انسانی زندگی میں اخلاق کا کردار

ایس ایم شاہ

محفلین
انسانی زندگی میں اخلاق کا کردار
تحریر: ایس ایم شاہ

عقیدہ، اخلاق اور احکام کے مجموعے کا نام دین ہے۔ عقیدہ انسانی دل سے مربوط ہے، اخلاق کا تعلق اس کے ضمیر سے اور احکام کا تعلق اس کے اعضاء و جوارح سے ہے۔ عقیدہ انسانی زندگی کو بامقصد بناتا ہے، اخلاق انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سنوارتا ہے اور احکام انسان کے اعضاء و جوارح کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ اخلاقیات میں سے اکثر کا تعلق کسی خاص مسلک و مذہب کے پیروکاروں سے نہیں بلکہ یہ ہر باضمیر انسان کو شامل ہے۔ جیسے عدل و انصاف ایک ایسی خصوصیت ہے کہ دنیا کے جس کونے میں جائے تو وہاں اسے اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے، احسان کرنا، غریبوں کی مدد کرنا، ہمسایوں سے نیک سلوک روا رکھنا، چھوٹے بڑے کے احترام کا پاس رکھنا اور حق گوئی سے کام لینے والے کو قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بااخلاق انسان ہمیشہ تواضع کو اپنی زندگی کا وطیرہ بناتا ہے، دوسروں کا احترام کرتا ہے، در نتیجہ وہ خود بھی لوگوں کے درمیان ہر دل عزیز بن جاتا ہے۔ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور پہلے سوچتا ہے، پھر بولتا ہے، اس کا لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا ہے۔

اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کے ذریعے کسی کی دل آزاری نہ ہو، تحمل مزاجی کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے، وہ ہمیشہ اپنے احباب کے بارے میں مثبت سوچتا ہے، کسی کے سامنے کسی کی برائی نہیں کرتا، کسی کی خوشامد کرنے کو وہ اپنے لیے بڑا عیب سمجھتا ہے، جھوٹ بولنے کو وہ اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا ہے، وہ ظلم اور ظالم دونوں سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم کی حمایت کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا ہے، خواہ اس کے نتیجے میں اسے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ اگر میں کسی کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کرسکوں تو کم از کم میرے ذریعے کسی کا نقصان بھی نہ ہو، سب سے کھلے چہرے کے ساتھ ملتا ہے، ہر اچھے کام میں وہ سبقت کرتا ہے اور اپنا حصہ سب سے پہلے ڈالتا ہے، وہ اس نیت سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے کہ اگر میں ٹھیک ہو جاؤں تو سارا معاشرہ سدھر جائے گا، کیونکہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اور اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائے تو معاشرہ خودبخود گلزار بن جائے گا۔

اخلاق کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ امام علیؑ نے فرمایا کہ اگر ہم بہشت کی توقع اور جہنم کا خوف بھی نہ رکھتے ہوتے، نہ ثواب کا عنصر پایا جاتا اور نہ عقاب کا، تب بھی عقلی اعتبار سے بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اخلاقی خصوصیات اور ایسی صفات کو اپنے اندر پیدا کریں کہ جو ہمارے لیے کرامت اور بزرگواری کا سبب ہیں؛ کیونکہ یہی وہ صفات ہیں کہ جو ہمیں کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اچھا اخلاق خدا کے قرب اور لوگوں کو اپنی طرف جذب کرنے کا موجب بنتا ہے اور انسان کو بامروت بناتا ہے۔ خوش اخلاقی سے سرشار زندگی سے لذیذ کوئی زندگی نہیں۔ آپؑ نے حضورؐ سے نقل کیا ہے کہ میزان اعمال میں سب سے وزنی چیز اچھا اخلاق ہے۔ حضورؐ کے ارشاد کے مطابق سب سے زیادہ جنت میں جانے والے سب سے باتقویٰ اور سب سے بااخلاق افراد ہی ہیں۔ امام حسنؑ نے فرمایا کہ بہترین نیکی اچھا اخلاق ہے۔

امام حسینؑ نے فرمایا: ہر اس کام سے اجتناب کیا کرو کہ جس کو انجام دینے کے بعد معذرت خواہی کی نوبت آجائے، کیونکہ مؤمن نہ برا کام انجام دیتا ہے اور نہ ہی عذر خواہی کرتا ہے، جبکہ منافق ہر روز برا کام بھی انجام دیتا ہے اور معذرت خواہی بھی کرتا رہتا ہے۔ امام سجادؑ کے گوہر بار کلمات کے مطابق مسلمان کے لیے دین کی معرفت اور کمال بے جا باتیں کرنے سے اجتناب کرنے، ریاکاری سے احتراز کرنے، بردباری کو اپنا شیوہ قرار دینے، مشکلات میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور اچھے اخلاق و نیک سیرت کا حامل ہونے میں ہے۔ مؤمن کی نجات تین چیزوں میں ہے، لوگوں کے بارے میں اور ان کی غیبت سے اپنی زبان کو بچائے رکھنا، ایسے کاموں میں مصروف رہنا جو اپنی دنیا و آخرت کے لیے مفید ہوں اور اپنی کوتاہیوں پر زیادہ گریاں ہونا۔ امام محمد باقرؑ کا فرمان ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپؐ نے فرمایا: اپنے دوست سے کھلے چہرے اور خوش اخلاقی کے ساتھ ملاقات کیا کرو!۔

