انتخابی اصلاحات!

arifkarim

معطل
نوٹ: یہ دھاگہ سیاست پر مبنی نہیں اسلئے اسے مختلف سیاسی جماعتوں کا اکھاڑا ہرگز نہ بنایا جائے۔ اس دھاگے کا مقصد دنیا بھر میں رائج دو بڑے انتخابی نظاموں کا تقابلی جائزہ پیش کرنا ہے۔
شروعات: مجھے کسی بھی ملک کے عام انتخابات سے بالکل کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ میرے خیال میں یہ ہر 4 یا 5 سال بعد لگنے والا ٹوپی ڈرامہ محض عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے رچایا جاتا ہے۔ جبکہ اصل قومی فیصلے ملکوں کی اشرافیہ کرتی ہے۔ بہرحال سنہ 2013 میں ہونے والے پاکستانی عام انتخابات کے نتائج نے کسی قدر متاثر کیا اور عوامی طاقت کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اسکے بعد جو ہوا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
حالیہ: سنہ 2015 میں ہونے برطانوی عام انتخابات میں جو نتائج سامنے آئے ، انہیں دیکھتے ہوئے مزید تجسس بڑھا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ ایک مقبول اور ابھرتی ہوئی پارٹی واضح ووٹ بینک لینے کے باوجود اپنے جائز انتخابی تناسب کے مطابق قومی مینڈیٹ سے محروم رہ جاتی ہے؟ کافی غور و فکر کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہاں تو ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے۔ مسئلہ دراصل ووٹرز میں نہیں بلکہ رائج العام انتخابی نظام کی ساخت میں ہے جس ہم First-past-the-post voting کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت کسی حلقہ یا علاقہ میں اکثریتی ووٹ لینے والا، دوم یا سوم آنے والے امیدواروں کےووٹس کو رد کر سکتا ہے۔
اس انتخابی نظام کی شروعات کئی سو سال قبل سلطنت برطانیہ میں ویسٹ منسٹر جمہوری نظام کے ظہور کیساتھ ہوئیں تھی جب کسی علاقے کی نمائندگی کیلئے امیدوار کو کسی پارٹی سے وابستگی کی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ یوں اگر ایک حلقے میں 10،000 ووٹرز ہیں تو 5001ووٹ لینے والا امید وار جیت جائے گا جبکہ4999 ووٹ لینے والا ناکام۔ البتہ آنے والے وقتوں میں مختلف مذہبی، سیاسی، مقامی جماعتوں کے ظہور کے بعد یہی نظام عجیب و غریب منظر پیش کر نے لگا۔
مثال کے طور پر حالیہ برطانوی عام انتخابات میں یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی (UKIP) نے ملکی سطح پر کُل 12،6 فیصد ووٹ حاصل کئے پر انہیں 650 سیٹوں کی پارلیمنٹ میں محض 1 نشست ہی نصیب ہوئی۔ جبکہ اسکے برعکس اسکاٹش نیشنل پارٹی (SNP) کو 4،7 فیصد کُل ووٹس کے عوض 56 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی:
b433.gif

اس حددرجہ کی ناانصافی کے پیچھے وہی محرکات ہیں جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں کہ کُل نسبتی ووٹوں کی تعداد کے مطابق پارٹی نشستوں کی تقسیم کی بجائے حلقہ وار بنیادوں پر اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے پارلیمنٹ میں منتخب ہو رہے ہیں۔ یہ انتخابی نظام آزاد امیدواروں کی حد تک تو ٹھیک ہے پر مختلف پارٹیوں کی موجودگی میں اور انسے وابستگی کے بعد بالکل غیر منصفانہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا نتائج کو کُل ووٹوں کے تناسب سے تقسیم کیا جائے تو پارٹی نشستوں کا تعین ایسے ہوگا:
b434.gif

یعنی UKIP ایک سیٹ سے بڑھ کر 82 سیٹوں پر جبکہ SNP چھپن سیٹوں سے گر کر 32 سیٹوں پر آ جائے گی۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کی نشستوں میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
یاد رہے کہ اس غیر منصفانہ انتخابی نظام کی وجہ سے عام عوام میں انتخاباتی شمولیت کے رجحان میں واضح کمی واقع ہوئی ہے بنسبت ان ممالک کے جہاں پارلیمنٹ میں نشستوں کا تعین کُل ووٹوں کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ یہ اسلئے کیونکہ حالیہ انتخابی نظام کے مطابق کسی حلقہ میں اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا دوم و سوم آنے والے امیدوار وں کے ووٹس کی نفی کر دیتا ہے۔ یوں ملکی سطح پر انتخابی نتائج اخذ کرتے وقت ان عوامی رائے دہندگان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جنہوں نے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والے امید وار کے علاوہ کسی اور کو ووٹ ڈالا ہو، بیشک انکی تعداد کروڑوں ہی میں کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں سنہ 2005 کے عام انتخابات میں 50 فیصد سے زائد ٹوٹل ووٹ صرف اسلئے ضائع ہو گیا کہ اس سے انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا !
اختتام: ان تمام حقائق کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ گو منصفانہ انتخابی نظام رائج کر دینے سے کسی بھی ملک کی جمہوریت از خود مضبوط نہیں ہو جاتی البتہ یہ بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ دنیا کی 6 بہترین جمہوریتوں میں نسبتی نمائندگی (Proportional representation) پر مبنی انتخابی نظام رائج ہے:
b435.gif

