انصاف کے دیوتا کو مشرف کی قربانی

قیصرانی

لائبریرین
وائس آف رشیا کی اردو سروس کا یہ مضمون اچھا لگا تو شیئر کر رہا ہوں
4highres_00000402033276.jpg

Photo: EPA
تحریر: ندیم سعید

وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی تین نومبر دوہزار سات کو آئین معطل کرنے ، ملک میں ایمرجنسی لگانے اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت کئی دوسرے ججز کو نظر بند کرنے کے اقدامات کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔

یہ ایک انتہائی دلچسپ صورتحال ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے ادارے پاکستان آرمی کی طرف سے بذور طاقت آئین کی ’بے حرمتی‘ تو بنیادی طور پر بارہ اکتوبر انیس سو ننانونے میں سرزد ہوئی تھی جب ایک منتخب حکومت کاتختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیاگیا تھا۔اس وقت بھی حکومت نواز شریف کی تھی جنہیں قلعہ اٹک میں قید کر دیا گیا تھا۔لیکن چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ’ذاتی رنجش‘ پر جنرل مشرف کو معاف کردیاتھا لیکن عدلیہ کی تحقیر کی معافی وہ نہیں دے سکتے۔

تو کیا چودہ سال قبل بارہ اکتوبر کو جو کچھ ہوا وہ نواز شریف اور جنرل مشرف کا ذاتی معاملہ تھا جو ایک فریق کے معاف کر دینے پرختم ہوگیا؟ کیا عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی پارلیمان اور نمائندے اس وقار کے حامل نہیں جو عدلیہ سے منسوب کیا جا رہا ہے؟

جنرل مشرف کے خلاف بارہ اکتوبر کے اقدام کی بجائے تین نومبر کے اقدمات پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی نظر نہیں آرہا۔یہ مسئلہ ایک ایسے وقت چھیڑا جا رہا ہے جب ملک انتظامی نوعیت کی اہم تبدیلیوں سے گزرنے والا ہے۔فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی دس دن کے اندر سبکدوش ہو رہے ہیں اور چیف جسٹس افتخار چوہدری دسمبر میں اپنی مدت ملازمت پوری کر رہے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات کے مسئلے پر حکومت اور ان کے سینگھ پھنسے ہوئے ہیں۔

ایسے میں انصاف کے بپھرے ہوئے دیوتا کو جنرل مشرف کی قربانی پیش کی جارہی ہے جو اسے پنجرے میں بند کرنے کی ناکام بلکہ بدنام زمانہ سعی کر بیٹھا تھا۔

جنرل کیانی گزشتہ دس سالوں سے پہلے آئی ایس آئی چیف اور پھر فوج کے سربراہ کے طور پر ملک کی داخلی و خارجی حکمت عملی بنانے میں اہم ترین کردار رہے ہیں جبکہ جسٹس افتخار بلا شک و شبہ ملکی تاریخ کے سب سے طاقتور چیف جسٹس کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کے عہد میں ملک نے عدلیہ کی فعالیت کا ایک ایسا دور دیکھا ہے جس میں نہ صرف جج اپنی بحالی کے لیے ٹریڈ یونین طرز پر سڑکوں پر احتجاج، مظاہرے اور دھرنے دیتے نظر آئے بلکہ بعد میں انتظامی نوعیت کے احکامات جاری کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔

دونوں طاقتور ادارے یعنی فوج اور عدلیہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دوسرے سے برسرپیکار نظر آئے۔جنرل مشرف آئین اورریاستی اداروں کے ساتھ کچھ کر رہے تھے اس کے لیے انہیں فوج کی بحیثیت ادارہ مکمل حمایت حاصل تھی، بلکہ انیس سو ننانوے میں جب وزیراعظم نواز شریف نے انہیں آرمی چیف کے عہدے سے فارغ کیا تو جنرل عزیز، جنرل محمود اور جنرل عثمانی کی قیادت میں فوج نے نہ صرف مشرف کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا بلکہ اپنا آئینی اختیار استعمال کرنے والے سربراہ حکومت کو پابند سلاسل کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔

