امریکہ کے نام!

بھائی یہی حقیقی نظریہ ہے، جس کی مخالفت ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان امریکہ کے جوتے چاٹتا ہے۔ ایک خام خیالی ہے۔ کوئی کسی کی جوتے نہیں چاٹتا۔ ساتھ چلنا ایک دوستانہ فعل ہے۔ ان لوگوں کی حمایت جو قاتل ہیں اور ایک مخصوص قسم کی حکومت کے حامی ہیں درست عمل نہیں‌ہے۔ لوگوں کو ابھارنا کہ چلو ایک خاص رنگ و نسل یا مذہب یا ملک کے لوگوں سے نفرت کرو کوئی قابل قدر بات نہیں۔ اگر امریکی تعاون حقیقت نہیں‌ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کے خلاف صرف جذباتی باتیں نہیں ہے تو پھر یہ شور و غوغا کیسا؟

رہ گئی بات نظریاتی اختلاف کی سزا موت کی تو ایسا بالکل ہے، چاہے اسے کسی الفاظ‌ سے ‌کہا جائے، یا کسی دھماکہ سے ۔ بس بھیڑ چال ایسی ہے کہ لوگوں کو خود بھی پتہ نہیں کہ وہ کس طاغوتی اور شیطانی طاقت کے ایجنٹ بن رہے ہیں۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی جو بھی ہو۔ پاکستان میں بے جا مداخلت کا آپ کو پتہ ہے اور ہماری سٹیبلشمنٹ، ہماری آرمی، ہماری انٹیلیجنس، کسی کو پتہ نہیں ؟سب کے سب خاموش بیٹھے ہیں ۔ سیاسی مقاصد کے لئے امریکہ کے دشمن ہونے کا ہوا بنانا ایک بھانک قسم کی طلسماتی غلطی ہے۔ یہ ایسا جادو ہے جو خود اپنے سر پر پھوٹے گا۔ اس لئے کہ ایسی ہانک کسی انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ ان چند موقع پرست ملاؤں کی موقع پرستی ہے جو اپنے دلوں پر طرح طرح کے زخم لے کر بیٹھے ہیں۔ نفرت پھیلانے کا یہ عمل من حیث القوم آپ کو کمزور تو بنا سکتا ہے مظبوط نہیں۔

آپ کو پاکستان کے کن مسائیل میں امریکہ کا ناجائز ہاتھ ، دشمنی، کھوکھلا کرنے کوشش وغیرہ نظر آتے ہیں؟‌ ایسی کون سی کوشش ہے جو امریکی ایمبیسی کے سامنے صبح‌چار بجے سے کھڑے ہونے والے پاکستانیوں کو نظر نہیں آتی؟‌ امریکہ سے معامل کرنے والے بنکوں کو نظر نہیں آتی۔ پاکستانی ایکسپورٹز کو نظر نہیں آتی جو اپنا مال امریکہ بھیجتے ہیں؟ پاکستانی امپورٹرز کو نظر نہیں آتی ؟‌ صرف ملاؤں کو نظر آتی ہے؟‌ ان کا دین جمہوریت کے نام پر فورا خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ان کا دیں تو اس وقت بھی خطرے میں پڑا تھا جب علیگڑھ کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔۔ پھر یہی علی گڑھی تعلیم یافتہ مسلمان تھے جنہوں نے سیست میں صف اول کا کردار ادا کیا ااور ایک مظبوط ملک کی بنیاد ڈالی۔ اس ملک کو بنانے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی، قیام پاکستان سے لے کر آج تک۔

پاکستان میں امریکہ کی بے جا مخالفت کا نعرہ بس ایک ڈھکوسلہ ہے اور کچھ نہیں۔
 

خرم

محفلین
اس دھاگے پر نہ تو کسی نے امریکہ سے ٹکرانے کی ہانک لگائ ہے اور نہ ہی نظریاتی اختلاف کی سزا موت تجویز کی ہے۔ بلکہ نظریات پر تو بات ہی نہیں ہوئ۔ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی یعنی جوتے چاٹنے کی پالیسی پر بات ہورہی ہے اور امریکہ کی بے جا مداخلت پر تجزیہ کیا جارہا ہے۔ اگر کسی کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ضرورت سے زیادہ مقدار میں ہے تو کسی اور جگہ ستم آزمائ کرے یہ دھاگا بلاوجہ کے مفروضے ایجاد کرکے اس پر تقریر فرمانے کے لیے نہیں ہے۔