یوں جو احباب فرسودہ جمہوریتوں جیسا کہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے خواہوں وہ ادھر ادھر جھک مارنے کی بجائے مندرجہ بالا مضمون پڑھ لیں :)
حوالہ جات:
http://www.bbc.com/news/election/2015/results
http://www.telegraph.co.uk/news/gen...ens-our-electoral-system-is-robbing-them.html
http://www.telegraph.co.uk/news/gen...g/11593854/Votes-Per-Seat-for-each-party.html
http://en.wikipedia.org/wiki/Proportional_representation
http://en.wikipedia.org/wiki/First-past-the-post_voting
http://en.wikipedia.org/wiki/Democracy_Index

عبدالقیوم چوہدری لئیق احمد زیک فاتح حمیر یوسف محمداحمد
 
مدیر کی آخری تدوین:
متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم بلاشبہ ایک اچھا آئڈیا ہے لیکن زہن میں سوال یہ آتا ہے کہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کر دی جائیں گی تو ایک مخصوص حلقے کے عوام کی نمائندگی کیسے بہتر طریقے سے ہوگی؟
 
نسبت تناسب سے سیٹوں کی تقسیم مناسب ہے۔ لیکن ہمارے سماجی نظام میں موجود کرپشن کی وجہ سے اس میں بھی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ فی الحال صرف ایک کا ذکر کر رہا ہوں۔

فی الوقت ٹکٹوں کی تقسیم پر ہر 'پرائیویٹ لمیٹڈ' امیدواروں سے ناجانے کتنا پیسہ پارٹی فنڈ کے نام پر بٹورتی ہے۔ جب 100 یا اس سے زائد سیٹیں تھال میں نظر آئیں گی تو پھر ممبر بننے کے لیے کیا ہی شاندار لین دین ہوا کرے گا۔ سوچیے ذرا۔ پھر شاید سب ہی اعظم سواتی کی طرح کے لوگ اسمبلیوں میں ہوں گے۔۔۔۔۔ کہ جنھیں اپنے محلے میں کوئی نہیں جانتا ہوتا اور وہ راتوں رات کونسلروں کی دو دو لاکھ کی بولی لگا کر ضلع ناظم بن جاتے ہے۔
متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم بلاشبہ ایک اچھا آئڈیا ہے لیکن زہن میں سوال یہ آتا ہے کہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کر دی جائیں گی تو ایک مخصوص حلقے کے عوام کی نمائندگی کیسے بہتر طریقے سے ہوگی؟
صوبائی یا ضلعی اسمبلیاں اپنے حلقوں کی نمائندگی زیادہ بہتر کر سکتی ہیں۔ ویسے بھی وفاق کے دونوں بڑے ادارے قانون ساز کہلاتے ہیں،ان کا کسی حلقے کی سیاست یا نمائندگی سے کوئی تعلق ہونا بھی نہیں چاہیے۔ قانون ساز اسمبلی کے رکن کا کام یہ نہیں کہ وہ سالانہ کی بنیاد پر کروڑوں کے فنڈ حاصل کرے اور اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کروائے۔ جو کام ترقی یافتہ ممالک میں بلدیہ کر رہی ہوتی ہے وہ ہمارے ایم این ایز کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی جمہوریت کی بلے بلے :dancing:
عجیب ہی طرز ہے ہماری سیاست کی۔
 

arifkarim

معطل
متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم بلاشبہ ایک اچھا آئڈیا ہے لیکن زہن میں سوال یہ آتا ہے کہ اگر متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نشستیں تقسیم کر دی جائیں گی تو ایک مخصوص حلقے کے عوام کی نمائندگی کیسے بہتر طریقے سے ہوگی؟
اسکا حل اسکینڈینیوین ممالک اور سوئٹزرلینڈ نے Two-Tier انتخابی عمل کے ذریعہ نکال لیا ہے۔ یہاں اس مسئلہ کو ایسے حل کیا جاتا ہے کہ ضلع اور بلدیہ کی سطح پر ہر رائے دہندہ کے پاس ووٹنگ کیلئے دو انتخاب ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو پارٹی لسٹ کو ووٹ دے نہیں تو اپنے من پسند امیدوار کو۔ یہاں تک کہ اپنے ناپسندیدہ امیدواروں کو بیلٹ پیپرز پر کاٹے کا نشان لگا کر احتجاج ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی موجود ہے۔ یوں انتخابی عمل سے گزرنے کے بعد پارٹی سربراہان کو اپنے مقبول ترین اور بدنام زمانہ ٹکٹ ہولڈرز کی عوام میں مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
میں نے خود 2007 کے بلدیاتی انتخابات میں ایک پاکستانی نژاد مگر کرپٹ امیدوار پہ کاٹا مارا تھا البتہ ووٹ اسی جماعت کو دیا تھا کیونکہ مجھے انکی جماعت تو پسند تھی پر انکا حمایت یافتہ ٹکٹ ہولڈر نہیں۔ یہاں معمول ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران ہر حلقہ میں ایک سے زائد امیدوار کھڑے کرتی ہے تاکہ ناپسندیدہ امیدوار کو عوام خود ہی رد کر کے اپنے من پسند کو ووٹ دے اور اگر پارٹی لسٹ میں سے کوئی بھی امیدوار پسند نہ آئے تو تمام امیدواروں پر کاٹے مار کر پارٹی لسٹ پر بلینک ووٹ دے دے۔ یوں اسکا ووٹ بھی رجسٹر ہو جائے گا اور اپنی من پسند پارٹی کیخلاف احتجاج بھی۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ یہ انتخابی نظام یہاں کئی دہائیوں سے رائج ہے اور غیر متنازع طور بہترین کام کر رہا ہے :)
http://en.wikipedia.org/wiki/Proportional_representation#Two_tier_systems

