انسان کی شخصیت سازی میں تحمل مزاجی کا کردار

اپنے خیالات کو کنٹرول میں رکھو، کیونکہ یہ تمہاری باتوں میں بدل جائیں گے، اپنی باتوں پر نظر رکھا کرو، کیونکہ یہ تمہارا کردار بن جائیں گی، اپنے کردار پر نظر رکھا کرو، کیونکہ یہ تمہاری عادت بن جائے گا، اپنی عادتوں پر نظر رکھا کرو، کیونکہ یہ تمہاری شخصیت بن جائیں گی، اپنی شخصیت کا خیال رکھا کرو، کیونکہ یہ تمہاری تقدیر بن جائے گی۔ بسا اوقات ایک واقعہ، کسی بزرگ کی ایک بات، کسی دلسوز شخص کے ایک دردمندانہ مشورے سے کسی کی زندگی کی کایا مکمل پلٹ سکتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، شروع میں ہم بہت زیادہ شرارتیں کیا کرتے تھے، کبھی دوستوں سے لڑائی جھگڑا بھی کرتے تھے، کبھی بعض افراد اپنی شکایتیں گھر تک لے آتے تھے، ہر وقت کوشش یہ ہوتی تھی کہ خود غالب اور دوسرے کو مغلوب رکھا جائے، ہمیشہ اپنی بات حق اور اپنے مخالف کی بات کو باطل پر حمل کرکے ٹھکراتے تھے۔ دوسروں کی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رہتا تھا۔
ایک دفعہ ہم شہر کی مسجد میں نماز ظہر کے لئے گئے، میرے ساتھ بہت سارے دوست بھی تھے، نماز ختم ہونے کے بعد امام جماعت نے پندرہ منٹ کا ایک مختصر اور جامع درس دیا، جس سے میری اور میرے ساتھیوں کی زندگی بالکل بدل گئی۔ مسجد کھچا کھچ بھری تھی، اکثریت جوانوں کی تھی، امام جماعت نے کھڑے ہوکر کہا "آج مجھے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ نمازیوں میں اکثریت جوانوں کی ہے، اسی وجہ سے میں نے آپ لوگوں کے پاکیزہ دلوں تک اپنا بلکہ سارے مسلمانوں کا درد دل منتقل کرنے کے لئے بعض اہم سوالوں کا انتخاب کیا ہے۔ اس سے تمام نمازیوں کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوگئی۔
ان کے سوالوں کی نوعیت کچھ ایسی تھی: "آج کل بھائی بھائی کا دشمن کیوں ہے؟ نفرتوں میں دن بہ دن اضافہ اور محبتوں میں روز بہ روز کمی کیوں آتی چلی جا رہی ہے؟ کیوں مسلمان ایک دوسرے کے دست بہ گریباں ہیں؟ مغربی دنیا اور استعماری طاقتیں باطل پر ہونے کے باوجود آپس میں الفت و محبت کی زندگی گزار رہی ہیں جبکہ ہم حق پر ہونے کے باوجود ہر وقت ایک دوسرے کے قتل کے درپے کیوں ہوتے ہیں؟ آج دنیا میں مسلمان دہشتگرد کے عنوان سے کیوں متعارف ہو رہے ہیں؟ مسلمان مکاتب فکر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے کیوں لگاتے ہیں؟ ہر ایک اپنی بات کو حرف آخر اور باقیوں کی باتوں پر ہر وقت خط بطلان کیوں کھینچتے ہیں۔ ایسے بہت سارے سوالات انھوں نے اٹھائے، جس سے ہم سب منقلب ہوکر رہ گئے۔
پھر انھوں نے خود ہی اس کا جواب یوں دیا: "میرے نوجوانوں اور جوانوں! دیکھیں ان تمام سوالوں کا بنیادی جواب ہمارے اندر برداشت کے مادے کا فقدان ہے، ایک دوسرے کو تحمل کرنے کی اخلاقی جرات کا نہ ہونا ہے، اپنی ذات میں جھانک کر اپنی اخلاقی کمزوریوں کا ازالہ نہ کرنا ہے، ابھی سے ہی اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کریں، یہی آپ لوگوں کے تزکیہ نفس کا وقت ہے؛ کیونکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 28 سال تک انسان اپنی غلط عادتوں کو آسانی سے تبدیل کرسکتا ہے، اس کے بعد تمام غلط عادتیں اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں، پھر ان عادتوں کا بدلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، انسان کے اندر مختلف عادتیں ہوتی ہیں۔ بعض اچھی عادتیں ہوتی ہیں تو بعض بری۔ بعض عادتوں کی دوسرے لوگ تعریف و تمجید کرتے ہیں تو بعض کی مذمت و سرزنش۔
