انتخابِ کلام شفیع حیدر دانش

ماظق

محفلین
کبھی روشنی اور کبھی تیرگی ہے
عجب روپ دھارے میری زندگی ہے

نہیں ماہ و گُل کا سنورنا ضروری
کشش ہےکسی میں تو وہ سادگی ہے

پتہ دے گئی وہ تری شوخیوں کا
قبائے گُلستاں میں جو تازگی ہے

کبھی ابرِ شوقِ گریزاں ہی برسے
تری چاہتوں میں بڑی تشنگی ہے

بہت جان جوکھوں میں دانش نے ڈالی
یہ دِل کا لگانا کوئی دِل لگی ہے
 

ماظق

محفلین
آنسو بہا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا
خود کو جلا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

اشکوں کی اک ندی کے کنارے برہنہ پا
پلکیں سُکھا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

اس شاخِ خاردار سے لپٹا ہوا تھا اب
دامن چھڑا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

ہم کو رُلا رُلا کے سدا گام گام پر
جگ کو ہنسا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

دل میں سمو گیا تھا جو ویرانیاں یہاں
صحرا بنا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

کھیتی وفا کے نخل کی مرجھا گئی تھی وہ
دل میں اُگا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا

صحراؤں کا احاطہ بھی دانش ہوا ہے کیوں
وحشت بڑھا رہا ہے کوئی دیکھنا ذرا
 

ماظق

محفلین
کہوں کیسے وہ یاد آنے لگے ہیں
غمِ فرقت میں تڑپانے لگے ہیں

بڑی ظالم ہے قربت کی تپش بھی
وہ دشتِ جاں کو پگھلانے لگے ہیں

کہیں بدلے نہ تنہائی کا صحرا
کہ یہ موسم بھی راس آنے لگے ہیں

مری پلکوں سے اشکوں کے ستارے
تمہارا قرض لوٹانے لگے ہیں

تری یادوں کے گُل اندام جھونکے
مری سوچوں کو مہکانے لگے ہیں

کھلی پھر رات کی تاریک بانہیں
کہیں وہ زلف لہرانے لگے ہیں

عجب شیشہ بدن ہیں یہ ستارے
پڑی کرنیں تو دھندلانے لگے ہیں

چلے آؤ بہاروں کے مسافر
شجر ہاتھوں کو لہرانے لگے ہیں

تری آنکھوں میں پیمانے ہیں دانش
جبھی تو لوگ دیوانے لگے ہیں
 

ماظق

محفلین
ہر قدم پر فریب کھاتا ہوں
خود کو ہر گام آزماتا ہوں

عمرِ رفتہ تو بے سماعت ہے
پھر نہ جانے کِسے بلاتا ہوں

جن سے منزل کا راستہ نہ ملا
میں وہی راہ آزماتا ہوں

تم جسے ڈھونڈتے ہو جنگل میں
آؤ میں شہر میں دکھاتا ہوں

ان سے چاہت کی کیا طلب دانش
میں جنہیں راستہ دکھاتا ہوں
 

ماظق

محفلین
لُٹا لُٹا سا قافلہ چلا کہاں بہار کا
ہمیں فریب دے چلا گُلوں کے انتظار کا

نہ جانے کس کا نقشِ پا بنا ہے آج میکدہ
نشے میں چُور چُور ہے سراپا رہگزار کا

فلک کے سب نجوم بھی ہمارے ساتھ ہو لیے
مزہ انہیں بھی مل گیا ہے تیرے انتظار کا

زمیں کے چاک کھل گئے چمن ہوا لہو لہو
عجب ستم تو دیکھئے یہ کام ہے بہار کا

تڑپتا چھوڑ کر گئے وہ دانش ملول کو
یہ معجزہ بھی دیکھئے ہے زلفِ تابدار کا
 

ماظق

محفلین
کتنی سفاک ے یہ تنہائی
دِل دریدہ ہے آنکھ بھر آئی

تیرے کوچے تو ہیں صنم خانے