ان تمام غیر آئینی اقدامات کی عدلیہ نے نہ صرف توثیق کی بلکہ فوجی آمر کے عبوری آئین کے تحت دوبارہ حلف بھی اٹھایا۔بات صرف یہاں تک نہیں رکی تھی ۔ اعلیٰ عدلیہ نے جنرل مشرف کو تین سال تک آئین میں ردوبدل کرنے کی اجازت بھی دیے رکھی۔ جسٹس افتخار چوہدری ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے ان تمام اقدامات کو عدالتی تحفظ دیا۔ اگرچہ بعد میں سجدہ سہو کرتے ہوئے انہوں نے پی سی او ججز کیس میں جو فیصلہ دیا اس میں بقول ان کے فوجی آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

حالانکہ جب انہوں نے بارہ اکتوبر کے اقدام کی توثیق کی تھی تو غداری سے متعلق آئین کی کی شق چھ اس وقت بھی موجود تھی جس کی ذیلی شق ’ب‘ غیر آئینی اقدامات میں معاونت کرنے والوں کو بھی غداری کا برابر قصوروار قرار دیتی ہے۔

اس لیے نواز شریف حکومت بارہ اکتوبر کی آئین شکنی کو ’ذاتی رنجش‘ کہہ کر دبانا چاہتی ہے کیونکہ اس پر کارروائی کرنے سے ایسی بہت ساری ہستیاں جو اب مقدس ہو چکی ہیں وہ بھی قابل سزا ٹھہریں گی۔لیکن انصاف تو اندھا ہونا چاہیے ناکہ من چاہا۔ آئین شکنی اور غداری کی پٹاری کھولنی ہے تو جنرل ایوب سے جنرل مشرف اور جسٹس منیر سے موجودہ چیف صاحب تک سب کی بازپرس ہونی چاہیے۔

بین الاقوامی اور ملکی بے وقعتی کے بعدجنرل مشرف اب ایک آسان ہدف ہے جسے تختہ مشق بنا کر نواز شریف شاید سیاسی گول تو کرلیں لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ فوج اور عدلیہ اس سے کوئی سبق بھی حاصل کرتے ہیں۔ویسے اقتدار میں نواز شریف کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عدلیہ اور فوج سے مقابلے میں گول وہ ہمیشہ اپنے خلاف ہی کرتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ انتہائی دلچسپ اقتباس ہے
جسٹس افتخار چوہدری ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے ان تمام اقدامات کو عدالتی تحفظ دیا۔ اگرچہ بعد میں سجدہ سہو کرتے ہوئے انہوں نے پی سی او ججز کیس میں جو فیصلہ دیا اس میں بقول ان کے فوجی آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

حالانکہ جب انہوں نے بارہ اکتوبر کے اقدام کی توثیق کی تھی تو غداری سے متعلق آئین کی کی شق چھ اس وقت بھی موجود تھی جس کی ذیلی شق ’ب‘ غیر آئینی اقدامات میں معاونت کرنے والوں کو بھی غداری کا برابر قصوروار قرار دیتی ہے۔

اس لیے نواز شریف حکومت بارہ اکتوبر کی آئین شکنی کو ’ذاتی رنجش‘ کہہ کر دبانا چاہتی ہے کیونکہ اس پر کارروائی کرنے سے ایسی بہت ساری ہستیاں جو اب مقدس ہو چکی ہیں وہ بھی قابل سزا ٹھہریں گی۔لیکن انصاف تو اندھا ہونا چاہیے ناکہ من چاہا۔ آئین شکنی اور غداری کی پٹاری کھولنی ہے تو جنرل ایوب سے جنرل مشرف اور جسٹس منیر سے موجودہ چیف صاحب تک سب کی بازپرس ہونی چاہیے۔
 
Top