انصار عباسی : اگر طالبان نے آئین کے نفاذ کا مطالبہ کردیا تو ۔۔۔

سید زبیر

محفلین
col3.gif


انصار عباسی صاحب ! آپ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں یا قوم کو ورغلا رہے ہیں ۔ طالبان ، جو کہ امریکی غاصبوں کی ' بی ' ٹیم ہے اسلام کے کس قانون پر عمل کرتے ہیں ۔ قتل ، دہشت گردی ، بھتہ یہ تو اُن کا وطیرہ ہے ۔ اُن کی نا پسندیدہ مقامات ، درسگاہیں ، یونیورسٹی ، مساجد ، عبادت گاہیں ، درگاہیں ، خانقاہیں غریبوں کی بستیاں ، بازار ہیں ، ملک اور قوم کا دفاع کرنے والے پولیس اور فوج کے افراد اُن کا نشانہ ہیں

اُن کےپسندیدہ مقامات نائٹ کلب ، فیشن شو کے مراکز ، ہیروئن ، اور مشیات کے اڈے ، رقص گاہیں ، ان کی مکمل حفاظت میں ہیں ، ۔ یہ کیوں اسلام کا مطالبہ کرنے لگے ۔ نہ انہیں صلح حدیبیہ ، میثاق مدینہ ، فتح مکہ ، کے احکامات سے آگاہی ہے اور نہ ہی اسلام کی روح سے واقف ہیں ۔ یہ اُس آقا ﷺ کی غلامی کا دعویٰ کرتے ہیں جنہوں نے دوران جنگ درخت اور فصلوں کو بھی تباہ کرنے سے منع فرمایا تھا ۔یہ امریکی ڈالر کے غلام ہیں انہیں کے پروردہ ہیں ۔ ان کا کوئی ایک عمل بتادیں جو عین اسلامی ہو ۔ انصار عباسی صاحب ، کیوں قوم کو گمراہ کرتے ہیں ؟
 

سید ذیشان

محفلین
طالبان 1994-2001 تک افغانستان میں کامیابی سے شریعت کا نفاذ کر چکے ہیں۔ اگر ان کو پاکستان میں موقع دیا جائے تو یہ دوبارہ ایسا کرنے کے قابل ہوں گے۔ نوازشریف کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو پہلے بھی امیرالمومنین بننے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ اکثر لوگ جن کے سر پر بال کم ہوتے ہیں ان کی داڑھیاں کافی گھنی اگتی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
طالبان 1994-2001 تک افغانستان میں کامیابی سے شریعت کا نفاذ کر چکے ہیں۔ اگر ان کو پاکستان میں موقع دیا جائے تو یہ دوبارہ ایسا کرنے کے قابل ہوں گے۔ نوازشریف کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو پہلے بھی امیرالمومنین بننے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ اکثر لوگ جن کے سر پر بال کم ہوتے ہیں ان کی داڑھیاں کافی گھنی اگتی ہیں۔
میری داڑھی تو اتنی گھنی نہیں :p
 

سید زبیر

محفلین
طالبان 1994-2001 تک افغانستان میں کامیابی سے شریعت کا نفاذ کر چکے ہیں۔ اگر ان کو پاکستان میں موقع دیا جائے تو یہ دوبارہ ایسا کرنے کے قابل ہوں گے۔ نوازشریف کو تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو پہلے بھی امیرالمومنین بننے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ اکثر لوگ جن کے سر پر بال کم ہوتے ہیں ان کی داڑھیاں کافی گھنی اگتی ہیں۔
افغانستان کے طالبان اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث طالبان میں قطبین کا فرق ہے ۔ ان امریکی پروردہ طالبان کے پاکستان میں دھماکوں کی کسی صورت میں بھی توجیہہ نہیں پیش کی جاسکتی ۔ ان کے نشانے ہمیشہ تعلیمی درسگاہیں ، عبادت خانے ، رہےاور جوئے خانے ، شراب خانے قحبہ خانے ، رقصگاہیں ، فحاشی کے اڈے ان کی امان میں ہیں ۔نہ یہ قران سے اور نہ ہی سیرۃ الرسول صلعم سے ہدائت حاصل کرتے ہیں
 

