انسانی سمگلنگ:بردہ فروشی کی جدید اور بدترین شکل...تحریر:سہیل احمد لون…سربٹن ، سرے... (پہلی قسط)

آزادی ایک بیش قیمت نعمت ہے جس کی قدر و منزلت کسی محکوم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم دنیا کے کسی کونے میں جا کر آباد ہو جائیں مگر اپنا ملک ،اپنی مٹی ، اپنے لوگ کبھی نہیں بھولتے۔ یہ فطری سا عمل ہے کہ اپنے ملک میں اپنا صوبہ سب سے اچھا لگتا ہے ، صوبے میں اپنا شہر سب سے ممتاز محسوس ہوتا ہے، شہر میں اپنا محلہ اور اپنے محلے میں اپنا گھر ہی جنت ِارضی دکھائی دیتا ہے۔ہماری اپنے گھر سے اتنی مضبوط جڑت کے باوجود اکثر وقت اور حالات ہمیں اپنا آشیانہ چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔انسانی زندگی کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ کبھی نہ کبھی اسے اپنے گھر کو خیر باد کہنا ہی پڑتا ہے۔ اس کے پس منظرمیں محرکات مختلف ہو سکتے ہیں مگر نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نقل مکانی کا عمل رزق کے حصول سے شروع ہوا۔ انسان نے جب کھیتی باڑی کر کے اناج پیدا کرنا شروع کیا تو اس نے رہنے کے لیے بھی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں پانی تک رسائی آسان ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی شہروں کی بنیاد دریاوں کے کناروں پر ملتی ہے ۔ ایسے لوگ جو دریاؤں کے کناروں پر زندگی بسر کرتے وہ ان لوگوں سے زیادہ مہذب تھے جن کا مسکن پہاڑوں یا جنگلوں میں ہوتا تھا۔ پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنے کی وجہ سے ان کی فطرت اور عادات میں شائستگی کا عنصر کم ہوتا تھا ۔ چونکہ ان کا گزر بسر شکار پر تھا لہٰذا ان کی طبیعت اور انداز جنگجوانہ قسم کا تھا۔ ارتقا کا عمل زرعی معاشرے کے ساتھ ہی تیز ہوتا ہوا صنعتی ترقی میں داخل ہوا جہاں سے یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں عروج پرپہنچ چکا ہے۔ انسان نے مشاہدات اور تجربات سے بے شمار ایجادات کیں جس سے انسان کو انگنت سہولیات میسر آئیں۔ معاشرے بدلتے رہے اور ان کے ساتھ نئی اقدار ، روایات پیدا ہوتی گئیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ اقدار ، روایات، قدریں، ادارے آخر بدلتے کیوں ہیں؟ کیا اس تبدیلی کے پس منظر میں انسانی ہمدردی ہوتی ہے ، اخلاقیات کا دخل ہوتا ہے؟ یا ان کاسبب مفادات اور بھی معاشی مفادات ہی ہوتا ہے؟ معاشی مفادات کی جنگ میں طاقتور انسان نے ہمیشہ کمزور کا استحصال کیا ہے ۔ حیوان چاہے کہیں بھی رہے مگر اس کے کچھ اصول، قانون اور دستور ہوتے ہیں ، طاقت سے راج کرنا ، کمزور کو انصاف سے محروم رکھنا انسانی سوچ کے مطابق جنگل کا قانون ہوتا ہے ۔ مگر آج تک کبھی کسی جنگلی جانور یا وحشی درندے نے کسی دوسرے کمزور جانور کو غلام بنا کرنہیں رکھا۔ انسان کو غلام بنانے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ…! اشرف المخلوقات کو غلام بنانے کا رواج صدیوں پرانا ہے اسے حکمران طبقوں نے مختلف ا وقات میں مذہبی، اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر جائز قرار بھی دیا۔ اسے ایک ایسی ضرورت قرار دیا جو معاشرہ کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری تھی۔ انسانی خریدو فروخت اور انسانی سمگلنگ کے دھندے نے غلامی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بد قسمتی سے اس کا شکار بہت سی بر گزیدہ ہستیاں بھی ہو چکی ہیں جن میں حضرت یوسف علیہ السلام بھی شامل ہیں جنہیں مصر کے بازار میں فروخت کیا گیا۔ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں میں غلامی کا رواج رہا ہے ، یہ غلام جنگ میں پکڑے جانے والے قیدی ہوتے تھے یا وہ لوگ جنہیں غلامی کا کاروبار کرنے والے دوسرے علاقوں سے اغوا یا زبردستی پکڑ کر فروخت کرتے تھے۔