امریکی فوجی کالج: ’اسلام مخالف کورس کی مذمت‘

علی خان

محفلین
امریکہ کے ایک سینیئر فوجی افسر نے امریکی فوج کے اعلیٰ سکولوں میں اسلام کے بارے میں پڑھائے جانے والے نصاب کی مذمت کی ہے۔
امریکی سکولوں میں پڑھائے جانے والے کورس میں امریکی فوجیوں کو بتایا جاتا تھا کہ اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ان کے مذہب کو اپنا دشمن تصور کریں۔ انہوں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو جوہری حملوں کے ذریعے تباہ کرائے۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ دفاع پینٹا گون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر موجود نصاب کا مواد اصلی ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے امریکی فوجیوں کے لیے اس اختیاری کورس کو قابل اعتراض قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کورس امریکہ کی ان قدروں کے منافی ہے جو دوسرے مذاہب اور رسم و رواج کے احترام اور آزادی پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس اختیاری کورس کو پڑھنے والے ایک امریکی فوجی کی شکایت سامنے آنے کے بعد امریکہ کے دوسرے فوجی سکولوں میں کسی مذہب سے متعلق پڑھائے جانے والے ممکنہ کورس کے حوالے سے مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
امریکہ میں اس کورس کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اس کورس کو پڑھانے کی منظوری کیسی ملی یہ کیسےیہ نصابی کتب کا حصہ بنا۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹا گون کو امید ہے کہ اس حوالے سے مکمل رپورٹ ایک ماہ کے آخر تک سامنے آ جائے گی۔
لنک: http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2012/05/120511_us_commander_rwa.shtml
 

ابن عادل

محفلین
یہ بی بی سی کی خبر ہے ۔ اگرچہ ہماری اشک شوئی کے لیے نظرثانی اور تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ تو معلوم ہوا کہ یہ امریکی نجات دہندہ پچھلے گیارہ سالوں سے جو دنیا کو پرامن بنانے اور القائدہ سے نجات دلانے نکلے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ۔ بتائے کہ فوجیوں کو تو مندرجہ ذیل سبق دے کربھیجا جائے اور فواد صاحب ہمیں یقین دلارہے ہیں کہ ہمارے فوجی تو آپ کے اور اسلام کے خیر خواہ ہیں ۔ اب بھی کوئی کہے کہ یہ جنگ اسلام کے خلاف نہیں دہشت گردوں کے خلاف ہے ۔ تو ہم کہیں گے ۔ ناطقہ سربگریباں اسے کیا کہے ۔
اصل خبر
’اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں‘
امریکہ کے ایک سینیئر فوجی افسر نے امریکی فوج کے اعلیٰ سکولوں میں اسلام کے بارے میں پڑھائے جانے والے نصاب کی مذمت کی ہے۔
امریکی سکولوں میں پڑھائے جانے والے کورس میں امریکی فوجیوں کو بتایا جاتا تھا کہ اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ان کے مذہب کو اپنا دشمن تصور کریں۔
انہوں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو جوہری حملوں کے ذریعے تباہ کرائے۔
دوسری جانب امریکی محکمۂ دفاع پینٹا گون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر موجود نصاب کا مواد اصلی ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے امریکی فوجیوں کے لیے اس اختیاری کورس کو قابل اعتراض قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کورس امریکہ کی ان قدروں کے منافی ہے جو دوسرے مذاہب اور رسم و رواج کے احترام اور آزادی پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس اختیاری کورس کو پڑھنے والے ایک امریکی فوجی کی شکایت سامنے آنے کے بعد امریکہ کے دوسرے فوجی سکولوں میں کسی مذہب سے متعلق پڑھائے جانے والے ممکنہ کورس کے حوالے سے مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
امریکہ میں اس کورس کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اس کورس کو پڑھانے کی منظوری کیسی ملی یہ کیسےیہ نصابی کتب کا حصہ بنا۔
امریکی محکمۂ دفاع پینٹا گون کو امید ہے کہ اس حوالے سے مکمل رپورٹ ایک ماہ کے آخر تک سامنے آ جائے گی۔
اصل دیکھیے
 

