنی پیچیدگیوں اور الجھاووں کی سختیوں اور ناکامیوں کے کس قدر پُر فریب اور پُرکار ہے ‘با مراد اور با معنی ہے!یہ با مُراد با معنی افسانہ لکھنے کے لئے میں انور قمر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
n n
 
Top