انتخابات کا انتخاب۔۔۔۔۔علی منیر

rigging-in-election-670.jpg

الیکشن کی تیاریاں عروج پر — فائل فوٹو –.

کہنے کو تو ہمارا ملک اپنی پیدائش کے بعد سے ہی اکثر’ تاریخ کے نازک موڑ’ پر کھڑا ہوتا ہے اور عوام ان تاریخی لمحات سے یکسر بےخبر ہوتے ہیں لیکن جب بحیثیت قوم اجتماعی طور پر اس چیز کا شعور بیدار ہو تو پھر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے اس موقعہ کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لینا چاہئے.
حالیہ انتخابات پاکستان کی آئندہ کے پانچ سال کی باگ ڈور تھامنے کے لئے ہو رہے ہیں اور ان کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کو اقتدار کی مسندوں پر بٹھائیں گے. اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقعہ ہو گا جب اقتدار کی منتقلی خالص عوامی رائے کے ذریعے ہو گی.​
لیکن اس منتقلی اور ان انتخابات کو تاریخی بنانے کے لئے ایک ایک ووٹ قیمتی ہو گا اور روایتی سستی و کاہلی سے نہ صرف پاکستان کو نقصان پہنچے گا بلکہ جمہوریت کا ننھا پودا بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں ناکام ہو سکتا ہے.​
مجھے یقین ہے کہ پاکستانی قوم کا شعور اتنا بلند ہو چکا ہے کہ اس نظام کی بنیادیں ایک ایک ووٹ کے ذریعے رکھیں گے. اس یقین کو پختہ کرنے میں ایک عام سے رکشہ ڈرائیور کا کافی حد تک ہاتھ ہے!​
پرسوں دفتر سے واپسی رکشہ کے زریعے ٹھہری اور دوران سفر رکشہ ڈرائیور جو کے خاصا تنومند تھا اپنا ایک پاؤں اکسلیٹر جبکہ دوسرا پاؤں رکشہ کے ‘ڈیش بورڈ’ پر رکھے مزے سے اپنا رکشہ ‘اڑا’ رہا تھا ایسے میں جب میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ کس پارٹی کو ووٹ دے گا تو اس نے اپنے پسندیدہ لیڈر کی تعریف میں ایک لمبا ‘بیان’ فرمانے جس میں مخالف جماعت کو صلواتیں اور انکے لیڈر کی ‘خبر’ لینا بھی شامل تھا کے بعد جس موضوع پر بات شروع کی اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ انتخابات واقعی تاریخی ثابت ہوں گے کیونکہ اس رکشے والے نے جب دیکھا کہ میں اس کے ‘پارٹی نامے’ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہا اور ہوں ہاں سے کام چلا رہا ہوں تو وہ سمجھا کہ میں شائد اس قبیل سے تعلق رکھتا ہوں جو بھس میں چنگاری ڈال کر ہاتھ سینکتا ہے یعنی ووٹ تو نہیں ڈالتا لیکن سیاسی موضوع چھیڑ کر مخالف کے زور بیان سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو اس کے چہرے پر تشویش کے سائے لہرانے لگے جس کے بعد اس نے سگریٹ کا ایک لمبا ‘سوٹا’ لے کر ووٹ کی اہمیت بتانا شروع کی کہ ‘باؤ جب ووٹ نہیں ڈالے گا بندہ تو پھر کیسے یہ نظام چلنا ہے’ میں اس کی اس بات پر تھوڑا چوکنا ہو گیا تو اس نے ووٹ کی اہمیت پر ایک دو باتیں کرنے کے بعد اپنی گفتگو کا اختتام اس بات پر کیا جس سے میرا ان انتخابات کے بارے میں احساس مزید پختہ ہو گیا.​
ہم دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس کے اختتامی الفاظ تھے کہ ‘دیکھو بھائی ووٹ تو دینا چاہئے، یہ قوم کی امانت ہے اور ہم نے یہ لوٹانی ہے’. آجکل پاکستان میں اکثر جس پڑھے لکھے باشعور آدمی سے بات کرو اس کی گفتگو کا اختتام کم و بیش ان ہی الفاظ پر ہوتا ہے لیکن ایک عام سے رکشہ ڈرائیور جو کہ شائد اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اس کی یہ بات مجھے حیران کر گئی.​
