ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد) ص 51 تا 60

محمد امین

لائبریرین
صفحہ ۵۱
برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (سمندر کے پانی کی طرح) کڑوا کردیں۔ پھر کیا اسی نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم شکر گزار ہو؟ اچھا! تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لیے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں؟ ہم نے اسے یادگار اور مسافروں کے لیے فائدہ بخش بنایا۔
نظامِ ربوبیت سے توحید پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت سے توحیدِ الٰہی پر استدلال کرتا ہے۔ جو رب العالمین تمام کائنات کی پرورش کر رہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے، اس کے سوا کون اس کا مستحق ہو سکتا ہے کہ بندگی و نیاز کا سر اس کے آگے جھکایا جائے؟
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّ۔هِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿٢٢
(البقرۃ: ۲۱۔۲۲)
اے افرادِ نسلِ انسانی! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، اس پروردگار کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، اور اس لیے پیدا کیا تا کہ تم برائیوں سے بچو۔ وہ پروردگارِ عالم جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان چھت کی طرح بنایا اور آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہارے لیے رزق کا سامان ہو۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت تو) ایسا نہ کرو کہ کسی دوسری ذات کو اس کا ہم پلہ ٹھہراؤ، اور تم اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو!
یا مثلاً سورۂ فاطر میں ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّ۔هِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّ۔هِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ ۖفَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٣
(فاطر: ۳)

صفحہ ۵۲
اے افرادِ نسلِ انسانی! اللہ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیض یاب کیا ہے ان پر غور کرو! کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں زمین اور آسمان کی بخشائشوں سے رزق دے رہا ہے؟ نہیں، کوئی معبود نہیں ہے، مگر اسی کی ایک ذات! پھر تم (اس سے روگردانی کر کے) کدھر بہکے چلے جا رہےہو؟ ۲۴؎
نظامِ ربوبیت سے وحی و رسالت کی ضرورت پر استدلال:
اسی طرح وہ نظامِ ربوبیت کے اعمال سے انسانی سعادت و شقاوت کے معنوی قوانین اور وحی و رسالت کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جس رب العالمین نے تمہاری پرورش کے لیے ربوبیت کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے، کیا ممکن ہے کہ اس نے تمہاری روحانی فلاح و سعادت کے لیے کوئی قاعدہ مقرر نی کیا ہو؟ جس طرح تمہارے جسم کی ضرورتیں ہیں اسی طرح تمہاری روح کی بھی ضرورتیں ہیں، پھر کیونکر ممکن ہے کہ جسم کی نشوونما کے لیے تو اس کے پاس سب کچھ ہو، لیکن روح کی نشوونما کے لیے اس کے پاس کوئی پروردگاری نہ ہو؟ اگر وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان کا یہ حال ہے کہ ہر ذرہ کے لیے سیرابی اور ہر چیونٹی کے لیے کارسازی رکھتی ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی روحانی سعادت کے لیے اس کے پاس کوئی سرچشمگی نہ ہو؟ اس کی پروردگاری اجسام کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسائے لیکن ارواح کی پرورش کے لیے ایک قطرۂ فیض بھی نہ رکھے؟ تم دیکھتے ہو کہ جب زمین شادابی سے محروم ہو کر مردہ ہوجاتی ہے تو یہ اس کا قانون ہے کہ بارانِ رحمت نمودار ہوتی ہے اور شندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک ذرے کو مالامال کردیتی ہے۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ جب عالمِ انسانیت ہدایت و سعادت کی شادابیوں سے محروم ہوجائے تو اس کی بارانِ رحمت نمودار ہو کر ایک ایک روح کو پیامِ زندگی پہنچا دے؟ روحانی سعادت کی بارش کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: وحیِ الٰہی ہے۔ تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین زندہ ہوگئی۔ پھر اس بات پر کیوں چونک اٹھو کہ وحیِ الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہوگئی؟