ساجد

محفلین
دو مختلف ناموں سے بھیجے گئے مراسلات اور خبر کا اصل متن ، تدوین کے باوجود ، حرف بہ حرف یکساں:) ۔
خبر کا عنوان بھی تبدیل کر کے لکھا گیا تھا جس کی میں نے تعدیل کر دی ہے۔ اور غور طلب یہ کہ تحریف شدہ عنوان بھی یکساں تھا۔
---------------------------
اراکین کو میں پھر سے یاد دلا دوں کہ اگر کوئی خبر آپ نے من وعن پیش کرنی ہے اور اس کا ایک ہی ماخذ ہے تو اس کے عنوان میں تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی سوائے اس کے اگر عنوان بہت طویل ہو تو اسے مختصر الفاظ سے یوں تبدیل کیا جائے کہ مطلب و معانی میں کوئی فرق نہ آئے۔
بصورت دیگر آپ کسی موضوع کا آغاز اپنے خیا لات کے اظہار سے کر سکتے ہیں ۔
نیٹ پر ایک ہی شخصیت کئی ناموں سے ایک ہی سائٹ پر رجسٹر ہو جایا کرتی ہے۔ یہ عام سی بات ہے اور کبھی کبھار کسی سائٹ پر انتظامی حوالے سے کام کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ اس بات کا اہتمام کریں کہ اگر ایک ہی نام سے آپ کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے تو مختلف ناموں سے مراسلات بھیجنے سے گریز کریں۔ یہاں ہم کسی کو نشانہ نہیں بنا رہے لیکن بالا کے دو مراسلوں کی حیرت انگیز مماثلت نے ہمارا دھیان اس نکتے کی طرف مبذول کروایا۔
 

ساجد

محفلین
کم از کم میرے لئے تو اس خبر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔میں یہی باتیں ، ایسے ہی خیالات اور مذہبی منافرت پر مبنی سینکڑوں تحاریر بہت پہلے سے ہی پڑھتا آیا ہوں اور آپ سب بھی یہ سب پڑھ چکے ہوں گے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہوں گا اس قبیل کی شرمناک حرکات کسی انسان کو زیب نہیں دیا کرتیں اور یہاں تو معاملہ ان لوگوں کا ہے جو خود کو تہذیب و تمدن کے رستم کہلواتے ہیں۔
ہاں مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ان کی حکومتوں کا منافقت پر مبنی جو چلن ہے یہ اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
اس خبر کے حوالے سے ڈیلی میل کی خبر ذیل ہے
http://www.dailymail.co.uk/news/art...fficers-wage-Hiroshima-style-war-Muslims.html
امت نیوز
news-03.gif
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں بغير کسی پس وپيش کے يہ واضح کر دينا چاہتا ہوں کہ اس قسم کا تربيتی مواد نا صرف يہ کہ قابل اعتراض اور علمی طور پر غير ذمہ داری کے زمرے ميں آتا ہے بلکہ مذہبی آزادی اور ثقافتی رواداری کے حوالے سے امريکی اقدار کے منافی اور امريکی پاليسيوں سے بھی متصادم ہے۔