فی الوقت ٹکٹوں کی تقسیم پر ہر 'پرائیویٹ لمیٹڈ' امیدواروں سے ناجانے کتنا پیسہ پارٹی فنڈ کے نام پر بٹورتی ہے۔ جب 100 یا اس سے زائد سیٹیں تھال میں نظر آئیں گی تو پھر ممبر بننے کے لیے کیا ہی شاندار لین دین ہوا کرے گا۔ سوچیے ذرا۔ پھر شاید سب ہی اعظم سواتی کی طرح کے لوگ اسمبلیوں میں ہوں گے۔۔۔۔۔ کہ جنھیں اپنے محلے میں کوئی نہیں جانتا ہوتا اور وہ راتوں رات کونسلروں کی دو دو لاکھ کی بولی لگا کر ضلع ناظم بن جاتے ہے۔
اسکا حل میں نے اوپر تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ ووٹرز کو ناپسندیدہ امیدواروں کے نام بیلٹ پیپرز پر کاٹنے کا پورا اختیار دینا چاہئے نیز اپنے پسندیدہ امیدواروں کی نمبرداری کا حق بھی حاصل ہونا چاہئے۔ اور یہی مغربی جمہوریت کا حسن ہے کہ عوام خود اپنے پسندیدہ نمائندگان کا چناؤ کرے نہ کہ پارٹی لیڈرشپ۔ غالباً بھارتی فلم 'بھوت نات 2" میں اسکا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ اسویڈن میں جب ووٹرز کو اپنی من پسند پارٹی کی انتخابی لسٹ میں موجود امیدوار پسند نہیں آتے تو وہ احتجاجاً مکی ماؤس یا ڈونلڈ ڈک کارٹونز کوووٹ دے آتے ہیں :)

صوبائی یا ضلعی اسمبلیاں اپنے حلقوں کی نمائندگی زیادہ بہتر کر سکتی ہیں۔ ویسے بھی وفاق کے دونوں بڑے ادارے قانون ساز کہلاتے ہیں،ان کا کسی حلقے کی سیاست یا نمائندگی سے کوئی تعلق ہونا بھی نہیں چاہیے۔ قانون ساز اسمبلی کے رکن کا کام یہ نہیں کہ وہ سالانہ کی بنیاد پر کروڑوں کے فنڈ حاصل کرے اور اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کروائے۔ جو کام ترقی یافتہ ممالک میں بلدیہ کر رہی ہوتی ہے وہ ہمارے ایم این ایز کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی جمہوریت کی بلے بلے :dancing:
واقعی۔ آپ کا اس سلسلہ میں مطالعہ مجھے سے کہیں وسیع ہے۔ کیا آپ کھوج کر کے یہ پتا لگا سکتے ہیں کہ اس برصغیری روایت کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ :)
یہاں مغرب میں تو ایم این ایز کو پارلیمان تک محدود کر دیا جاتا ہے پر انکو ٹھیک ٹھاک سرکاری خزانہ سے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے تاکہ وہ دیگر انتظامی امور جیسے بلدیاتی نظام میں مداخلت نہ کریں :)

عجیب ہی طرز ہے ہماری سیاست کی۔
اسے آپ سیاست نہ کہیں۔ یہ تو سراسر قومی وسائل کا استحصال ہے۔
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
ویسے یہاں الیکشن کے نام پرزیادہ تر "سلیکشن" ہورہی ہوتی ہے۔ خود جماعتوں کے اندر بھی اسی امیدوار کو کوئی بھی پارٹی کھڑا کرتی ہے جو انکی مالی ڈیمانڈ پورا کرے، اس سے پارٹی باقاعدہ کھڑے ہونے کے نام پر رقم طلب بھی کرتی ہے۔ تو جو امیدوار زیادہ "تگڑا" ہوتا ہے، انتخابات میں وہی پارٹی کی طرف سے انتخابات لڑنے کا حقدار ہوتا ہے۔ اور اپنا جو مال اس نے الیکشن میں خرچ کیا ہوتا ہے، اسکو جیت جانے کی صورت میں اسمبلی جاکر مال بٹورنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بلکہ پرافٹ کے ساتھ :D
 
Top