انتخاب ندا فاضلی

الف عین

لائبریرین
بینچ اور گوک

چوراہے پر شریر سی ہوٹل کی ایک بینچ
ہر وقت کھوئ کھوئ سی رہتی ہے ان دنوں
خاموش داستان سی کہتی ہے ان دنوں
گانے پہ فلم کے نہ بجاتی ہیں سیٹیاں
تختے پہ میز کے نہ چلاتی ہیں انگلیاں
ہوٹل کے سامنے کی شفق رنگ "گوک" کو
کچھ دیر بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں ہے اب
چوراہا دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اب
شاید اکیلا کمرہ پھر آباد ہو گیا
بانہوں میں بانہیں ڈال کے رومان سو گیا

چوراہے پر شریر سی ہوٹل کی ایک بینچ
ہر وقت کھوئی کھوئی سی رہتی ہے ان دنوں
 

الف عین

لائبریرین
کبھی کبھی۔۔۔۔

کبھی کبھی مرا جی چاہتا ہے تم گھر میں
کسی بہن کی طرح بھاگو، چھیڑ چھاڑ کرو
بنا کہے میری میلی قمیص کو دھو دو
میں کوئ بات کہوں تو خفا نہ ہو، رو دو
کبھی کبھی مرا جی چاہتا ہے تم مجھ سے
ملو تو روز مگر روز اجنبی سی لگو
کبھی گھٹاؤں سی چھاؤ، کبھی ندی سی بہو
کبھی بدن سے نکل آؤ روشنی سے ملو
سنا تو میں نے یہی ہے، بہت حسیں ہو تم
نہ جانے کون ہو تم ہو بھی یا نہیں ہو تم
 

الف عین

لائبریرین
بوجھ

میرے بکھرے بالوں پر اور بھی تو ہنستے ہیں
میری خستہ حالی پر قہقہے لگاتے ہیں
میری ہر تباہی پر حاشئے چڑھاتے ہیں
اب تو جو بھی ملتے ہیں اجنبی سے ملتے ہیں
آنکھیں کھوئ رہتی ہیں، صرف ہونٹ ہلتے ہیں
صرف ایک تم اتنے کیوں خموش رہتے ہو
میری تلخ باتوں کو ہنس کے ٹال دیتے ہو
میں جہاں نظر آؤں، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہو
جان بوجھ کر میں نے کپ کو نیچے پھینکا ہے
بے سب ہی شبنم کو مار کر رلایا ہے
پین کے نئے نِب کو میز پر چلایا ہے
کیوں خفا نہیں ہوتے، کیوں بگڑ نہیں جاتے
کس لئے بھلا مجھ سے اب جھگڑ نہیں پاتے
ٹیڑھی میڑھی نظروں سے گھور کر جدا ہو جاؤ
دوست چند لمحوں کو آج پھر خفا ہو جاؤ
اور بھی تو ہنستے ہیں۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پنجرے کا پنچھی

اب کسی بات پہ غصّہ نہیں آتا اس کو
ہر کسی بات پہ سر ہنس کے جھکا دیتی ہے
بیچ ناول میں بھی بجلی کو بجھا دیتی ہے
اب بڑے شوق سے کتی ہے صفائ گھر کی
چھوٹی بہنوں سے خفا یو کے جھگڑتی بھی نہیں
پیٹھ پر چڑھتا ہے پپّو تو بگڑتی بھی نہیں
اب نہیں ہوتا کبھی تیش نمک سالن میں
روٹیاں چان کی ماند اتر آتی ہیں
چمنیاں وقت سے پہلے ہی سنور جاتی ہیں
تنگ پنجرے کی سلاخوں سے الجھتا پنچھی
صرف پھولوں کی مہک سے بھی بہل جاتا ہے
یہ بھی کیا کم ہے کسی اجنبی سگرٹ کا دھواں
بند دروازوں کی جھریوں سے نکل آتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
رباعی


مہندی لگے ہاتھوں میں توے کی کالونچ
آنکھوں کے ہرن قید سے گھبراتے ہیں
روتے ہوئے بچّے کی صدا آتے ہی
چولی کے کي ٹانکے ادھڑ جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
سنا ہے میں نے۔۔۔


سنا ہے میں نے کئ دن سے تم پریشاں ہو
کسی خیال میں ہر وقت کھوئ رہتی ہو
گلی کے موڑ تلک جا کے لوٹ آتی ہو
کہیں کی چیزش کہیں رکھ کے بھول جاتی ہو
مسالہ پیس کے سل یوں ہی چھوڑ دیتی ہو
نصیحتوں سے خفا، مشوروں سے الجھن سی
کمر میں درد کی لہریں، رگوں میں اینٹھن سی
یقین جانو بہت دور بھی نہیں وہ گھڑی
ہر اک فسانے کا عنواں بدل چکا ہوگا
مرے پلنگ کی چوڑائی گھٹ چکی ہوگی
تمھارے جسم کا سورج پگھل چکا ہوگا
سنا ہے میں نے کئ دن سے تم پریشاں ہو
 

الف عین

لائبریرین
نظم

مرے ورانڈے کے آگے یہ پھوس کا چھپّر
گلی کے موڑ پہ اکھڑا ہوا سا اک پتھّر
یہ ایک جھکتی ہوئ بدنما سی نیم کی شاخ
اور اس پہ جنگلی کبوتر کے گھونسلے کا نشاں
یہ ساری چیزیں کہ جیسے مجھی میں شامل ہیں
مرے الم میں، مری ہر خوشی میں شامل ہیں
 

الف عین

لائبریرین
پگھلتا دھواں


دور شاداب پہاڑی پہ بنا اک بنگلہ
لال کھپریلوں پہ پھیلی ہوئ انگور کی بیل
صحن میں بکھرے ہوئے مٹّی کے راجہ رانی
منہہ چڑاتی ہوئ بچّوں کو کوئ دیوانی
سیب کے اجلے درختوں کی گھنی چھاؤں میں
پاؤں ڈالے ہوئے تالاب میں کوئ لڑکی
گورے ہاتھوں میں سجائے ہوئے تکیے کا غلاف
ان کہی باتوں کو دھاگے سے سئے جاتی ہے
دل کے جذبات کا اظہار کئے جاتی ہے
اک سلگتی ہوئ سگریٹ کا بل کھاتا دھواں
پھیلتا جاتا ہے ہر سمت مرے کمرے میں
گرم چوملھے کے قریں بیٹھی ہوئ اک عورت
ایک پیوند لگی ساڑی میں تن کو ڈھانپے
دھندلی آنکھوں سے مری اور تکے جاتی ہے
مجھ کو آواز پہ آواز دئے جاتی ہے
اور میں سوچ رہا ہوں کہ یہ نل کھاتا دھواں
جو بڑی تیزی سے موکھے سے بیا جاتا ہے
'کیوں مری ماں کی صداؤں سے پگھل جاتا ہے
کیوں؟؟
 
Top