يہ باور کروانا ضروری ہے کہ سينير فوجی قيادت کی توجہ اس تربيتی مواد کی جانب ايک امريکی طالب علم نے ہی کروائ کيونکہ اسے مواد کے قابل اعتراض ہونے کے حوالے سے تحفظات تھے۔ جو انسٹرکٹر اس کورس کے ذمہ دار تھے انھيں ان کی تربيتی ذمہ داری سے ہٹا ديا گيا ہے۔ امريکی فوج اس امر پر بھی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہے کہ اس کورس کی منظوری کيسے اور کيونکرعمل ميں آئ اور کن وجوہات کی بنا پر اس مواد پر مبنی کورس تشکيل ديا گيا۔ امريکی جوائنٹ چيف آف سٹاف کے چيرمين نے يہ حکم جاری کيا ہے کہ امريکی فوجی تربيت گاہوں ميں جاری تمام کورسز کا ازسر نو تفصيلی جائزہ ليا جائے تا کہ اس بات کو يقينی بنايا جا سکے کہ کوئ بھی قابل اعتراض مواد تربيت گاہوں کا حصہ نا بن سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
کس قدر معصوم ہیں امریکی ۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہاہے:( ۔ بامیان کے مجسموں کی تباہی کی پاداش میں پورے ملک کو ملیا میٹ کر دینے والے اپنے ہی ملٹری کالجوں میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو تباہ کر دینے کے لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ارتکاب کئے گئے اپنے تاریخی سنگین ترین جرم کی طرزپر تباہی کے منصوبے بنائیں اور ان کے ارباب بست و کشاد کو خبرتک نہ ہو۔ حالانکہ اس جرم پرانہیں شرم آنی چاہئیے تھی۔ اور اس سے بھی بڑی سادگی ملاحظ فرمائیے کہ مقامات مقدسہ پر ایٹمی حملوں کے جن منصوبوں کا ہم جیسے بے خبر لوگوں کو بھی دس سال قبل سے علم ہے ان کی اُس امریکہ کو کوئی خبر نہیں جو پوری دنیا میں ہر جگہ اور ہر معاملے میں اپنی ناک گھسیڑے بیٹھا ہے:chatterbox: ۔
 

علی خان

محفلین
فواد صاحب آپ کو شرم تو آنی نہیں مگر پھر بھی میں اپنی عادت سے مجبور ہوکر یہاں پر کسی کے الفاظ آپ کو پڑھانا چاہتا ہوں۔

ربط
امریکی عدالت میں ایک پاکستانی دہشت گرد کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا​

