اندیشہ ہائے دور دراز

ضیاء حیدری

محفلین
اندیشہ ہائے دور دراز
آپ پوچھ سکتے ہو کہ اندیشہ ہائے دور دراز کے معنی کیا ہیں اور کیا اندیشہ کے ساتھ ہائے ہائے کرنا ضروری ہے، بعض اندیشوں کیساتھ ہائے ہائے کرنا ضروری ہوجاتا ہے، جیسا کہ منٹو کے ساتھ ہوا،
یہ ۱۹۴۱ کی بات ہے منٹو ریڈیو میں کام کرتے تھے وہ ابھی فلمی دنیا سے وابستہ نہ ہوئے تھے کہ انھیں غالب پر فلم بنانے کا خیال آیا، تو لگے کھنگالنے غالب کی سوانح کو، نھیں کہیں غالب کے ایک خط میں 'ستم پیشہ ڈومنی' کا فقرہ نظر آ گیا، بس پھر کیا تھا منٹو نے ایک طوائف موتی بیگم عرف چودھویں بیگم کے کردار میں فلم کی کہانی میں پیش کیا جو غالب کی شاعری کی شیدا تھی، بس اتنی سی بات جسے منٹو جیسے قلمار نے فلمی کہانی کا روپ دیا فلم بھی بنی اور اس کو ایوارڈ بھی ملا۔
حالانکہ غالب اور ڈومنی کا قصہ بہت مشکوک ہے۔ صرف ایک خط میں ایک جملہ تھا ۔ "عمر بھر میں ایک ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے" ۔اس خط کے علاوہ اس بات کا کہیں اور یہ ذکر نہیں ملتا ہے، باقی ساری کہانی، بمبئی کی بولی مین کہوں تو منٹو کے دماغ کی بتی کی اختراع ہے۔
بہت سے اندیشے ہم اپنے دماغ کی بتی میں روشن کرتے رہتے ہیں اور انجانے خوف پالتے رہتے ہیں، ایسا ہی خوف ماں باپ اولاد کے جوان ہونے پر پالتے ہیں اور اس اندیشے میں مبتلا رہتے ہیں کہ لونڈا وہ تمام کارنامے کر گذرے گا، جن کی چاہت ہمیں جوانی میں پیدا ہوتی تھی مگر زمانے کے خوف سے کر نہیں سکے تھے۔
اولاد کی تربیت بجا ہے، ان کے دل میں خوف خدا پیدا کیجئے، اچھے برے کی تمیز پیدا کیجئے، لیکن کسی اندیشہ ہائے دوردراز کے خوف سے ان کی زندگی اجیرن نہ کیجئے۔۔
 
Top