اندیشہ از کفیل آذر

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو
جگمگاتے ہوئے لمحوں سے گریزاں کیوں ہو

انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف
اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف

چوڑیوں پر بھی کئی طنز کیے جائیں گے
کانپتے ہاتھوں پہ بھی فقرے کسے جائیں گے

پھر کہیں گے کہ ہنسی میں بھی خفا ہوتی ہیں
اب تو روحیؔ کی نمازیں بھی قضا ہوتی ہیں

لوگ ظالم ہیں ہر اک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں مرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ذرا سا بھی اثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تأثر سے سمجھ جائیں گے

چاہے کچھ بھی ہو سوالات نہ کرنا ان سے
میرے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان سے

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
 

سیما علی

لائبریرین
دوبارہ شئیر کرنے کا دل چاہ رہا ہے
کفیل آزر کی پُوری نظم
"اندیشہ"

بات نکلے گی تو پھر , دُور تلک جائے گی
لوگ بے وجہ اُداسی کا , سبب پُوچھیں گے

یہ بھی پُوچھیں گے کہ ، تم اتنی پریشاں کیوں ھو؟؟
جگمگاتے ھُوئے لمحوں سے ، گریزاں کیوں ھو ؟؟

اُنگلیاں اُٹھیں گی ، سُوکھے ھُوئے بالوں کی طرف
اِک نظر دیکھیں گے ، گزرے ھُوئے سالوں کی طرف

چُوڑیوں پر بھی ، کئی طنز کیے جائیں گے
کانپتے ھاتھوں پہ بھی ، فقرے کَسے جائیں گے۔

پھر کہیں گے کہ ، ھنسی میں بھی خفا ھوتی ھیں
اب تو روحیؔ کی نمازیں بھی قضا ھوتی ھیں

لوگ ظالم ھیں ، ھر اِک بات کا طعنہ دیں گے
باتوں باتوں میں ، میرا ذکر بھی لے آئیں گے

ان کی باتوں کا ، ذرا سا بھی اَثر مت لینا
ورنہ چہرے کے تأثر سے ، سَمجھ جائیں گے

چاھے کچھ بھی ھو ، سوالات نہ کرنا اُن سے
میرے بارے میں ، کوئی بات نہ کرنا اُن سے۔

بات نکلے گی تو پھر ، دُور تلک جائے گی
 
Top