طارق مہنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکہ ہجرت کرگئے تھے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور پیدائش سےا مریکہ میں مقیم ہیں۔ انہیں کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے انٹر نیٹ پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں کئی سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔ جس وقت جج انہیں سزا سنا رہا تھا انہوں نے بھری عدالت میں ایک بیان دیا تھا۔ اس جذباتی بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مہبوت کردیا تھا اور کئی لوگ اپنی آنکھیں پونچھتے دیکھے گئے۔ اس تقریر کے بعد جج نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دیتی ہے قانون بناتی نہیں اور امریکی قانون یہی کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ ذیل میں دئی گئی تحریر دراصل وہ تقریر ہے جوطارق مھنّا نے۱۲ اپریل ۲۰۱۲ء کو سزا سنائے جانے پر امریکی جج کے سامنے کی، طارق مھنّا ان بہت سارے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی حق گوئی کی بابت امریکی عقوبت خانوں میں قید ہیں اور امریکہ کی اسلام دشمنی کا ہد ف بن رہے ہیں۔ آپ ابو سبایا کے نام سے انٹرنیٹ پر جانے جاتے تھے اور بہت موثر مقرر ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
آج سے چار سال قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دو راہوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک راستہ آسان تھا اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ ان کے مطابق یہ تھا کہ امریکی حکومت کا مخبر بن جاؤں اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی صورت نہ دیکھنی پڑے گی اور دشوار راستہ، سو وہ آپ کے سامنے ہے۔تب سے اب تک ان چار سالوں کا اکثر حصہ میں نے قید تنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے تئیس گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ایف بی آئے اور ان وکلاء نے بہت محنت کی،حکومت نے مجھے اس کوٹھری میں ڈالنے، اس میں رکھنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھری میں مزید وقت گزارنے کی سزا سننے کے لئے لوگوں کے اداکردہ ٹیکسوں کے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے۔
اس دن سے ماقبل ہفتوں میں لوگوں نے مجھے بہت سے مشورے دیئے کہ مجھے آپ کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ کچھ نے کہا کہ مجھے رحم کی اپیل کرنی چاہئے کہ شاید کچھ سزا میں تخفیف ہوجائے، جبکہ دوسروں کی رائے تھی کہ کچھ بھی کرلوں میرے ساتھ سختی ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔تاہم میں بس یہ چاہتا ہوں کہ چند منٹ اپنے بارے میں گفتگو کروں۔
جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پرمجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا’جرم‘ کیا ہے۔یا ’دہشتگردوں ‘ کی جیسا کہ وہ انہیں کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ میں یہیں امریکہ میں پلا بڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضبناک کرتی ہے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کررکھا ہے؟ آدمی اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک جز بن جاتا ہے جو اس کا نقطہ نظر تشکیل کرتا ہے، اور یہی حال میرا بھی ہے۔لہذا، ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکہ ہی کی وجہ سے ہوں۔
چھ سال کی عمر میں میں نے comic booksکا ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا۔بیٹ مین نے میرے ذہن میں ایک تصور بویا، میرے سامنے ایک نمونہ رکھا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے،بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلمومین کی حمایت کے لئے آگے آتے ہیں۔یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست رہی کہ اپنے پچپن کے پورے دور کے اندر میں ہر اس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا جس میں یہ نمونہ پیش کیا جارہا ہوUncle Tom's Cabin, The Autobiography of Malcolm X اور مجھے توThe Catcher in the Ryeمیں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔ پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا اور تاریخ کے اسباق پڑھے ،اور مجھ پر یہ واضح ترہوگیا کہ دنیا کا یہ اصول کتنا حقیقی ہے۔میں نے امریکہ کے اصل باشندوں اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پڑھا۔میں نے پڑھا کہ پھر ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے پال ریوراور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی،وہ بغاوت جس کا اب ہم امریکہ کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں اس سے کچھ دور ہی اسکول کی فیلڈ ٹرپ پر جایا کرتے تھے۔میں نے ہیریئٹ ٹب مین،نیٹ ٹرنر،جان براؤن اور اس ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ایما گولڈمین،یوجین ڈیبز، مزدوروں کی انجمنوں، ورکنگ کلا س اور غرباء کی جدوجہدوں کے بارے میں پڑھا۔میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے تھے اورمخالفین کو قید کردیتے تھے۔میں نے روزا پارکس، میلکم ایکس، مارٹن لیوتھر کنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔میں نے ہو چی منھ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندگان نے کئی دہائیاں یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبین کے خلاف لڑنے میں گزاردیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ان سالوں میں جو کچھ پڑھا وہ چھ سال کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کررہا تھا، کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔میں نے جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا ،میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرفدار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی جبکہ میں یہاں کھڑا ہوں وہ میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہیں۔
جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں میں نے پڑھا ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی۔ملیکم ایکس کے بارے میں بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دلچسپی بڑھائی وہ کایا پلٹ تھی، ان کی کایا پلٹ۔مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’X‘ دیکھی ہے یانہیں، یہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی ہے، اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔وہ ایک ان پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے، ایک اصولی مسلمان جو مکہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے؛یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام نہیں ہے۔ یہ تو طریقہ زندگی ہے،ایک فکری حالت ہے جو کوئی بھی اپنا سکتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلا بڑھا ہو۔اس چیز نے مجھے اسلام کو بنظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔میں تو صرف ایک نوجوان تھا اوراسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا تھا جو بڑے بڑے سائنسی ذہن دینے سے قاصر ہیں۔اور جس کا جواب نہ پاکر امرا ء اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟ اسلام نے جواباً بتایا کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔کیونکہ اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں کرتا لہذا میں نے براہ راست قرآن اور سنت کی گہرائیوں میں جانا شروع کردیا،تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے،بحیثیت انسان اسلام میرے لئے کیا پیش کرتا ہے، ایک فرد کی حیثیت سے، میرے اردگرد کے لوگوں کے لئے، ساری دنیا کے لئے، اور جتنا جتنا میں سیکھتا گیا،مجھے اسلام کی قدر وقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔یہ میرے عنفوان شباب کی بات ہے، لیکن آج بھی پچھلے چند سالوں کے دباؤ کے باوجود، میں یہاں آپ کے اور اس کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں،الحمدللہ۔
اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔اور جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی میں نے دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب شے کے درپے ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ سویت نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔مجھے معلوم ہوا کہ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پرکیا قیامت ڈھائی۔مجھے روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتہ چلا۔مجھے پتہ چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا، اوراب امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کررہا ہے۔اور مجھے پتہ چلا کہ خود امریکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔مجھے جنگ خلیج کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا جن سے ہزاروں لوگ مر گئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔میں نے امریکہ کے صادر کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا اور کس طرح ،اقوام متحدہ کے مطابق،نتیجتاً پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔ مجھے میڈیلائن ایلبرائٹ کے ’۰ ۶ منٹ ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے اپنا یہ اظہار خیال کیا تھا کہ یہ بچے اسی قابل تھے۔میں نے گیارہ ستمبرکو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انہیں عمارتوں میں اڑادینے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کردیاہے۔میں نے حملے کے پہلے روزآپریشن ’Shock and Awe‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی، ہسپتال کے واڑدوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے(ظاہر ہے یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہواجہاں چوبیس مسلمانوں کو جن میں ایک چھیتر سالہ ویل چیئر پربیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کے بستروں میں ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے عبیر الجنبی کے بارے میں پتی چلا، ایک چودہ سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے پھر اس کے اور اس کے گھر والوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔میں بس اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اسے بے عزت کریں۔آج بھی جبکہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں ،ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان ، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں روزانہ مستقل بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کررہے ہیں۔پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔
میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔ اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔
لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔
میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔
آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
اپنے ہی ملٹری کالجوں میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو تباہ کر دینے کے لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ارتکاب کئے گئے اپنے تاریخی سنگین ترین جرم کی طرزپر تباہی کے منصوبے بنائیں اور ان کے ارباب بست و کشاد کو خبرتک نہ ہو۔ حالانکہ اس جرم پرانہیں شرم آنی چاہئیے تھی۔ ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ امريکی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار اہلکار کا حوالہ دے سکتے ہيں جس نے اس اقدام کی حمايت کی ہو؟