 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ ۵۳
حم ﴿١ تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّ۔هِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ﴿٢ إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٣ وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٤ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّ۔هُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٥ تِلْكَ آيَاتُ اللَّ۔هِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّ۔هِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ﴿٦
(الجاثية: ۱-۶)
یہ اللہ کی طرف سے کتاب (ہدایت) نازل کی جاتی ہے جو عزیز اور حکیم ہے۔ بلاشبہ ایمان رکھنے والوں کے لیے آسمانوں اور زمین میں (معرفتِ حق کی) بے شمار نشانیاں ہیں۔ نیز تمہاری پیدائش میں اور ان چارپایوں میں جنہیں اس نے زمین میں پھیلا رکھا ہے، اربابِ یقین کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں اور اس سرمایۂ رزق میں جسے وہ آسمان سے برساتا ہے اور زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور ہواؤں کے رد و بدل میں، اربابِ دانش کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ (اے پیغمبر!) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو فی الحقیقت ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ پھر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد کون سی بات رہ گئی جسے سن کر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟
سورۂ انعام میں ان لوگوں کا جو وحیِ الٰہی کے نزول پر متعجب ہوتے ہیں، ان لفظوں میں ذکر کیا ہے:
وَمَا قَدَرُوا اللَّ۔هَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّ۔هُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ (الانعام: ۹۱)
اور اللہ کے کاموں کی انہیں جو قدر شناسی کرنی تھی، یقیناً انہوں نے نہیں کی، جب انہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ نے اپنے بندے پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔
پھر تورات اور قرآن کے نزول کے ذکر کے بعد حسبِ ذیل بیان شروع ہوجاتا ہے:
إِنَّ اللَّ۔هَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّ۔هُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٩٥ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٩٦ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٩٧
(الانعام: ۹۵-۹۷)



صفحہ ۵۴
یقیناً یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی کو شق کرتا ہے (اور اس میں سے ہر چیز کا درخت پیدا کردیتا ہے)۔ وہ زندہ کو مردہ چیز سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ اشیاء سے نکالنے والا ہے۔ ہاں! وہی تمہارا خدا ہے، پھر تم (اس سے روگردانی کر کے) کدھر کو بہکے چلے جا رہے ہو؟ ہاں وہی (پردۂ شب کو چاک کر کے) صبح کی روشنی نمودار کرنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے رات کو راحت و سکون کا ذریعہ بنادیا اور وہی ہے کہ اس نے سورج اور چاند کی گردش اس درستگی کے ساتھ قائم کردی کہ حساب کا معیار بن گئی ۔ یہ اس عزیز و علیم کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اور (پھر دیکھو) وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے پیدا کردیے تاکہ خشکی و تری کی تاریکیوں میں اس نے رہنمائی پاؤ۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں ہم نے دلیلیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں!
یعنی جس پروردگارِ عالم کی ربوبیت و رحمت کا یہ تمام فیضان شب و روز دیکھ رہے ہو، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تمہاری جسمانی پرورش و ہدایت کے لیے تو یہ سب کچھ کرے، لیکن تمہاری روحانی پرورش و ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی سر و سامان نہ ہو؟ وہ زمین کی موت کو زندگی سے بدل دیتا ہے۔ پھر کیا تمہاری روح کی موت کو زندگی سے نہیں بدل دے گا؟ وہ ستاروں کی روشن علامتوں سے خشکی و تری کی ظلمتوں میں رہنمائی کرتا ہے، کیونکر ممکن ہے کہ تمہارے روحانی زندگی کی تاریکیوں میں راہنمائی کی کوئی روشنی نہ ہو؟ تم، جو کبھی اس پر متعجب نہیں ہوتے کہ زمین پر کھیت لہلہارہے ہیں اور آسمان میں تارے چمک رہے ہیں کیوں اس بات پر متعجب ہوتے ہو کہ خدا کی وحی نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہورہی ہے؟ اگر تمہیں تعجب ہوتا ہے تو یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم نے خدا کو اس کی صفتوں میں اس طرح نہیں دیکھا ہے جس طرح دیکھنا چاہیے۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات تو آجاتی ہے کہ وہ ایک چیونٹی کی پرورش کے لیے یہ پورا کارخانۂ حیات سرگرم رکھے، مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے سلسلۂ وحی و تنزیل قائم ہو!
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ ۵۵