x boy

محفلین
جانے یا انجانے میں داڑھی کا مزاق نہ اڑایا جائے کوئی بعید نہیں کہ مزاق اڑانے والوں کا انجام یہ ہوکہ اس کے سارے جسم کے بال غائب ہوجائیں۔
کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جو بھی جسکا مزاق بناتا ہے ذندگی میں اس کا حساب دینا پڑتا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
افغانستان کے طالبان اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث طالبان میں قطبین کا فرق ہے ۔ ان امریکی پروردہ طالبان کے پاکستان میں دھماکوں کی کسی صورت میں بھی توجیہہ نہیں پیش کی جاسکتی ۔ ان کے نشانے ہمیشہ تعلیمی درسگاہیں ، عبادت خانے ، رہےاور جوئے خانے ، شراب خانے قحبہ خانے ، رقصگاہیں ، فحاشی کے اڈے ان کی امان میں ہیں ۔نہ یہ قران سے اور نہ ہی سیرۃ الرسول صلعم سے ہدائت حاصل کرتے ہیں

زبیر صاحب، اگر آپ افغانستان میں ہوتے تو اس کے بالکل برعکس کہہ رہے ہوتے۔ پاکستانی اور افغانی طالبان دونوں ایک ہی ہیں۔ پاکستانی طالبان کا تو امریکی کنکشین اب تک ثابت نہیں ہو سکا لیکن افغان طالبان تو خود ہلری کلنٹن کے بیان کے مطابق انہوں نے خود بنائے ہیں۔ تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہاں پر امریکی مخالفت کہاں چلی جاتی ہے؟

اگر آپ کو افغان طالبان کے سات سالہ دور حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پاکستانی طالبان سے کیوں مسئلہ ہو گا، اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔
 

سید زبیر

محفلین
زبیر صاحب، اگر آپ افغانستان میں ہوتے تو اس کے بالکل برعکس کہہ رہے ہوتے۔ پاکستانی اور افغانی طالبان دونوں ایک ہی ہیں۔ پاکستانی طالبان کا تو امریکی کنکشین اب تک ثابت نہیں ہو سکا لیکن افغان طالبان تو خود ہلری کلنٹن کے بیان کے مطابق انہوں نے خود بنائے ہیں۔ تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہاں پر امریکی مخالفت کہاں چلی جاتی ہے؟

اگر آپ کو افغان طالبان کے سات سالہ دور حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پاکستانی طالبان سے کیوں مسئلہ ہو گا، اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔
مجھے طالبان سے صر ف ایک مسئلہ ہے کہ پاکستان میں ان کے اسلامی کارنامے بتادیں اور جو سوال میں نے اپنے مراسلے میں اٹھائے تھے کہ ان کے اہداف کیا ہیں ۔۔۔ اُس کا جواب نہیں مل رہا ہے کہ یہ معصوم مسلمانوں کا بم دھماکوں مین کیوں قتل عام کر رہے ہیں ۔ کیا اسلام یہی سکھاتا ہے کہ جہاں اللہ کی وحدانیت کا ذکر ہو رہا ہو ،اللہ کی عبادت ہو رہی ہو مساجد ، امام بارگاہیں ، چرچ یہ سب ایسے ہی مقامات ہے ۔ جہاں انسان اپنے رب سے رابطہ کرتا ہے اور یہ تحریک طالبان پاکستان اُن کو اُس وقت شہید کرتے ہیں جب وہ رکوع و سجود میں ہوتے ہیں ۔ میرے گھر ، میرے شہر میرے ملک سے خوشیاں چھین لیں اور بم دھماکے ، خود کش حملے کا خوف دے دیا ، علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور ان وحشی درندوں نے کم سن بچوں پر حملہ کرکے شہید کیا آج سے چار سال پہلے اسلامی یونیورسٹی میں دو خود کش حملے ہوئے جن میں حفاظ شہید ہوئے ۔ ذرا جنگ کے لیے اسلامی احکامات دیکھیں ، اُس پر بھی حملہ منع ہے جو بھاگ رہا ہو ، پناہ مانگ رہا ہو ،عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں حتیٰ کہ سر سبز فصلوں ،درختوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے ، اور ان سب کا طالبان پاکستان کا ذمہ لیا ہے کیا ان کے یہ کام اسلامی ہیں ؟
 