حقيقت يہ ہے کہ جس امريکی فوج پر آپ بے دريخ نقطہ چينی کر رہے ہيں، انھی کی جانب سے اس مسلئے کی جانب توجہ مبذول کروائ گئ اور انکوائری کے عمل کا آغاز کيا گيا تا کہ اس بات کا تعين کيا جا سکے کہ قابل اعتراض مواد تربيتی کورس ميں کيسے شامل ہوا؟

ہم اس بات کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہيں کہ مستقبل ميں اس قسم کا واقعہ پيش نا آئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ امريکی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار اہلکار کا حوالہ دے سکتے ہيں جس نے اس اقدام کی حمايت کی ہو؟

حقيقت يہ ہے کہ جس امريکی فوج پر آپ بے دريخ نقطہ چينی کر رہے ہيں، انھی کی جانب سے اس مسلئے کی جانب توجہ مبذول کروائ گئ اور انکوائری کے عمل کا آغاز کيا گيا تا کہ اس بات کا تعين کيا جا سکے کہ قابل اعتراض مواد تربيتی کورس ميں کيسے شامل ہوا؟

ہم اس بات کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہيں کہ مستقبل ميں اس قسم کا واقعہ پيش نا آئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
چور رنگے ہاتھوں چوری کرتا پکڑا جائے تو کیا وہ چوری کے عمل کی حمایت کرے گا؟۔
:rondoo:
ہاں یہ ضرور بتائیے کہ دوسرے ممالک کے تعلیمی نصاب پہ چیں بہ چیں ہو کر اس میں تبدیلیاں کروانے والا امریکہ اپنے ہی ملک میں فوجی کالج کے نصاب سے کیسے بے خبر رہ گیا؟۔ آپ کی حکومت نے "حتی الامکان" کوشش کی کہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے لیکن یہ "حتی الامکان" وفا نہ ہو سکا۔ آپ کی حکومت نے "حتی الامکان" شہری آبادیوں کو قتل نہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ "حتی الامکان" آپ کی حکومت کی منافقت کا منہ دیکھتا رہ گیا۔اس "حتی الامکان" کا انجام بھی یہی ہو گا۔ اور بھی بہت سارے "حتی الامکان" ہیں جو آپ کو بھی معلوم ہیں لیکن جب معاملہ ہی ڈھٹائی کا ہے تو پھر کسی بھی قسم کا جھوٹ ضمیر کو بوجھل نہیں کیا کرتا۔
 

علی خان

محفلین
کيا آپ امريکی حکومت کے کسی بھی ذمہ دار اہلکار کا حوالہ دے سکتے ہيں جس نے اس اقدام کی حمايت کی ہو؟
تو کیا یہ سب کچھ فوج کے نصاب میں بھوتوں اور جنوں نے شامل کروادیا ہے، یہ کیا جاہلوں والی بات کر رہے ہوں، کیا امریکہ بہادر کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے، کہ جن لوگوں نے اس نصاب کی منظوری دی ہے، اُن لوگوں کو میڈیا کے سامنے لائے۔ فواد تم بتاوں کیا حکومت کی مرضی کے بغیر یہ ممکن ہے، کہ وہ کوئی غیر منظور شدہ نصاب فوجی بیرکوں میں پڑھائے ۔ میرا نہیں خیال کے یہ اتنا آسان ہے۔ اور اتنی بھی چھوٹی بات نہیں کہ اسکو اتنی آسانی کے ساتھ بغیر ڈکار لئے تم لوگ ہضم کر لوں۔ یہ کسی خاص خطے کی بھی بات نہیں ہو رہی ہے، یہ تو ایک مکمل مذہب اسلام کی بات ہو رہی ہے۔ مطلب آدھی دنیا سے جنگ۔ تو یہ جنگ امریکہ بہت سوچ سمجھ کر لڑھ رہا ہے۔ کیا ہم لوگ بچے ہیں جو تم یہاں آکر لفظوں کی ہیر پیر سے ہم لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ تم ابھی دودھ پیتے بچے ہوں۔ یہاں تمام لوگ جانتے ہیں۔ کہ تم لوگوں کی اصلیت کیا ہے۔
 

Fawad -

محفلین
کس قدر معصوم ہیں امریکی ۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہاہے:( ۔ بامیان کے مجسموں کی تباہی کی پاداش میں پورے ملک کو ملیا میٹ کر دینے والے اپنے ہی ملٹری کالجوں میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کو تباہ کر دینے کے لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ارتکاب کئے گئے اپنے تاریخی سنگین ترین جرم کی طرزپر تباہی کے منصوبے بنائیں اور ان کے ارباب بست و کشاد کو خبرتک نہ ہو۔ ۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ان دونوں واقعات ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔ طالبان حکومت نے جانتے بوجھتے ہوئے دانستہ صديوں پرانے مجسمے مسمار کرنے کا فيصلہ کيا تھا باوجود اس کے کہ عالمی برادری کی طرف سے تواتر کے ساتھ اس عمل کی مذمت اور روادری کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی گئ تھی۔ دوسری جانب امريکی فوج نے غلطی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری قبول کی اور تربيتی کورس ميں قابل اعتراض مواد کی شموليت پر افسوس کا اظہار کيا ہے۔

امريکی فوج کے افسران اور طالبان کے طرزعمل ميں موازنہ کيونکر کيا جا سکتا ہے کيونکہ ہماری فوجی قيادت نے معاملے کی درستگی کے ليے تمام اہم قدم اٹھائے جبکہ طالبان نے تو واضح طور پر اس حقيقت کو ہی تسليم کرنے سے انکار کر ديا کہ ان کے اقدام سے دنيا بھر ميں ہزاروں افراد کے جذبات کو ٹھيس پہنچنے کا انديشہ ہے۔

