امیر خسرو۔۔۔بارگاہِ نظام میں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محلے میں بے شمار نوجوان بھرے پڑے تھے۔ امیروں کے چشم و چراغ صاحبانِ خدم و حشم۔ لباسِ فاخرہ پہنے، بنے سنورے ، ہر جگہ مرکب دوڑاتے ۔ خود اپنے ہی خاندان میں نہ جانے کتنے امیر زادے تھے ، اوپچی بنے اپنے آپ کو دِکھاتے پھرتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر مارنے مرنے کو تیار۔ تلواریں ہر وقت باہر نکلی رہتیں۔ ہم عمر مصاحبوں کے پرے ساتھ، مسکین طالب علم بھی تھے۔ دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے۔ نادار ، مفلس، سراپا احتیاج، جسم و جاں کے رشتے کو قائم رکھنے میں ہمہ وقت کوشاں۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ نوجوان سب سے الگ تھا۔
 
Top