نظامِ ربوبیت سے وجودِ معاد پر استدلال:
اسی طرح وہ اعمالِ ربوبیت سے معاد اور آخرت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جو چیز جتنی زیادہ نگرانی اور اہتمام سے بنائی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ قیمتی استعمال اور اہم مقصد بھی رکھتی ہے، اور بہتر صنّاع وہی ہے جو اپنی صنعت گری کا بہتر استعمال اور مقصد رکھتا ہو۔ پس انسان جو کرۂ ارضی کی بہترین مخلوق اور اس کے تمام سلسلۂ خلقت کا خلاصہ ہے اور جس کی جسمانی و معنوی نشوو نما کے لیے فطری کائنات نے اس قدر ااہتمام کیا ہے، کیونکی ممکن ہے کہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے ہی بنایا گیا ہو اور کوئی بہتر استعمال اور بلند تر مقصد نہ رکھتا ہو؟ اور پھر اگر خالقِ کائنات "رب" ہے اور کامل درجے کی ربوبیت رکھتا ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بہترین مربوب یعنی پروردہ ہستی کو محض اس لیے بنایا ہو کہ مہمل اور بے نتیجہ چھوڑ دے:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿١١٥ فَتَعَالَى اللَّ۔هُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ﴿١١٦
(المؤمنون:۱۱۵-۱۱۶)
کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد و نتیجہ کے پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں؟ اللہ، جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے، اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بے کار و عبث فعل کرے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، جو (جہاں داری کے) عرش بزرگ کا پروردگار ہے۔
ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کردیا جو قرآن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے، لیکن یہی مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرائے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ "وجودِ انسانی کرۂ ارضی کے سلسلۂ خلقت کی آخری اور اعلیٰ ترین کڑی ہے اور اگر پیدائشِ حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایک ناقابلِ شمار مدت کے مسلسل نشو و ارتقاء کی تاریخ ہوگی۔ گویا فطرت نے لاکھوں کروڑوں برس کی کار فرمائی و صناعی سے کرۂ ارضی پر جو اعلیٰ ترین وجود تیار کیا ہے، وہ انسان ہے!"
ماضی کے ایک نقطۂ بعید کا تصور کرو! جب ہمارا یہ کرہ سروج کے ملتہب کرّے سے