انسان فطری طور پر اجتماع پسند خلق ہوا ہے، روزانہ مختلف افراد سے اس کا سروکار ہوتا ہے، بعض صبور ہوتے ہیں تو بعض میں غصیلاپن، بعض کا لہجہ میٹھا ہوتا ہے تو بعض کا تند، بعض افراد ایک دوسرے کے احترام کا لحاظ رکھتے ہیں تو بعض اپنے آپ کو ہر طرح کی قید و بند سے آزاد سمجھتے ہیں، اب یہاں انسان کے امتحان کا وقت آتا ہے، اچھا انسان وہ ہوتا ہے، جو ان تمام مراحل کو کامیابی سے طے کرے۔ کبھی آپ کی تحمل مزاجی کو کمزوری پر بھی حمل کیا جاسکتا ہے، کبھی آپ کے اچھے اخلاق کو مجبوری کا عنوان دیکر ٹھکرایا بھی جاسکتا ہے، پاک فطرت افراد وہ ہوتے ہیں، جو ہر حالت میں بردباری اور خوش اخلاقی کو اپنا وطیرہ بنا رکھتے ہیں، خوش خلقی سے پیش آنا اپنے روز مرہ کا معمول بنا دیتے ہیں۔ بردباری وہ صفت ہے، جو آپ کے دشمن کے دل کو بھی موم بنا سکتی ہے، ایک مرتبہ آپ کی برداشت کی وہ غلط تفسیر کرے گا، دوسری مرتبہ بھی ممکن ہے کہ وہ ایسا ہی کرے، لیکن جب آپ صبر و بردباری کا پیکر بن کر رہیں گے، تب آخر کار وہ بھی آپ کا مداح بن جائے گا۔
پھر انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا: حضرت سجادؑ کے ہاں ایک کنیز تھی، ایک مرتبہ وہ پانی لا رہی تھی، اتنے میں وہ پھسل گئی، جس سے پانی کا برتن گر کر امام کے ہاتھ پر لگا، جس کے نتیجہ میں آپ کے دست مبارک پر خراش آگئی، کنیز کو اپنی بے احتیاطی کا احساس ہوا اور فوراً کہنے لگی: "وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ" آپ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا، کنیز نے پھر کہا:"وَالْعافِينَ عَنِ النَّاسِ" آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ تیسری مرتبہ کنیز نے آیت کے آخری حصے کی تلاوت کی "وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" آپ نے فرمایا: میں نے تجھے خدا کی راہ میں آزاد کر دیا۔*
پھر امام جماعت نے اس سے بھی ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا: "ایک مرتبہ امام حسن سواری پر سوار تھے، اتنے میں ایک شامی سے آپ کی ملاقات ہوگئی، ملاقات ہوتے ہی اس نے آپ پر لعن و طعن کی بوچھاڑ کر دی، آپ خاموشی سے سنتے رہے، جب اس کے دل کی بھڑاس نکل گئی، تب آپ نے اس کی طرف رخ کرکے مسکراہٹ کے ساتھ اسے سلام کیا، پھر فرمایا: اے برادر آپ مسافر لگتے ہو، شاید آپ اشتباہ کر رہے ہیں، اگر آپ عذر خواہی کریں تو ہم بخش دیں گے، اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم فراہم کریں گے، اگر وعظ و نصیحت چاہتے ہو تو ہم وعظ و نصیحت کریں گے، اگر بھوکے ہو تو ہم کھانے کا بندوبست کریں گے، اگر لباس چاہئے تو ہم لباس فراہم کریں گے، اگر محتاج ہو تو ہم آپ کو بے نیاز بنائیں گے، اگر بے پناہ ہو تو ہم پناہ دیں گے، اگر آپ کی کوئی حاجت ہو تو ہم اسے پورا کریں گے، اگر اپنے وسائل کو ہمارے گھر میں رکھنا چاہتے ہو تو آپ کے یہاں سے جانے تک ہم آپ کی بھرپور مہمانی کریں گے؛ کیونکہ ہمارا گھر وسیع اور سہولیات سے آراستہ ہے۔
جب اس شامی نے آپ کی یہ باتیں سنیں، وہ رونے لگ گیا اور کہا: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں اور اللہ خود بہتر جانتا ہے کہ اپنا سفیر کس کو قرار دینا ہے۔ پس ہمیں اولیائے الٰہی سے نمونہ لیتے ہوئے اپنے خیالات، باتوں، عادات، کردار اور شخصیت کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیے، بردباری اور تحمل کو فروغ دے کر امن و امان اور محبت و الفت سے معاشرے کو سرشار کرنا چاہئے، اسی میں ہی ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی پنہاں ہے۔
 
Top