سید ذیشان

محفلین
جانے یا انجانے میں داڑھی کا مزاق نہ اڑایا جائے کوئی بعید نہیں کہ مزاق اڑانے والوں کا انجام یہ ہوکہ اس کے سارے جسم کے بال غائب ہوجائیں۔
کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جو بھی جسکا مزاق بناتا ہے ذندگی میں اس کا حساب دینا پڑتا ہے۔

غالباً یہ اسی کہانی میں سنا تھا جس میں الٹے پیروں والی بلا بھی ہوتی ہے۔ :unsure:

آپ تسلی رکھیں داڑھی کا مذاق کسی نے نہیں اڑایا، بلکہ فدوی خود ہلکی سی داڑھی رکھتے ہیں اور طالبان کے آنے پر گھنی کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ ;)

(ویسے میں نے بھی سنا ہے کہ گھنی داڑھی والے اور گنجے سر والے مرد فیمیلز کے لئے زیادہ اٹریکٹیو ہوتے ہیں :LOL:)
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے طالبان سے صر ف ایک مسئلہ ہے کہ پاکستان میں ان کے اسلامی کارنامے بتادیں اور جو سوال میں نے اپنے مراسلے میں اٹھائے تھے کہ ان کے اہداف کیا ہیں ۔۔۔ اُس کا جواب نہیں مل رہا ہے کہ یہ معصوم مسلمانوں کا بم دھماکوں مین کیوں قتل عام کر رہے ہیں ۔ کیا اسلام یہی سکھاتا ہے کہ جہاں اللہ کی وحدانیت کا ذکر ہو رہا ہو ،اللہ کی عبادت ہو رہی ہو مساجد ، امام بارگاہیں ، چرچ یہ سب ایسے ہی مقامات ہے ۔ جہاں انسان اپنے رب سے رابطہ کرتا ہے اور یہ تحریک طالبان پاکستان اُن کو اُس وقت شہید کرتے ہیں جب وہ رکوع و سجود میں ہوتے ہیں ۔ میرے گھر ، میرے شہر میرے ملک سے خوشیاں چھین لیں اور بم دھماکے ، خود کش حملے کا خوف دے دیا ، علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور ان وحشی درندوں نے کم سن بچوں پر حملہ کرکے شہید کیا آج سے چار سال پہلے اسلامی یونیورسٹی میں دو خود کش حملے ہوئے جن میں حفاظ شہید ہوئے ۔ ذرا جنگ کے لیے اسلامی احکامات دیکھیں ، اُس پر بھی حملہ منع ہے جو بھاگ رہا ہو ، پناہ مانگ رہا ہو ،عورتوں ، بوڑھوں ، بچوں حتیٰ کہ سر سبز فصلوں ،درختوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے ، اور ان سب کا طالبان پاکستان کا ذمہ لیا ہے کیا ان کے یہ کام اسلامی ہیں ؟