صفحہ 56

الگ ہوا تھا، نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشو و نما پا سکیں! اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشو و نما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی اور پھر نہیں معلوم کتنی مدت بعد زندگی کا وہ اولین بیج وجود میں آسکا جسے پروٹوپلازم (Protoplasm) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے! پھر حیاتِ عضوی کے نشو و نما کا دور شروع ہوا اور نہیں معلوم کتنی مدت گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں! یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں اور پھر لاکھوں برس اس میں نکل گئے کہ یہ سلسلۂ ارتقاء وجودِ انسانی تک مرتفع ہوا! پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کی ذہنی ارتقاء کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طویل مدت اس پر گزر گئی! بالآخر ہزاروں برس کے اجتماعی اور ذہنی ارتقاء کے بعد وہ انسان ظہور پذیر ہوسکا جو کرۂ ارض کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے!
گویا زمین کی پیدائش سے لے کر تروی یافتہ انسان کی تکمیل تک جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے، وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سرگزشت ہے!
سوال یہ ہے کہ جس وجود کی پیدائش کے لیے فطرت نے اس درجہ اہتمام کیا ہے، کیا یہ سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ وہ پیدا ہو، کھائے پئیے اور مر کر فنا ہوجائے؟
فَتَعَالَى اللَّ۔هُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ ﴿١١٦
(المؤمنون:۱۱۵-۱۱۶)
اللہ، جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے، اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بے کار و عبث فعل کرے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ، جو (جہاں داری کے) عرش بزرگ کا پروردگار ہے۔
قدرتی طور پر یہاں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر وجودِ حیوانی اپنے ماضی میں ہمیشہ یکے بعد دیگرے متغیر ہوتا اور ترقی کرتا رہا ہے تو مستقبل میں بھی یہ تغیر و ارتقاء کیوں جاری نہ رہے؟ اگر اس بات پر ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا کہ ماضی میں بے شمار صورتیں مٹیں اور نئی زندگیاں ظہور میں آئیں تو اس بات ہو کیوں تعجب ہو کہ موجودہ زندگی کا مٹنا بھی بالکل مٹ جانا نہیں ہے، اس کے بعد ایک اعلیٰ صورت اور زندگی ہے؟
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى ﴿٣٦ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ﴿٣٧ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿٣٨
(القيامة: ۳۶-۳۸)
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ 57
کیا انسان خیال کرتا ہے کہ وہ مہمل چھوڑ دیا جائے گا ( اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہوگی؟) کیا اس پر یہ حالت نہیں گزر چکی ہے کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا، پھر نطفہ سے علقہ ہوا (یعنی جونک کی سی شکل ہوگئی) پھر وہ علقہ سے (اس کا ڈیل ڈول) پیدا کیا گیا، پھر ( اس ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا!
سورۂ ذاریات میں تمام تر "دین" یعنی جزا کا بیان ہے:
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ ﴿٥وَإِنَّ الدِّينَ لَوَاقِعٌ ﴿٦
(الذاریات: ۵،۶)
اور پھر اس اعمالِ ربوبیت سے یعنی ہواؤں کے چلنے اور پانی برسنے کے مؤثرات سے استشہاد کیا گیا ہے:
وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا ﴿١فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا ﴿٢فَالْجَارِيَاتِ يُسْرًا﴿٣فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا ﴿٤
(الذاریات: ۱-۴)
پھر آسمان اور زمین کی بخشایشوں پر اور خود وجودِ انسانی کی اندرونی شہادتوں پر تجہ دلائی ہے:
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿٢٠وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿٢١وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴿٢٢
(الذاریات: ۲۰-۲۲)
اس کے بعد فرمایا:
فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنطِقُونَ ﴿٢٣
(الذاریات:۲۳)
آسمان اور زمین کے رب کی قسم (یعنی آسمان و زمین کے پروردگار کی پروردگاری شہادت دے رہی ہے) کہ بلاشبہ وہ معاملہ (یعنی جزا و سزا کا معاملہ) حق ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو۔
اس آیت میں اثباتِ جزاء کے لیے خدا نے خود اپنے وجود کی قسم کھائی ہے، لیکن "رب" کے لفظ سے اپنے آپ کو تعبیر کیا ہے۔ عربی میں قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر کسی بات سے شہادت لائی جائے۔ یہ شہادت کیا ہے؟ وہی ربوبیت کی شہادت ہے۔ اگر دنیا میں پرورش موجود ہے اور پروردہ موجود ہے، اور اس لیے پروردگار بھی موجود تو ممکن نہیں کہ جزا کا معاملہ بھی موجود نہ ہو اور وہ بغیر کسی نتیجہ کے انسان کو چھوڑ دے۔ چونکہ لوگوں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی، اس لیے اس آیت میں قسم اور مقسم بہ کا ربط صحیح طور متعین نہ کرسکے۔
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ 58
قرآنِ حکیم کے دلائل و براہین پر غور کرتے ہوئے، یہ اصل ہمیشہ پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے استدلال کا طریقہ منطقی بحث و تقریر کا طریقہ نہیں ہے جس کے لیے چند در چند مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اثباتِ مدعا کی شکلیں ترتیب دینی پڑتی ہیں، بلکہ وہ ہمیشہ براہِ راست تلقین کا قدرتی اور سیدھا سادا طریقہ اختیار کرتا ہے، عموماؐ اس کے دلائل اس کے اسلوبِ بیان و خطاب میں مضمر ہوتے ہیں۔ وہ یا تو کسی مطلب کے لیے اسلوبِ خطاب ایسا اختیار کرتا ہے کہ اسی سے استدلال کی روشنی نمودار ہوجاتی ہے یا پھر کسی مطلب پر زور دیتے ہوئے کوئی ایک لفظ ایسا بول جاتا ہے کہ اس کی تعبیر میں اس کی دلیل بھی موجود پوتی ہے اور خودبخود مخاطب کا ذہن دلیل کی طرف پھر جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک واضح مثال یہی صفتِ ربوبیت کا جابجا استعمال ہے۔ جب وہ خدا کی ہستی کا ذکر کرتا ہوا اسے "رب" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے تو یہ بات کہ وہ "رب" ہے، جس طرح اس کی ایک صفت ظاہر کرتی ہے، اسی طرح اس کی دلیل بھی واضح کردیتی ہے کہ وہ "رب" ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی ربوبیت تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور خود تمہارے دل کے اندر گھر بنائے ہوئے ہے، پھر کیونکر تم جرأت کرسکتے ہو کہ اس کی ہستی سے انکار کرو! وہ رب ہے اور رب کے سوا کون ہوسکتا ہے جو تمہارے بندگی و نیاز کا مستحق ہو؟
چنانچہ قرآن کے وہ تمام مقامات جہاں اس طرح کے مخاطبات ہیں کہ


وغیرہ تو انہیں مجرد امر و خطاب نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ خطاب و دلیل دونوں ہیں۔ کیونکہ "رب" کے لفظ نے برہانِ ربوبیت کی طرف خودبخود رہنائی کردی ہے۔ افسوس ہے! ہمارے مفسروں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی، کیونکہ منطقی استدلال کے استغراق نے انہیں قرآن کے طریقِ استدلال سے بے پروا کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات کے ترجمہ و تفسیر میں قرآن کے اسلوبِ بیان کی حقیقی روح واضح نہ ہوسکی اور استدلال کا پہلو طرح طرح کی توجیہات میں گم ہوگیا۔