اس کے علاوہ يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔۔ امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔

يہاں تک کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

کیا آپ يہ سمجھتے ہيں کہ طالبان کی جانب سے غير ملکی دہشت گردوں کو پناہ دينا برحق اور جائز تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

علی خان

محفلین
امريکہ نے افغانستان سميت دنيا کے کسی بھی ملک ميں کسی مخصوص نظام حکومت کو زبردستی مسلط کرنے کی نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی نظام کی ترغيب دی ہے۔
تو کیا عراق پر حملہ ہم نے کیا تھا۔ کیا عراق پر حملہ جائز تھا، کیا اقوام متحدہ نے بار بار امریکہ کوحملہ سے منع نہیں کیا تھا۔ کیا ساری دنیا نے امیریکہ کو حملہ سے منع نہیں کیا تھا۔ اور کیا امریکہ نے اس سے پہلے صدام حسین کو اقتدار سے الگ کرنے کی بے انتہا کوشش نہیں کی تھی، اور جب الگ نہ ہوا تو حملہ کرکے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرلی۔ اور افغانستان میں عملاً کس کی حکومت ہے۔ میرے خیال سے اسکا جواب بچوں کو بھی معلوم ہے۔
 

علی خان

محفلین
اور یہ دیکھیں۔ فواد صاحب آپ نے فرمایا تھا۔ کہ اُن لوگوں کو اپنی فرائض سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تو پھر یہ کیا ہے۔

 

Fawad -

محفلین
تو کیا عراق پر حملہ ہم نے کیا تھا۔ کیا عراق پر حملہ جائز تھا،


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس ميں کوئ شک نہيں کہ صدام حسين کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ متنازعہ اور خاصی بحث کا موجب بنی ليکن ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ صدام کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ اس بنا پر نہيں کی گئ تھی کہ امريکہ وہاں پر مخصوص اقدار يا نضام رائج کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس ضمن ميں ايک دہائ پر محيط واقعات کا تسلسل، سفارتی طور پر مکمل ڈيڈ لاک اور اس تاريخی تناظر کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے جو صدام حکومت کے خلاف امريکی اقدامات کی وجہ بنا۔

ستمبر 11، 2001 کے سانحے کے بعد امريکہ ميں يہ تشويش پائ جاتی تھی کہ حکومت کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہيے جو مستقبل ميں امريکہ اور عالمی برادری کو دہشت گردی کے مزيد واقعات سے محفوظ رکھ سکے۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے اپنے ہمسايہ ممالک پر حملوں کی طويل تاريخ، کيميائ ہتھياروں کا بے دريخ استعمال اور دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی امريکی تشويش ميں اضافے کا سبب بن رہی تھی۔

اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔

اس بات ميں کوئ شک نہيں کہ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ آيا سال 2003 ميں عراق کے خلاف طاقت کا استعمال ہی بہترين آپشن تھا يا نہيں اور اس آپشن پر امريکہ ميں شديد بحث کی گئ تھی – ليکن صدام حسين کی تشدد سے پر تاريخ سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔


ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ بہت سی عالمی تنظيموں اورامريکہ سميت بہت سے ممالک ميں عوامی اور حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلئے پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اس ميں کوئ شک نہيں کہ صدام حسين کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ متنازعہ اور خاصی بحث کا موجب بنی ليکن ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ صدام کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ اس بنا پر نہيں کی گئ تھی کہ امريکہ وہاں پر مخصوص اقدار يا نضام رائج کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس ضمن ميں ايک دہائ پر محيط واقعات کا تسلسل، سفارتی طور پر مکمل ڈيڈ لاک اور اس تاريخی تناظر کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے جو صدام حکومت کے خلاف امريکی اقدامات کی وجہ بنا۔