زبیر صاحب، بات صرف اتنی ہے کہ یہ سب کام تو طالبان بارڈر کے اس طرف 20 سال سے کر رہے ہیں۔ تو ان کے لئے نرم گوشہ کیوں؟ کیا صرف اس لئے وہ اسلامی ہو جاتے ہیں کہ وہ امریکہ اور نیٹو سے برسرپیکار ہیں؟ نیٹو حملے کے بعد ان طالبان نے افغانستان میں کتنے بےگناہ لوگوں کو مسجدوں میں خودکش دھماکوں سے قتل کیا ہے، کیا آپ کو معلوم ہے؟ اپنے دور حکومت میں بامیان، مزار شریف اور یاولنگ میں انہوں نے کیسے نہتے ہزارہ کا قتل عام کیا؟
یہ سب چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں صرف آپ کی train of thought معلوم کرنا چاہ رہا تھا کہ کس وجہ سے بارڈر کے اِس پار کے طالبان تو برے ہیں اور اُس پار کے اچھے ہیں۔
آپ ہمارے بزرگ ہیں، اگر جواب نہ بھی دینا چاہیں تو کوئی بات نہیں :)
 
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ افغانستان میں ظالمان نے صرف اپنی مرضی کی حکومت قائم کی تھی۔ پاکستان کا موجودہ آئین اور نظام خالصتاً قرآن حکیم کی شریعت کے مطابق ہے۔ اس میں کیا خرابی ہے نشاندہی کیجئے؟
 

Fawad -

محفلین
۔یہ امریکی ڈالر کے غلام ہیں انہیں کے پروردہ ہیں ۔ ان کا کوئی ایک عمل بتادیں جو عین اسلامی ہو ۔

سوال يہ اٹھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے قائدين اور اس تنظیم سے وابستہ وفادار جنگجو کيونکر ايک ايسے "کٹھ پتلی نچانے والے" مالک کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگائيں گے جو نا صرف يہ کہ خود انھيں ٹارگٹ کر رہا ہے بلکہ وہ حکومت پاکستان کو بھی ہر قسم کے وسائل، لاجسٹک امداد اور جنگی سازو سامان مہيا کر رہا ہے تا کہ ان کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ و برباد کيا جا سکے؟


کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ ٹی ٹی پی يہ جانتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کرے گی اور ہمارے اشاروں پر کام کرے گی کہ ہم نے نا صرف يہ کہ اس تنظيم کے قائدین کی گرفتاری پر انعام مقرر کر رکھا ہے بلکہ ہم خطے ميں اپنے اسٹريجک اتحاديوں کے ساتھ مل کر اس امر کو يقینی بنا رہے ہيں کہ اس تنظيم کو اس حد تک غير فعال کر ديا جائے کہ وہ کسی قسم کی دہشت گرد کاروائ کرنے کی صلاحيت سے عاری ہو جائے؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s7.postimg.org/r8de969sb/usaid_updated2.jpg
http://www.youtube.com/edit?o=U&ns=1&video_id=hI088cRCITY
 

x boy

محفلین
آبی ٹوکول بھائی
کی لڑی سے ربط لے کر پوسٹ کررہا ہوں،
یہ آئین ہے لیکن نافذ نہیں ہے۔
ئین پاکستان:سیکولر یا اسلامی؟...ثروت جمال اصمعی
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

