انور قمر کے افسانہ چوپال میں سنا ہوا قصہ ایک تجز یہ از ایم مبین

mmubin

محفلین
تجزیہ
n چوپال میں سنا ہوا قصہ ۔ ایک تجزیہ

n ایم. مبین
انور قمر کا تعلق ستر کے بعد کی اس نسل سے ہے جو جدیدیت کے رجحان کے تحت افسانے لکھ رہی تھی۔ ان کی یہ کوشش شعوری تھی یا لاشعوری اس بارے میں پورے وثوق سے تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا لیکن ا س دور میں جب تجریدی، علامتی، تمثیلی، انداز کے افسانے لکھے جا رہے تھے اورہر افسانہ نگار اپنی شناخت بنانے کے لیے اپنے افسانے میں ایسے علامتوں، تمثیلوں کا استعمال کر رہا تھا جو اس کو دیگر افسانہ نگاروں سے ممتاز بنانے میں مددگار ثابت ہو انور قمر کے قلم سے بھی کچھ ایسے افسانے نکلے جنہوں نے نہ صرف ان کی شناخت بنائی بلکہ انھیں ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممتاز اور جداگانہ مقام بھی عطا کیا۔اس دور میں ادب اور قارئین کا رشتہ بڑے نازک دور سے گذر رہا تھا۔ جدیدیت کے تحت جو ادب لکھا جا رہا تھا اس کو قارئین کا ایک حلقہ پسند بھی کر رہا تھا تو ایک بڑا حلقہ اس سے بیزار ہو کر ادب سے اپنا تعلق توڑ بیٹھا تھا اور عام قاری جدیدیت کے رجحان کے تحت لکھے ادب کو پڑھنے سے کتراتا تھا۔ اس وقت بھی انور قمر نے کچھ ایسے افسانے لکھے جن میں عام قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا مواد تھا۔ان کا افسانہ ’چوپال میں سنا قصہ‘ بھی اسی زمرے کا افسانہ ہے۔انور قمر کے زیادہ تر افسانوں میں علامتیں ہوتی ہیں لیکن علامتیں اتنی صاف و واضح ہوتی ہیں کہ وہ ابہام کا شکار نہیں ہوتی ہیں۔ انور قمر خاص طور پر اپنے افسانوں میں جو واقعات پیش کرتے ہیں وہ واقعات قارئین کی دلچسپی افسانے میں بنائے رکھتے ہیں۔ان کے یہاں بیانیہ ہے لیکن بیانیہ افسانے پر حاوی نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بیانیہ علامتوں، تمثیلوں کی دھند میں لپٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قاری جب انور قمر کا افسانہ پڑھنا شروع کرتا ہے تو اسے ایک پراسرار ماحول سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ افسانہ پڑھتے ہوئے اسرار کی ایک طلسمی نگری میں سفر کر رہا ہے۔ جہاں قدم قدم پر حیرت انگیز واقعات اس کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں اور قارئین کے ذہن میں ایک تجسس شروع سے آخر تک چھایا رہتا ہے جو اسے افسانے کی پہلی سطر سے آخری سطر تک پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ’چوپال میں سنا ہواقصہ‘ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قارئین کوئی پرانی داستان یا قصہ پڑھ یا سن رہے ہوں۔ اس افسانے میں انور قمر نے نہ صرف داستان گو کے کردار کو پیش کیا ہے بلکہ داستان گوئی کے لیے ضروری لوازمات اور ماحول کی بھی بہت اچھی عکاسی کی ہے۔