صفحہ 59
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‫ۙ۞۞۞۞۞۞۞۞
"الرَّحمٰن" اور "الرَّحیم" دونوں رحم سے ہیں۔ عربی میں "رحمت" عواطف کی ایسی رقت و نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لیے احسان و شفقت کا ارادہ جوش میں آجائے۔ پس رحمت میں محبت، شفقت، فضل، احسان سب کا مفہوم داخل ہے اور مجرد محبت، لطف اور فضل سے زیادہ وسیع اور حاوی ہے۔​
اگرچہ یہ دونوں اسم رحمت سے ہیں، لیکن رحمت کے لیے دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔ عربی میں فعلان کا باب عموماؐ ایسے صفات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض صفاتِ عارضہ ہوتے ہیں ؂۲۵ جیسے پیاسے کے لیے عطشان، غضبناک کے لیے گضبان، سراسیمہ کے لیے حیران، مست کے لیے سکران۔ لیکن فعیل کے وزن میں صفاتِ قائمہ کا خلاصہ ہے، یعنی عموماؐ ایسے صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو جذبات و عوارض ہونے کی جگہ صفاتِ قائمہ ہوتے ہیں۔ ؂۲۶ مثلاؐ کریم کرم کرنے والا، عظیم بڑائی رکھنے والا، علیم علم رکھنے والا۔ حکم حکمت رکھنے والا، پس "الرحمٰن" کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں رحمت ہے اور "الرحیم" کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس سے ہمیشہ رحمت کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور ہر آن و ہر لمحہ کائنات خلقت اس سے فیض یاب ہورہی ہے۔​
رحمت کو دو الگ الگ اسموں سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اس لیے کہ قرآن خدا کے تصور کا جو نقشہ ذہن نشین کرنا چاہتا ہے، اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور چھائی ہوئی صفت رحمت ہی کی صفت ہے، بلکہ کہنا چاہیے تمام تر رحمت ہی ہے:​
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ (الأعراف:۱۵۶)
اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔​
 

محمد امین

لائبریرین
صفحہ 60​
پس یہ ضروری تھا کہ خصوصیت کے ساتھ اس کی صفتی اور فعلی دونوں حیثیتیں واضح کردی جائیں، یعنی اس میں رحمت ہے، کیونکہ وہ "الرحمٰن" ہے اور صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ ہمیشہ اس سے رحمت کا ظہور بھی ہورہا ہے کیونکہ "الرحمٰن" کے ساتھ وہ "الرحیم" بھی ہے۔​
لیکن اللہ کی رحمت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے: کائناتِ ہستی میں جو کچھ بھی خوبی و کمال ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمتِ الٰہی کا ظہور ہے۔​
جب ہم کائناتِ ہستی کے اعمال و مظاہر پر غور کرتے ہیں تو سب سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ اس کا نظامِ ربوبیت ہے، کیونکہ فطرت سے ہماری پہلی شناسائی ربوبیت ہی کے ذریعے ہوتی ہے، لیکن جب علم و ادراک کی راہ میں چند قدم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ربوبیت سے بھی ایک زیادہ وسیع اور عام حقیقت یہاں کارفرما ہے، اور خود ربوبیت بھی اسی کے فیضان کا ایک گوشہ ہے۔​
ربوبیت اور اس کا نظام کیا ہے؟ کائناتِ ہستی کی پرورش ہے۔ لیکن کائناتِ ہستی میں صرف پرورش ہی نہیں ہے، پرورش سے بھی ایک زیادہ بنانے، سنوارنے، اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کررہی ہے۔ ہم سیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بناؤ ہے، اس کے بناؤ میں خوبی ہے، اس کے مزاج میں اعتدال ہے، اس کی صداؤں میں نغمہ ہے، اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور ایسی کوئی بات نہیں جو اس کے کارخانے کی تعمیر و درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پس یہ حقیقت جو اپنے بناؤ اور فیضان میں ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام ہے، قرآن کہتا ہے کہ رحمت ہے اور خالقِ کائنات کی رحمانیت اور رحیمیت کا ظہور ہے۔​
تعمیر و تحسینِ کائنات رحمتِ الٰہی کا نتیجہ ہے:​
زندگی اور حرکت کا یہ عالمگیر کارخانہ وجود ہی میں نہ آتا، اگر اپنے ہر فعل میں بننے بنانے، سنورنے سنوارنے اور ہر طرح بہتر و اصلح ہونے کا خاصہ نہ رکھتا ۔ فطرتِ کائنات میں یہ خاصہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ بناؤ ہو بگاڑ نہ ہو، درستگی ہو برہمی نہ ہو، لیکن کیوں ایسا ہوا کہ فطرت بنائے اور سنوارے، بگاڑے اور الجھائے نہیں؟ یہ کیا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے، درست اور بہتر ہی ہوتا ہے، خراب اور بدتر نہیں ہوتا؟ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں آج​
 
Top