اسکین دستیاب انتخاب محمد علی ردولوی

جاسمن

لائبریرین
Screenshot-20250702-221058.png
 

جاسمن

لائبریرین
381
دھوکا
ناجو غریب کا بچہ تھی مگر پیدائش اچھی ہونے کی وجہ سے اپنی ساتھ والیوں سے بڑی معلوم ہوتی تھی۔ کیا کھایا کیا پیا مگر ہاتھ پاؤں ایسے تھے کہ دیکھنے والا جانے کہ دودھ ملیدے ہی پر پلی ہے۔ صورت پر بھی وہ شان تھی کہ شاہزادیاں شرما جائیں۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ جوانی پر آ کر اگر تاج پہن لے گی تو بے جوڑ نہ لگے گا۔
کھیت میں لکڑی اور گھر میں لڑکی کی باڑھ مشہور ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑی سی ہو گئی۔ سات ہی آٹھ برس کے سن میں یہ حال تھا کہ ماں کے پہلو میں بیٹھتی تو آدھی بی بی معلوم ہوتی تھی۔ باپ ناظمہ کہتے تھے ماں جب تک جیئیں ناجو ہی پکارا کیں۔ گیارھواں برس رہا ہو گا کہ باڑھ پر آ گئی۔ بارھویں برس بھرنا شروع ہوئی۔ تیرھویں برس ایسی ہو گئی کہ ماں باپ سے نگاہ بھر کے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ ماں کو بیاہ کی فکر پڑ گئی۔ اس زمانے میں بر بڑی بڑی امیر زادیوں کو نہیں جڑتا غریب کس کھیت کی مولی ہے۔ یہ جوانی یہ خوب صورتی دیکھ کر ماں باپ کی چھاتی پہاڑ ہو جاتی مگر یہاں نگاہ بھر کے دیکھنا مشکل تھا۔باپ صرف اچٹتی نظر ڈالتے تھے ماں کہتی تھی دیکھتے ہو اب کیا کسر ہے۔ کچھ نسبت کی بھی فکر کرو گے کہ یہ کالا پہاڑ یوں چھاتی پر رکھا رہے گا۔
دیوانی عدالت کے منصرم صاحب کی دوسری بیوی کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ ہمدردوں نے جوڑ توڑ ملا کر شادی کرا ہی دی۔
منصرم صاحب کا سن چالیس کے لگ بھگ رہا ہو گا۔ چالیس بیالیس کا مرد بڈھا نہیں کہا جاتا۔ ان کی لاٹھی بھی اچھی تھی مگر پندرہ اور بیالیس میں اچھا خاصہ فرق ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ناجو نے ہم جولیوں میں بھی بیٹھ کر کبھی اپنے سن کی ایسی باتیں نہیں کیں۔ ہمیشہ بھاری بھرکم اپنے کو لیے دیے رہیں۔ سولہ برس کے سن میں بھی مزاج اور حوصلہ ۶۱ برس والی کا ایسا رہا۔
ایک بڑے بدصورت ادھیڑ میاں اور ایک خوب صورت کم سن بی بی راستے میں چلے جاتے تھے۔ بی بی نے کتّے کی ایک جوڑی دیکھی جو دونوں ایک ہی طرح کے تھے۔ میاں سے کہنے لگیں ایسا جوڑ ملتے بھی کم دیکھا ہو گا۔ انھوں نے جواب دیا ساتھ رہتے رہتے پہلے خیالات اور پھر صورت ملنے جلنے لگتی ہے۔ بی بی کا کی دھک سے ہو گیا کہنے لگیں میری جان کیا ہمیشہ یہی ہوتا ہے؟
منصرم صاحب شریف خصلت نیک نام آدمی مشہور تھے۔ گھر کے بھی خوش حال کہے
 
Top