افسانے میں دوواقعات ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک طرح سے دونوں واقعات متوازی طورپر افسانے میں بیان کیے گئے ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ دونوں واقعات سچ مچ افسانے میں متوازی لکیروں کی حیثیت رکھتے ہیں جو چلتے تو ساتھ ساتھ ہیں لیکن نہ تو کبھی ایک دوسرے سے مل پاتے ہیں اور نہ ایک دوسرے سے مل پائیں گے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ دو واقعات میں ایک اس چوپال گاؤں اور داستان گو کا قصہ جہاں داستان گو وہ قصہ سنا رہا ہے۔ دوسرا وہ قصہ جو داستان گو چوپال میں گاؤں والوں کو سنا رہا ہے ۔ بظاہر دونوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔ صرف اتنا ربط ہے کہ چوپال میں گاؤں والے اس قصہ کو سن رہے ہیں۔ اس قصہ کا اس گاؤں، گاؤں کے لوگوں، داستان گو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔چوپال میں داستان گواور گاؤں والے ہیں جہاں داستان گو وہ قصہ سنا رہا ہے ۔ ان کے درمیان ایک مسافر بھی ہے جو رات گزارنے کے لیے اس گاؤں میں رُکا ہے اور اس قصہ کو سن رہا ہے۔ وہ کیوں کہ یہ گاؤں داستان گو اور داستان گو کے سنائے قصہ کے لیے نیا ہے اس لیے اس قصہ کو سنتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ لیکن نہ تو داستان گو اسے اس کے ان سوالوں کا کوئی جواب دے رہا ہے نہ گاؤں والے۔اسی دوران گاؤں سے چالیس گھڑ سوار کا گزرنا اور کھل جا سم سم کا آواز کے ساتھ غار کا کھلنا اور پھر ان گھڑ سواروں کا گاؤں سے گزر جانا۔ ان گھڑ سواروں کی آمد پر گاؤں والوں کا دہشت زدہ ہو جانے کا بھی افسانے میں ذکر ہے۔اس طرح انور قمر نے علی بابا چالیس چور کی کہانی کی ایک علامت کا استعمال اس افسانے میں کیا ہے۔ لیکن اس علامت کا نہ تو اس افسانے سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی افسانے میں بیان ہونے والے قصہ سے اس وجہ سے علامت ایک ضمنی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ قارئین چاہ کر بھی لاکھ کوشش کے باوجود اس علامت کا افسانے یا افسانے کے پلاٹ سے ربط کو جان نہیں پاتے ہیں۔افسانے میں ایک بوڑھے کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جو زندگی سے بیزار ہے اس کے دل میں زندگی کے لیے کوئی کشش نہیں ہے۔ اس لیے وہ حاکم وقت کے ذریعہ ایک ایسی مہم پر بھیجا جا رہا ہے جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا ہے اور زندگی سے بیزار وہ بوڑھا خوشی خوشی اس مہم پر جانے کے لیے تیار ہے۔حاکم وقت اسے ایک صندوق دیتا ہے جس میں ایک کتاب مقفل ہے۔ اس کتاب میں ایک پانسہ ہے اور بوڑھے کو اس پراسرار بستی کی جانب اسی لیے روانہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کتاب میں رکھے پانسہ سے اس بستی میں جفر یا چوسر کھیلنے والے لوگوں سے پانسہ بدل دے۔بوڑھا جب اپنے کاندھے پر بیٹھی فاختہ اور اس گدھے کے ساتھ جس پر وہ مقفل صندوق رکھا ہے جس میں وہ کتاب ہے وہ پانسہ رکھا ہے جسے اسے بستی کے لوگوں سے بدلنا ہے کے ساتھ جب بستی میں پہنچتا ہے تو وہاں پانسہ سے کھیل کھیلنے والے لوگ اسے پہچان لیتے ہیں کہ وہ ان کا پانسہ چرانے آیا ہے کیوں کہ انھیں اس کا علم ہے۔ لیکن بوڑھا کمال ہوشیاری سے انھیں یقین دلا دیتا ہے کہ وہ ان کا پانسہ چرانے یا تبدیل کرنے نہیں آیا ہے اور وہ اس کی بات کا یقین بھی کر لیتے ہیں۔