جو بھی صورت ملی ہے پتھرائی

رستے بھُولے نہیں کبھی رہرو
پھر بھی جاری ہے جادہ پیمائی

موسمِ گُل بدل گیا شاید
چُپ ہے جھرنوں کی آج شہنائی

سرنگوں ھے انا کا ہر پرچم
دور ھے دِل سے خوفِ رسوائی

تیرے گیسو کی چھاؤں سے جاناں
پھر زمینِ شباب گدرائی

ہم سجائیں وفا کی قندیلیں
ورنہ دنیا کہے گی ہرجائی

اب بھی خود کو سنوار لو دانش
ورنہ محشر میں ہو گی رسوائی
 

ماظق

محفلین
عروس شاخ چمن کو قبائیں دیتا ہے
ہمیں کو کیوں وہی موسم سزائیں دیتا ہے

شریک جوہرِ ہستی کوئی نہیں اس کا
جو خاک و خوں کو نئی آتمائیں دیتا ہے

کبھی وصال کے غم اور کبھی غم ہجراں
عجب ادا سے وہ مجھ کو سزائیں دیتا ہے

قدم قدم پہ ہے یورشِ جفا کی جس کے سبب
دلِ حزیں بھی اُسی کو دعائیں دیتا ہے

وہ شخص گُل کی طلب کس طرح کرے دانش
جو بُوئے گُل کو سدا بد دعائیں دیتا ہے
 

ماظق

محفلین
روش روش پہ مٹ گئیں بہار کی جوانیاں
کہیں کہیں گلوں میں ہیں ابھی بھی وہ نشانیاں

مقام طور چن لیا تھا رب ذوالجلال نے
ھر اک بشر پہ کھل گئیں بشر کی لنترانیاں

صداقتوں کے قافلے کبھی کے دربدر ہوئے
قدم قدم پہ لیں جنم دلوں میں بدگمانیاں

بہت ہی جاں گداز ہیں یہ زندگی کے سلسلے
ہنسو کہ جاں کنی پہ ہیں یہ آج گُل فشانیاں

فرشتے پارسا سہی مگر مقام غور ہے
فلک نے کس طرح سنیں تری مری کہانیاں

متاع فکر کھو گئی جگر ہوا لہو لہو
ہمیں جو یاد آ گئیں کسی کی مہربانیاں

جو چشم دل کو وا کیا دریقیں کُشا کیا
زمیں سے آسماں تلک ملیں تری نشانیاں
 

ماظق

محفلین
روپ نگر سے رات جو آئی
صورت خوب سلونی پائی

دل تو تھا آوارہ خاطر
لمحہ لمحہ موج اڑائی

یادوں کے سنسان جزیرے
کہتے ہیں ہم کو سودائی

چاند نگر کے گھاٹ پہ یارو
شب برہنہ خوب نہائی

بھیگی بھیگی نازک کرنیں
ناپیں ساگر کی گہرائی

موج صبا کے اٹھتے اٹھتے
موسم گُل نے لی انگڑائی

اس کو بھی شاید ھے گوارا
دانش کی خاطر رسوائی
 

ماظق

محفلین
شکوہ ہے کم نگاہی کا دل کی پُکار پر
کس منہ سے اب کے جائیں وہ دہلیز یار پر

اشکوں سے ہو گیا ہے جو روشن چراغ شام
اک آرزوئے کشتہ کے ویراں مزار پر

بچھڑا جو تُو تو درد کا صحرا تھا سامنے
برسات کا سماں ہی ملا چشم یار پر

کرنیں بھی خوب لائی ہیں یہ صبح دلنواز
موتی دمک رہے ہیں رُخ مرغزار پر

اغیار کو سمجھتا ہے دانش ندیم راہ
چلتے رہے ہم آبلہ پا دشت خار پر
 

ماظق

محفلین
بھائی یہ شفیع حیدر دانش ھیں ۔ ان کا مجموعہ کلام " موج ہوائے شام " چھپا ھوا ھے اسی میں سے کچھ کلام یہاں پیش کیا ھے ۔
آپ نے ھ اور ہ کی نشاندہی کی ۔ شکریہ ۔
میں نے ٹھیک کر دیا ہے ۔

یہ کون سے آتش ہیں؟ خواجہ حیدر علی کا تو کلام نہیں لگتا!!
ماظق، کلام تو اچھا ہے، لیکن آپ چھوٹی ہ کی جگہ ھ ٹائپ کر رہے ہیں‌ (اگر کاپی پیسٹ نیں کر رہے تو( ہ ‘اوُ کی کنجی پر ہے

بہت شکریہ جناب

ماظق بھائی اتنی غزلیں شئیر کرنے کا بہت شکریہ۔
 
Top