137435_s.jpg

پاکستان کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت کم و بیش ایک ماہ پہلے یعنی ستمبر کی 9 تاریخ کو کسی پیشگی شرط کے بغیرتحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر مکمل اتفاق کا اظہار کرچکی ہے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے اس کے بعد طالبان کے خلاف کسی یکطرفہ کارروائی کی بھی کوئی خبر منظر عام پر نہیں آئی لیکن طالبان کے مختلف گروپوں کی جانب سے آئے دن بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی تیزی دیکھی جارہی ہے۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لیے ناممکن العمل پیشگی شرائط بھی عائد کی جارہی ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کے نہایت ممتاز اور محترم علمائے کرام کی اللہ اور رسولؐ کے نام پر کی گئی اپیل بھی طالبان کے موقف میں کوئی نرمی پیدا کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوسکی ہے بلکہ طالبان کے ترجمان نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے موجودہ’’ سیکولر‘‘ آئین کے تحت ہرگز مذاکرات نہیں کریں گے۔ طالبان مذاکرات کریں یا نہ کریں مگرپاکستان کے دستور کی تیاری کے تمام مراحل میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ شامل رہنے والے تمام دینی مکاتب فکر اور دینی و سیاسی قوتوں کی جانب سے ان کی یہ غلط فہمی یقیناً دور کردی جانی چاہیے کہ اس ملک کا آئین سیکولر ہے۔ پاکستان کے آئین کو سیکولر قرار دینا اس ملک کی دینی و سیاسی طاقتوں کی اسلامی دستور کی تیاری کے لیے کی گئی بے مثالی کاوشوں اور کامیاب جدوجہد کی کھلی بے توقیری کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ دستور میں نہ صرف بانیان پاکستان کی منظور کردہ وہ قرارداد مقاصد مؤثر حیثیت میں شامل ہے جس میں اس ملک کا مقتدر اعلیٰ اللہ رب العالمین کو قرار دیتے ہوئے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو شریعت اسلامی کے نفاذ کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے بلکہ سنی شیعہ ،دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث تمام مکاتب فکر کے نمائندہ31 جیدعلمائے کرام کے مکمل اتفاق رائے سے مرتب کردہ دستور سازی کے 22 رہنما اصول بھی سمودیے گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی شریعہ اپیلٹ بنچ کے رکن جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنے ایک مقالے میں پاکستان کے موجودہ آئین کا اس پہلو سے جائزہ لیا ہے کہ جدید اسلامی ریاست کے دستور کے لیے علمائے کرام کے مرتب کردہ یہ بائیس رہنما اصول ہمارے آئین میں کس طرح سموئے گئے ہیں۔ انہوں نے ان بائیس نکات میں سے ایک ایک نکتے کو درج کرکے دستور کی وہ دفعات نقل کی ہیں جن کے ذریعے ان نکات کو دستور کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس تحقیقی کاوش سے مدد لیتے ہوئے ہم ان میں سے چند ابتدائی نکات اور دستور پاکستان کی متعلقہ دفعات یہاں مثالاً پیش کررہے ہیں۔ ’’اصل حاکم ، تشریعی و تکوینی حیثیت سے، ﷲ رب العالمین ہے۔‘‘ ۔۔علماء کے بائیس رہنما اصولوں کا یہ پہلا نکتہ موجودہ آئین کی تمہید اور آرٹیکل 2 اور 2(الف) میں شامل ہے۔ قرارداد مقاصد کو تمہید کے علاوہ دفعہ 2(الف) کے ذریعے آئین میں شامل کرکے اللہ رب العالمین کو تشریعی اور تکوینی حیثیت سے حاکم مطلق تسلیم کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 2 کی رو سے مملکت کا مذہب اسلام ہے۔
دوسرا نکتہ’’ ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا، اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو۔۔۔ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کردیے جائیں گے۔‘‘۔۔۔ یہ نکتہ دستور پاکستان کی دفعہ 227میں یوں درج ہے ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہےاور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جاسکے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔‘‘ جسٹس خلیل الرحمن’’ انتظامی حکم‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہر انتظامی حکم کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔ہر قانون کا کتاب و سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر وہ قانون قرآن وسنت کے خلاف ہے تووہ وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ہر انتظامی حکم کوقانون کے خلاف یا ماوراہونے کی وجہ سے یا بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔پہلے سے موجود قوانین آرٹیکل 277کی رو سے قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے جائیں گے۔وفاقی شرعی عدالت تقریباً تمام قوانین کا جائزہ لیتی ہے ماسوائے چند قوانین کے جنہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔سیاسی عزم کے لیے مقتدر اشخاص اور اداروں کا اسلامی ذہن کا حامل ہونا ضروری ہے۔‘‘
تیسرا نکتہ: ’’مملکت کسی جغرافیائی، نسلی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔‘‘۔۔ یہ نکتہ دستور کی دفعہ 2 (الف) یعنی قرارداد مقاصد کے علاوہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 33 میں یوں درج ہے: ’’مملکت شہریوں کے درمیان علاقائی، نسلی، لسانی،قبائلی، فرقہ وارانہ اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرے گی۔‘‘
چوتھا نکتہ : ’’اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے ، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلام کے احیاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مسالک کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔‘‘ ۔۔ دستورپاکستان کی دفعہ 31 کی پہلی شق میں ’’اسلامی طریق زندگی ‘‘ کے عنوان سے اس نکتے کو یوں سمویا گیا ہے : ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔‘‘ اسی آرٹیکل کی دوسری شق میں کہا گیا ہے :’’ پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن اشاعت کا اہتمام کرنا۔(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور(ج) زکو ٰۃ [عشر] ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
علماء کے مرتب کردہ رہنما اصولوں کا پانچواں نکتہ عالم اسلام سے تعلقات کو مستحکم بنانے پر مبنی ہے ، اسے ہمارے دستور کی دفعہ 40 میں شامل کرلیا گیا ہے۔ علماء کا چھٹا نکتہ مملکت کے تمام باشندوں کے لیے بلالحاظ مذہب اور رنگ و نسل بنیادی ضروریات زندگی کی مملکت کی جانب سے ضمانت دیے جانے سے متعلق ہے ۔ یہ ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 میں ’’عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ ‘‘ کے عنوان سے فراہم کی گئی ہے۔علماء کے رہنما اصولوں کے ساتویں اور آٹھویں نکتے میں تمام باشندگان مملکت کو شریعت کے مطابق تحفظ ِجان و مال و آبرو، آزادی مذہب و مسلک،آزادی عبادت، آزادی ذات، آزادی اظہار رائے ، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع،آزادی اکتساب رزق ، ترقی کے مواقع میں یکسانی اوررفاہی اداروں سے استفادے کے حق کی بات کی گئی ہے جبکہ دستور میں یہ تمام آزادیاں اور حقوق آرٹیکل4 اور آرٹیکل 8تا25 کے ذریعے فراہم کردیے گئے ہیں۔
علماء کے رہنما اصولوں کے باقی نکات بھی آئین پاکستان میں اسی طرح سمولیے گئے ہیں لیکن کالم کی گنجائش ختم ہوجانے کی وجہ سے مزید تقابل پیش کرنا ممکن نہیں۔
 