اس بستی میں صلیبوں پر مسلوب لوگ ہیں جن کے جسم سے پرندے گوشت نوچ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پانسہ چرانے کی کوشش کی تھی اور انھیں ان کے اس فعل کی سزا دی جا رہی ہے۔اس دوران صلیب کو تھامے شکاری کتوں سے خود کو بچاتا ایک نوجوان وہاں آتا ہے۔ اسے دیکھ کر پانسہ کھیلنے والے لوگ کہتے ہیں کہ یہ شخص بھی ہمارا پانسہ چرانے آیا تھا اور اسے بھی پانسہ چرانے کی سزا دی جائے گی۔ اسے بھی مصلوب کر دیا جاتا ہے۔اس وقت وہ نوجوان بوڑھے کو بتاتا ہے کہ وہ قریب کی بستی کے حکمران کے ذریعے وہاں پانسہ چرانے کے کام کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کی سزا میں اسے مصلوب کر دیا جاتا ہے۔اس کی سزا دیکھ کر بوڑھے کی فاختہ غم سے دم توڑ دیتی ہے اور بوڑھا فاختہ کی موت پر ماتم کرنے لگتا ہے۔ اسے فاختہ کے مرنے کا بھی دکھ ہے۔ اپنی اس کتاب سے ان حمدوں کی عبارتوں کے اُڑجانے کا بھی دکھ ہے جنہیں وہ گا گا کر ساری دنیا کی سیر کرتا ہے اور اسے اپنے اس گدھے کی بے حسی کا بھی دکھ ہے جس اس کی صندوق اپنی پشت پر لادے ہوئے ہے۔انور قمر نے بیانیہ کا سہارا لے کر اس افسانے میں اس پورے قصہ کو بیان تو کر دیا ہے لیکن پورے قصہ میں اور افسانے میں ایک ایسی پراسرار فضا کو قائم رکھا ہے جو قارئین کے ذہن پر چھائی رہتی ہے۔بظاہر سیدھے سادے بیانیہ کو اپنے دامن میں لیے اس افسانے میں کئی علامتیں ہیں۔ جن کے مطالب کی تلاش میں قارئین کوذہنی کسرت کرنی پڑتی ہے اور وہ ان علامتوں اور ان سے وابستہ واقعات کا مفہوم کی پہیلیاں بجھاتا رہ جاتا ہے۔اس افسانے میں کئی علامتیں ہیں:زندگی سے بیزار بوڑھاحاکم وقتبے آدم بستیپانسہصندوق میں مقفل کتاببوڑھے کے کاندھے پر بیٹھی فاختہچوسر یا جامز کا کھیلایک کان والا بچہصلیبوں پر مصلوب سزا پانے والے لوگمصلوبوں کے جسموں سے گوشت نوچنے والے پرندےپانسہ چرانے والوں کو سزادینے والے لوگ اور کتے وغیرہ وغیرہ۔حاکم وقت کا حکم دراصل ہمارا سیاسی نظام ہے اور پانسہ کو چرانے کا حکم دراصل اس سیاسی نظام کے جبر اور استحصال کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ بوڑھے اور نوجوان کی اس پانسہ کی کوشش اس نظام کا شکار یا اس کے جبر میں گرفتار عام آدمی کو ظاہر کرتا ہے جس کی عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ پانسہ ایک ایسی قوت کا مظہر ہے جس سے مثبت تو نہیں لیکن منفی ہی کام لیے جاتے ہیں۔نوجوان کو مصلوب ہوتا دیکھ کر اس کے دکھ اور درد پر فاختہ کا تڑپ تڑپ کر مرجانا انسان کی حساسیت کا مظہر ہے۔ ظلم کے خلاف احتجاج جیسے انسانی فطرت کا مظہر ہے۔ انور قمر نے اس افسانہ کا خاتمہ فاختہ کی موت اور فاختہ کی موت پر بوڑھے کے ماتم کے ساتھ ختم کر دیا ہے۔ بظاہر اس طرح نہ تو داستان گو کا قصہ ختم ہوتا ہے اور نہ گاؤں والوں اور اس گاؤں سے گزرنے والے چالیس گھڑ سواروں کا اسرار قارئین کے ذہن میں کھل پاتا ہے ۔انور قمر نے یہ افسانہ آج سے ۲۵ سال قبل لکھا تھا لیکن اس افسانے میں انور قمر نے جس نظام کی عکاسی کی ہے وہ جبر اور استحصال کا ماحول آج بھی اسی طرح دنیا میں موجود ہے وہ ذرا بھی نہیں بدلا ہے۔
n n
 
Top