ستمبر 11، 2001 کے سانحے کے بعد امريکہ ميں يہ تشويش پائ جاتی تھی کہ حکومت کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہيے جو مستقبل ميں امريکہ اور عالمی برادری کو دہشت گردی کے مزيد واقعات سے محفوظ رکھ سکے۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے اپنے ہمسايہ ممالک پر حملوں کی طويل تاريخ، کيميائ ہتھياروں کا بے دريخ استعمال اور دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی امريکی تشويش ميں اضافے کا سبب بن رہی تھی۔

اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔

اس بات ميں کوئ شک نہيں کہ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ آيا سال 2003 ميں عراق کے خلاف طاقت کا استعمال ہی بہترين آپشن تھا يا نہيں اور اس آپشن پر امريکہ ميں شديد بحث کی گئ تھی – ليکن صدام حسين کی تشدد سے پر تاريخ سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔


ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ بہت سی عالمی تنظيموں اورامريکہ سميت بہت سے ممالک ميں عوامی اور حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلئے پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall


’عراق پر حملہ جائز نہیں تھا‘

عراق پر حملے کی حمایت کرنے کے ہالینڈ کی حکومت کے فیصلے پر کی جانے والی ایک انکوائری میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یہ حملہ جائز نہیں تھا۔
ڈچ انکوائری کمیٹی برائے عراق کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے جو قرار دادیں منظور کی تھیں ان سے دو ہزار تین میں کی جانے والی مداخلت کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔
یہ انکوائری وزارتِ خارجہ کی ان یاداشتوں کے منکشف ہو جانے کے بعد شروع ہوئی تھی جن سے یہ شعبہ پیدا ہوتا تھا کہ عراق پر حملے کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
ہالینڈ نے دو ہزار تین میں عراق پر کیے جانے والے حملے کی صرف سیاسی حمایت کی تھا اور اس نے کوئی فوجی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار برائے یورپ جونی ڈائمنڈ کا کہنا ہے اس رپورٹ سے جنگ کی حمایت کرنے کےہالینڈ کی حکومت کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو عراق پر حملے کے خلاف مقدمے کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں وزرا پر من پسند انٹیلیجنس رپورٹوں کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وزیراعظم جان پیٹر بالکننڈے کو باالعموم پالیسی سازی سے الگ رکھا گیا اور ساری پالیسی اس وقت کے وزیرخارجہ جاپ ڈی ہوپ شیفر بنا رہے تھے۔
وزیراعظم بالکننڈے نے رپورٹ کے حوالے سے کمیٹی کا رسمی طور پر شکریہ بھی ادا کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے انہیں رپورٹ کے مطالعے کے لیے وقت درکار ہے۔
مسٹر بالکننڈے نے امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے اس ’اشتراکِ آمادگان‘ نامی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا جو انہوں نے اس بنیاد پر بنایا تھا کہ اس وقت کے عراق کے صدر صدام حسین اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ان کے پاس وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بھی موجود ہیں۔
ہالینڈ کی پارلیمنٹ نے حملے حمایت کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
انکوائری کمیٹی کے چئرمین ولیبرورڈ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سے ہالینڈ کی وفاداری نے حملے کے قانونی جواز کی تصدیق کو یقینی بنانے پر بالا دستی حاصل کر لی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2010/01/100112_iraq_inquiry_sen.shtml؎
 
فواد صرف ایک سوال کا جواب دیں اور مزید آئیں بائیں کرنے سے گریز کریں کہ اقوام متحدہ کا مینڈیٹ عراق پر حملے کے لیے امریکا کو حاصل تھا یا نہیں ۔
ایک سابقہ پوسٹ کا لنک جس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ مسٹر فواد فرام ڈیجیٹل ویجیٹیبل مارکیٹ کیا سڑا ہوا سودا بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں
اردو محفل کی یہ پوسٹ پوری پڑھ ڈالیئے یہاں فواد کے تمام پینرے افغان اور عراق جنگ کے حوالے سے آپ کومل جائیں گے۔​
 
Top