x boy

محفلین
یہ ایک کلپ ہے شاید یوٹیوب میں ہے کچھ معلومات ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا صحیح کیا غلط ہے
اگر برا لگے تو معذرت یہ خبر کی کلپ کسی نجی ٹی وی چینل کی ہے
 

ظفری

لائبریرین
جس ملک کی آبادی میں مسلم آ بادی کا تناسب 97 فیصد ہو ۔ وہاں اسلامی نفاذ ایک مسئلہ بنا ہوا ہو تو حیرت ہوتی ہے ۔ کسی ملک کا قانونی نفاذ اس کے مذہب اور شریعت کے مطابق ہوتا ہے ۔قوم پہلے خود حقیقی معنوں میں مسلم بن جائے ۔ اسلامی نفاذ خود قائم ہوجائے گا ۔ اسلامی نفاذ سے معاشرے میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔ کیونکہ ہمارے ہاں اسلامی نفاذ سے مراد چند قوانین ہیں ۔ جو ہم سمجھتے ہیں کہ لاگو کردیں تومعاشرے میں جوہری تبدیلی پیدا ہوجائے گی ۔ اسلام قانون نافذ کرنے نہیں بلکہ اقدار پروان چڑھانے آیا ہے ۔ اسلام کے اوائل میں معاشرے میں اقدار کی ترویح و اشاعت ہوئی ۔ پھر معاشرے میں نظم و ضبط کے لیئے قوانین لائے گئے ۔ ہم تو پہلے ہی مرحلے سے کوسوں دور ہیں ۔ نفاذ تو دور کی بات ہے ۔
 