ان کے گاہکوں میں بادشاہوں سے لے کر امرا سبھی ہوا کرتے تھے جو غلاموں کو اپنے گھر یلو کاموں ، اپنے حفاظتی دستوں اور اپنے کارخانوں کے کام کے لیے استعمال کرتے تھے۔غلامی اور امپیریل ازم کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے جب بھی کوئی قوم متحد ہوئی اور اس نے کمزور ملکوں پر حملہ کرکے وہاں سے مال غنیمت لوٹنا شروع کر دیا جس میں سونا ، چاندی، سامان کے علاوہ انسان بھی بطور غلام لائے جاتے تھے۔جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے تھے ۔غلام عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد عام سی بات تھی۔اگرغلامی نہ ہوتی تو کسی یونانی ریاست کا وجود نہ ہوتا، نہ ہی یونانی آرٹ اور سائنس وجود میں آتے ۔ اگر غلامی نہیں ہوتی تو کوئی رومی ایمپائر تشکیل نہ پاتی، بغیر یونانی تہذیب اور رومی سلطنت کے جدید یورپ وجود میں نہ آتا۔برطانیہ کی زیر زمین ریلوے کا وجود بھی غلاموں کے خون پسینے کی مرہون منت ہے۔دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں اسلامی تہذیب میں غلاموں کے ساتھ اس قدر برا سلوک نہیں ہوا۔ خاص طور پر وہ غلام جو گھریلو کام کاج کرتے تھے وہ خاندان کا حصہ ہوتے تھے۔ عثمانی خاندان کے تمام بادشاہ یلدرم کے بعد سے کنیزوں کی اولاد تھے ۔ اسلامی معاشرے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں غلام حکمرانی تک بھی پہنچے۔ ہندوستان میں خاندان غلاماں اور مصر میں مملوک خاندان اس کی مثالیں ہیں۔فرانسیسی انقلاب کے دوران 1778ء میں انسانی حقوق کا اعلان ہوا جس میں تمام انسانوں کو برابری کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے بعد یورپ کے معاشروں میں جمہوری اقدار اور روایات کا فروغ ہوا۔اس فیصلے کے کے پیچھے غلاموں کی ایک طویل جدوجہد تھی۔ ظالم اور مظلوم کی جنگ میں بالآخر جیت مظلوم کی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس جدوجہد میں ایسے ادوار بھی آتے ہیں جو مایوسی اور نا امیدی پیدا کرتے ہیں مگر جدوجہد اور مزاحمت کے ذریعہ استحصال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ افراد اور لوگوں کی اجتماعی قربانیوں جو وہ آزادی اور حقوق کے لیے دیتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتیں۔آج دنیا میں غلام بنا کر رکھنے کا لائسنس بظاہر تو کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی قانونی طور پر جائز ہے مگر اس کے باوجود غلامی کا دھندا آج بھی عروج پر ہے۔ بڑے اور طاقتور ممالک کمزور ممالک کو بالواسطہ غلام بنائے ہوئے ہیں ، اس مقصد کے لیے ان پر اپنی مرضی کے حکمران مسلط کر دیتے ہیں ، ملک میں انتشار پھیلاکر خانہ جنگی کی فضا پیدا کی جاتی ہے یا دو ممالک کو پہلے آپس میں لڑوایا جاتا ہے جس میں اپنا اسلحہ بارود ان کو بیچا جاتا ہے بعد میں منصف بن کر وہاں آجانا ، نئے سرے سے آبادکاری اور نجکاری کے خود ہی ٹھیکیدار بن کر ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے جب کوئی شخص کسی جگہ اپنے آپ کو محفوظ نہ پائے ، اپنے اور اپنی نسل کے مستقبل کو محفوظ نہ سمجھے،جس کا محرک کوئی سیاسی بھی ہو سکتا ہے یا معاشی بھی ، تو انسان بہتر سے بہتر کی تلاش میں نقل مکانی ، جلا وطنی یا پردیس میں جہاں اسے اچھے مواقع ملنے کی توقع ہو جانے کی کوشش کرتا ہے۔ نقل مکانی کے لیے اکثر ان ممالک کے باشندے کرتے ہیں جہاں حالات سازگار نہیں ہیں۔ معاشی مجبوری میں انسان بعض اوقات اپنی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔بہتر مستقبل کی خواہش ہر انسان کا حق ہے اس کے حصول کے لیے انسان چھوٹے گاؤں سے قصبوں، شہروں یا بیرون ملک جانے کا فیصلہ بھی کر لیتا ہے ۔ اس کوشش میں بعض اوقات وہ ایسے لوگوں کے ہاتھ بھی لگ جاتے ہیں جن کاکام انسانوں کی خرید و فروخت ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top