اگرچہ ہمارے درمیان وہ طبقہ بھی موجود ہے جسے آپ رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں سے بخوبی ملا سکتے ہیں یعنی وہ لوگ جو اس نظام میں حصّہ لینے سے بوجوہ سستی یا بغض ‘قوم کی یہ امانت’ نہیں لوٹاتے اور لیکن پھر بھی سیاست کا موضوع انکا ‘من بھاتا کھاجا’ ہوتا ہے اوراپنے ہر ملنے جلنے والے سے اس قوم کے اندر پائے جانے والے ‘کیڑوں’ پر سیر حاصل گفتگو بمعہ مثالوں کے کر ڈالتے ہیں.​
گیلپ سروے والوں کی جانب سے کیا جانے والا حالیہ سروے ایسے پاکستانی جو 11 مئی کو ووٹ نہیں ڈالنے کے لئے ارادہ کیے بیٹھے ہیں کی تعداد تقریباً 12 فیصد بتاتا ہے. لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کے یہ 12 فیصد لوگ ہمارے ارد گرد ہی ‘پائے’ جاتے ہیں ان کو الیکشن والے دن گھروں سے نکالنے اور انکے ‘مذموم عزائم’ کو خاک میں ملانے کی چھوٹی سی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر بھی آتی ہے.​
ملک کی تین بڑی جماعتوں کا دہشت گردوں کا نشانہ بننے اور انتخابی مہم کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک اس دوران دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے تقریباً ستاسی افراد کے باوجود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے پر عزم ہیں.​
ملک نے نوے کی دہائی بھی دیکھی ہے جس میں کمزور جمہوریتوں کی وجہ سے لوگوں کی اپنے حکمرانوں کے چناؤ میں دلچسپی ہر انتخاب کے موقعہ پر گھٹتی ہی جا رہی تھی لیکن بھلا ہو گزشتہ حکومت کا جس نے اپنے پانچ سال پورے کر کے لوگوں کا اس نظام میں اعتماد بڑھایا ہے اور دوسری جانب بقول کچھ ناقدین کے کہ عوام اصل میں اپنے گزشتہ حکمرانوں کا راستہ روکنے کا واحد ذریعہ اپنے ووٹ کو ہی سمجھ گئے ہیں.​
دوسری جانب اللہ عمران خان صاحب کو جلد صحتیاب کرے کیوں کہ ملک میں اس جمہوری جوش اور جذبے کی روح کو بحال کرنے میں انکا اچھا خاصا ہاتھ ہے خاص طور پر ملک کے شہروں میں.​
خان صاحب کے علاوہ میڈیا نے بھی اس شعور کو بلند کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے اور اسی بنا پر امید کی جاتی ہے کہ پاکستان میں وہ دور لوٹ کر آ رہا ہے جب ووٹ ڈالنے کی شرح پچاس فیصد سے اوپر رہتی تھی.​
اس جمہوری جوش اور جذبے کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کا اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے علاوہ عوام میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں تبدیلی آنے والی نہیں بلکہ آ گئی ہے!!​
یاد رکھئے پاکستان کا مستقبل اگر آپ تابناک تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو اسکی بنیاد ایک ایک ووٹ ڈال کر ہو گی.ایک ایک ووٹ قیمتی ہے کیوں کہ ایک ایک مل کر ہی کروڑوں تک جا پہنچتے ہیں.​
11 مئی کا دن تاریخی ہو گا اس لئے نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس دن شرح ووٹ پاکستانی قوم کے اجتماعی شور کے بلند ہونے کی گواہی دے گا!!​
تحریر: علی منیر​
بہ شکریہ ڈان اردو
 

حسان خان

لائبریرین
11 مئی کا دن تاریخی ہو گا اس لئے نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس دن شرح ووٹ پاکستانی قوم کے اجتماعی شور کے بلند ہونے کی گواہی دے گا!!​

امید ہے کہ کل کم سے کم شہروں میں تو ووٹ ڈالے جانے کی شرح اپنا پچھلا ریکارڈ توڑ دے گی۔ :)
 
Top