x boy

محفلین
تبلیغی جماعت کا منشور اور عمل بھی یہی ہے کہ حکومت میں دخل اندازی نہ کرو ، چپ چاپ مسلمانوں کو بازاروں ، شراب خانوں ، انٹرٹینمنٹ جیسے فخاشی خانوں وغیرہ سے نکال کر مسجد میں لایا جائے اور ان کو سمجھایاجائے اچھے اعمال کی فضیلت بتائی جائے۔
لیکن جس گلی سے تبلیغی جماعت گزرہوتا لڑکے بھاگ جاتے ہیں اگر کبھی بات سن بھی لیتے ہیں تو کہتے ہیں مولوی صاحب ابھی میرے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں میرے لئے دعاء کریں کہ اللہ پاک مجھے ھدایت دے دے، کیا خاک تبدیل ہوگا معاشرہ جس قوم کے لوگ اپنے مونہوں سے یہ بات نکالے کہ میں ناپاک ہوں اور اس لباس سے اس بدن سے مسجد میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اور اسی ناپاکی میں اسطرح کے لوگوں کی موت واقع ہوگئی تو جنازے کا غسل کیا کام دے جس کو ذندگی بھر کے عمل میں غسل نصیب نہیں ہوئی۔
تبلیغی جماعت جو کام کرتی ہے بہتر ہے لیکن میں نے کوشش کبھی نہیں کی کہ چلا تین چلا ان کے ساتھ گزاروں باقی میرے اعمال مسلمانوں والے ہیں اللہ قبول کرے آمین
 

x boy

محفلین
اختلاف اور فتنوں کے دور میں کیا کرنا چاہئے ؟
الحمدللہ

صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ابو ادریس خولانی سے حدیث موجود ہے بخاری کے لفظ یہ ہیں :

ابو ادریس خولانی نے حذیفہ بن یمان کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر اور بھلائی کے متعلق سوال کرتے اور میں ان سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر اور بھلائی دی تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور اس میں فساد ہو گا میں نے کہا یہ دخن کیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسی قوم آئے گی جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرا اختیا کریں گے جسے تو جانے اور انکار کرے گا تو میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے ہوں گے جس نے ان کی مان لی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان کے اوصاف بتائیں تو آپ نے فرمایا وہ ہم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے میں نے کہا کہ اگر میں نے یہ دور پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑ میں نے کہا کہ اگر امام اور جماعت نہ ہوئی تو ؟ تو آپ نے فرمایا : تو ان سب فرقوں سے علیحدگی اختیار کر اگرچہ تجھے درخت کی جڑ ہی کیوں نہ کھانی پڑے حتی کہ تجھے اس حالت میں موت آجائے ۔

تو یہ دور اور زمانہ اس دور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور اور زمانے میں اور جگہ پر عام ہے عہد صحابہ سے لے کر جب عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج اور فتنہ شروع ہوا ۔اور فتنہ کے دور میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام طبری سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب بھی لوگوں کا امام نہ ہو اور لوگوں میں اختلاف اور جماعتیں ہوں تو شر میں پڑنے کے ڈر سے اگر طاقت رکھو تو فرقوں میں کسی کی پیروی نہ کرو اور سب سے علیحدگی اختیار کرو، تو جب بھی کوئی ایسی جماعت ملے جو حق پر ہو اس میں ملنا چاہئے اور ان کے تعداد میں اضافہ اور حق پر ان کا تعاون کرنا چاہئے کیونکہ یہ جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس شخص اور وقت اور مسلمانوں کی جماعت کا ہے ۔

اور اللہ ہی توفیق بخشنے والا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .

فتاوی اللجنۃ الدائمۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 95
 

قیصرانی

لائبریرین
اسلامی نظام کا نفاذ ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی جاتی ہے۔ شاید کوئی بٹن ہوتا ہوگا، جسے دباتے ہی سکیورٹی ہائی الرٹ ہو جاتی ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی :)
 
Top