آپ کا تشریف لانا ہی کافی ہے۔ اب عقل و دانش و منطق کا یہاں کیا گزر۔ لہٰذا ہم تو چلے۔

قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے اللہ اکبر۔
 

محمد سعد

محفلین
اگر پاکستانی حکومت امریکہ کے جوتے نہیں چاٹتی تو اس کے کہنے پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف اتنے سارے محاذ کیسے کھول لیے؟ اب اس کے جواب میں فاروق سرور صاحب طالبان کی برائیاں کرنے لگ جائیں گے۔ چنانچہ پہلے سے ہی عرض کر دیتا ہوں کہ اول تو دہشت گرد کا لفظ مغربی میڈیا نے اس طرح ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا ہے کہ اب ہمیں ہر داڑھی والا شخص دہشت گرد نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ کی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ (جو کہ دراصل مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے) کی ابتدا ہی غلط طریقے سے ہوئی تھی۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر واقعی باہر سے ہی حملہ ہوا ہوتا تو ایک دو دنوں میں ہی بش صاحب اسامہ بن لادن کو قصوروار ٹھہرا کر افغانستان پر چڑھائی کیوں کر دیتے؟ اور فرض کریں کہ یہ حملہ واقعی اسامہ بن لادن نے ہی کروایا تھا تو اس کے جواب میں ایک پورا ملک تباہ کر دینا اور بے شمار بے گناہوں کو بمباری کر کے قتل کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟
معاف کرنا۔ میں بھول گیا تھا کہ انتہا پسند تو صرف مسلمان ہی ہوا کرتے ہیں۔ بھلا مغرب سے درآمد کردہ نظریات میں انتہا پسندی کا کیا کام۔ :-P
ایک بار پھر معذرت کہ امریکی حکومت کو انتہا پسند کہہ دیا۔ آئندہ پوری کوشش کروں گا کہ ایسی کوئی غلطی نہ ہو۔ :-P
 

خاور بلال

محفلین
یہ کہنا کہ پاکستان امریکہ کے جوتے چاٹتا ہے۔ ایک خام خیالی ہے۔ کوئی کسی کی جوتے نہیں چاٹتا۔ ساتھ چلنا ایک دوستانہ فعل ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان شاید کبھی ماضی بعید میں دوستی تھی لیکن اب صرف آقا اور غلام، حاکم اور محکوم کا تعلق ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے لیے جو کچھ کیا پاکستان نے اس سے زیادہ قیمت چکائ ہے۔ صومالیہ میں امریکی فوجیوں کو بچانے کے لیے کس نے اپنے فوجی بھاڑ میں جھونکے تھے جن کی لاشیں واپس آئی تھیں؟ سرد جنگ کے زمانے میں افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ کس نے کیا؟ یہی دوستی تھی جس کے بھروسے پاکستانی عوام 71ء کی جنگ میں امریکی بحری بیڑے کی جانب سے امداد کی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔ اگر دوستی میں دھمکیاں دینا اور طاقت کی زبان استعمال کرنا جائز ہے تو دشمنی کسے کہتے ہیں؟ اسی پاکستان نے روس سے ٹکر لے کر امریکا کے سپر پاور بننے کی راہ ہموار کی اور اب یہی پاکستان ہے جو امریکا کی جنگ میں اتنا جھلس چکا ہے کہ اس کی بنیادیں ہلتی محسوس ہورہی ہیں۔ ایک طرف پاکستان امریکا کا اتحادی ہے دوسری جانب یہی امریکا آئے روز پاکستان میں میزائل داغ کر امن کی کوششیں ناکام بنادیتا ہے۔ یہ جو پاکستان میں شدت پسندی کی لہر ہے یہ امریکا کا ہی تحفہ ہے اگر امریکا توسیع پسندانہ عزائم نہ رکھتا ہوتا تو کسی کو بھی اس سے دشمنی کی خواہش نہیں تھی۔ اگر پاکستان کو ملنے والی امداد کا موازنہ کیا جائے تو امریکی امداد آٹے میں نمک بھی نہیں۔ جب پاکستان کو اپنی بقا کا مسئلہ لاحق ہوا تو عرب ممالک ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے اپنے دل وا کیے امریکا اس وقت کہاں تھا؟ امریکہ کو تو شروع سے پاکستانی ایٹمی پروگرام پر تشویش لاحق رہی ہے۔