امام صادقؑ سے جب اخلاقی کمالات کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا: جس نے تم پر ظلم کیا ہے، اسے معاف کیا کرو، جس نے تم سے ناطہ توڑ دیا ہے، اس سے رابطہ برقرار کرو، جس نے تمہیں کسی چیز سے محروم رکھا ہے، اسے تم عطا کیا کرو اور حق بات کہنے کو اپنا شیوہ بناؤ، اگرچہ یہ تمہارے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو۔ سب سے زیادہ بااخلاق انسان سب سے زیادہ عاقل اور سب سے زیادہ باایمان ہوتا ہے۔ صبر، اچھائی، بردباری اور اچھا اخلاق انبیائے کرام کے اخلاق میں سے ہے۔ اچھا اخلاق انسان کی رزق و روزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اچھا کام اور اچھے اخلاق سے گھر آباد اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ امام کاظمؑ کے ارشادات کے مطابق بدترین فرد وہ شخص ہے، جس کے دو چہرے اور دو زبان ہوں۔ حضرت علیؑ کا شیعہ وہ ہے کہ جس کا کام اس کی بات کی تصدیق کرے۔ جن کے دلوں میں گناہوں کا خوف پایا جاتا ہو، امانت کو ادا کرتا ہو اور حق بات کرتا ہو تو رحمت و برکت الہیٰ ایسے لوگوں کے شامل حال رہتی ہے۔

امانت کی ادائیگی اور حق گوئی رزق کو کھینچ لاتی ہے، جبکہ جھوٹ اور خیانت رزق کو دور کر دیتی ہے اور نفاق ایجاد کرتی ہے۔ جس کی زبان سچی ہو تو اس کا عمل پاک ہوتا ہے، جس کی سوچ اور نیت صاف ہو تو اس کی روزی میں اضافہ ہوگا، جو بھی دوستوں اور جاننے والوں پر احسان کرے گا تو اس کی عمر بڑھ جائے گی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: مؤمن اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک اس میں تین خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں: ایک خصلت خدا کی خصلت ہے اور وہ راز داری ہے، دوسری خصلت رسولؐ کی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر مروت کے ساتھ زندگی گزارنا ہے اور ایک خصلت جو امام سے اخذ کرنی چاہیے، وہ صبر و بردباری ہے۔ امام محمد تقیؑ کا ارشاد ہے: اچھی خصلتوں سے آراستہ ہونا اور بری خصلتوں سے عاری ہونا ہی حقیقی ادب ہے، ادب کے ذریعے ہی شخص دنیا اور آخرت دونوں میں اخلاقی کمالات تک رسائی پاتا ہے اور ادب کی رعایت کے ذریعے ہی وہ بہشت تک جاپہنچتا ہے۔ امام علی نقیؑ نے فرمایا: حسد اچھے اعمال کے ثواب اور ارزش کو ختم کر دیتا ہے، تکبر اور خود خواہی لوگوں کو اس کا دشمن بنا دیتی ہے، عجب اور خود بینی حصول علم کی راہ میں رکاوٹ ہے، در نتیجہ یہ انسان کو پستی اور جہالت کی طرف دھکیل دیتی ہے، بخیل ہونا بدترین اخلاق ہے اور لالچی ہونا ایک نفرت انگیز اور ناپسند عادت ہے۔

امام حسن العسکریؑ نے ارشاد فرمایا: تواضع ایک ایسی نعمت ہے کہ جو دوسروں کے حسد کا سبب قرار نہیں پاتا۔ امام مہدیؑ نے فرمایا: جو بھی ان چیزوں کو جسے خدا نے اسے عطا کیا ہے اور جن پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے، اگر اس سے بخل کرے تو ایسا شخص دنیا و آخرت دونوں میں خسارے میں ہوگا۔" غرض کمالات اخلاقی سے ہمکنار ہونا انسانی زندگی کو سنوارنے کا موجب ہے، جبکہ رزائل اخلاقی سے آلودہ ہونا انسان کی ہلاکت کا سبب ہے۔ اچھے اخلاق کے فوائد سے انسان دنیا میں بھی مستفید ہوتا ہے اور اس کی اخروی و ابدی زندگی بھی سدھر جاتی ہے، جبکہ برے اخلاق کا حامل شخص دنیا میں بھی ذلت و خواری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ لہذا جو بہترین دنیوی زندگی گزارنے کا آرزومند ہو، اسے اپنی بری عادات کو اچھی عادتوں میں تبدیل کرنا ہوگا اور جو مختلف اور متنوع نعمتوں سے سرشار اخروی زندگی گزارنے کی حسرت دل میں لیے ہوئے ہو تو اسے بھی اپنے اخلاق و عادات کو سدھارنا ہوگا۔ بنابریں بہترین انسان بااخلاق انسان اور بہترین زندگی بااخلاق شخص کی زندگی ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی کنجی بااخلاق زندگی گزارنا ہے۔
 
Top