لوگوں کو ابھارنا کہ چلو ایک خاص رنگ و نسل یا مذہب یا ملک کے لوگوں سے نفرت کرو کوئی قابل قدر بات نہیں۔ اگر امریکی تعاون حقیقت نہیں‌ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کے خلاف صرف جذباتی باتیں نہیں ہے تو پھر یہ شور و غوغا کیسا؟

پھر ایک مفروضہ۔ میں واضح کردوں کہ جو امریکی غیر انسانی ایجنڈے اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ہیں میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ہر پاکستانی ان کی عزت کرتا ہے۔ محض رنگ و نسل یا مذہب کی بنیاد پر تو کوئ بھی امریکا سے نفرت نہیں کرتا۔

امریکہ کی خارجہ پالیسی جو بھی ہو۔ پاکستان میں بے جا مداخلت کا آپ کو پتہ ہے اور ہماری سٹیبلشمنٹ، ہماری آرمی، ہماری انٹیلیجنس، کسی کو پتہ نہیں ؟سب کے سب خاموش بیٹھے ہیں-

تو اس میں میری کیا غلطی ہے؟ غلطی تو ان کی ہے جن کو سب معلوم ہے پھر بھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ رہی بات آرمی اور انٹیلیجنس کی تو یہ ادارے تو خود امریکا کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی امریکی میزائل پاکستانی حدود میں گرتا ہے اس کی ذمہ داری خود اپنے سر لے لیتے ہیں مجبورا امریکا کو وضاحت پیش کرنی پڑتی ہے کہ یہ کارنامہ ہم نے کیا ہے۔

آپ کو پاکستان کے کن مسائیل میں امریکہ کا ناجائز ہاتھ ، دشمنی، کھوکھلا کرنے کوشش وغیرہ نظر آتے ہیں؟‌ ایسی کون سی کوشش ہے جو امریکی ایمبیسی کے سامنے صبح‌چار بجے سے کھڑے ہونے والے پاکستانیوں کو نظر نہیں آتی؟‌ امریکہ سے معامل کرنے والے بنکوں کو نظر نہیں آتی۔ پاکستانی ایکسپورٹز کو نظر نہیں آتی جو اپنا مال امریکہ بھیجتے ہیں؟ پاکستانی امپورٹرز کو نظر نہیں آتی ؟‌ صرف ملاؤں کو نظر آتی ہے؟‌

جو لوگ صبح چار بجے سے امریکی ایمبیسی کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ان کی اکثریت محض معاشی آسودگی کی خاطر امریکا جانا چاہتی ہے۔ باقی بینکوں، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو تو وہی کرنا چاہیے جس میں منافع کے امکانات زیادہ ہوں۔ رہی بات ملاؤں کی تو یہ صرف ملاؤں کا مسئلہ نہیں۔ دنیا کی اکثریت امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم سے اختلاف رکھتی ہے کیا سب ملا ہیں؟ محض ملاؤں سے نفرت کی بنا پر ہر چیز ان کے سر تھونپنا چہ معنی؟ اسی دھاگے کو دیکھ لیجیے۔ اس دھاگے میں وہ تمام لوگ جو امریکا سے شاکی ہیں کیا سب کے سب ملا ہیں؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہی دوستی تھی جس کے بھروسے پاکستانی عوام 71ء کی جنگ میں امریکی بحری بیڑے کی جانب سے امداد کی توقعات لگائے بیٹھے تھے۔

Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بہت سے فورمز پر مجھ سے ماضی بعيد ميں پيش آنے والے واقعات کے بارے ميں سوال کيے جاتے ہيں جن کا جواب دينا ناممکن نہيں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ماضی کے وہ لوگ جو ان واقعات کے اہم کردار تھے اب موجود نہيں ہيں لہذا ان کے بيانات کے بغير جو بھی بات ہو گی وہ محض قياس پر مبنی ہو گی۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی ياد رہے کہ ہر امريکی حکومت کی پاليسی اپنے مخصوص دور کے حوالے سے اس دور کے زمينی حقائق کی مناسبت سے ترتيب دی جاتی ہے۔ ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔

ليکن ماضی کے کچھ موضوعات ايسے ہيں جن کا ذکر بار بار کيا جاتا ہے۔ جرنل کيانی نے اپنے انٹرويو ميں بہت سے اہم موضوعات پر بات کی ہے جس پر بحث اردو کے تمام فورمز اور بلاگز پر جاری ہے۔ ليکن ميری توجہ کا مرکز حاليہ واقعات نہيں بلکہ 1971 کی پاک بھارت جنگ اور امريکہ کی جانب سے ايک بحری جہاز کے مبينہ وعدے کے بارے ميں ان کے خيالات ہيں۔ امريکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اس "واقعے" کا ہميشہ ذکر کيا جاتا ہے اور 1971 کی جنگ ميں امريکہ کی جانب سے فوجی امداد نہ ملنے کو اس دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے کہ امريکہ نے وعدے کے باوجود مشکل وقت ميں پاکستان کی مدد نہيں کی۔ اس حوالے سے اہم بات يہ ہے کہ کبھی کسی فوجی معاہدے، کسی امريکی اہلکار کے سرکاری بيان يا کسی ايسی مصدقہ دستاويز يا شخصيت کا ذکر نہيں کيا جاتا جس کی بنياد پر حقائق کی تحقيق کی جا سکے۔

ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے 1971 کی پاک بھارت جنگ اور اس حوالے سے امريکہ کے کردار کی حقيقت جاننے کے ليے بہت سی دستاويز حاصل کی ہيں جن ميں کچھ متعلقہ مواد يہاں پيش کر رہا ہوں۔

اگست 16 1971 کی يہ دستاويزايک رپورٹ پر مبنی ہے جو ہنری کسنجر نے اس وقت کے امريکی صدر کو ارسال کی تھی جس ميں 16 دسمبر 1971 کے واقعے سے چند ماہ قبل امريکی حکومت کی برصغير ميں بڑھتی ہوئ کشيدگی کے پس منظرميں خارجہ پاليسی کی وضاحت ہوتی ہے۔

http://download176.mediafire.com/bceohtjonnxg/21mb9zfwc2e/BEBB23.pdf

اس پورٹ کے صفحہ نمبر 2 پر ہنری کسنجر لکھتے ہيں کہ

"ميں نے برصغير کے حوالے سے اپنی پاليسی ميں واضح کيا ہے کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ معيشت اوربنگالی مہاجرين کے مسائل کو سياسی معاملات خاص طور پر مشرقی بنگال کے معاملے سے الگ رکھا جائے کيونکہ يہ وہ معاملات ہيں جہاں ہم مدد کرنا چاہتے ہيں۔ مشکل ترين اندرونی مشکلات کے باوجود ہم نہ ہی پاکستان کی سبکی چاہتے ہيں اور نہ ہی دوسروں کو ايسا موقع دينے کے حق ميں ہيں۔ بنگالی مہاجرين کے حوالے سے بھارت کی مشکلات سے آگاہ ہيں ليکن اس صورت حال کی آڑ ميں بھارت کو پاکستان سے پرانے حساب پورے کرنے ميں اس کا ساتھ نہيں ديں گے۔ ہم نے بھارت پر واضح کر ديا ہے کہ کسی فوجی کاروائ کی صورت ميں اس کی معاشی امداد بند کر دی جائے گی"۔

اسی دستاويز کے صفحہ نمبر 7 ميں فرانس ميں چين کے سفير ہوانگ چين اور ہنری کسنجر کی گفتگو کا يہ حصہ امريکی پاليسی کی وضاحت کرتا ہے۔ ہنری کسنجر کے مطابق

" اگر بھارت نے ہميں مشرقی پاکستان کے سياسی مسلئے ميں ملوث کرنے کی کوشش کی تو ہمارا موقف يہ ہو گا کہ اس کا انحصار پاکستان پرہے نا کہ امريکہ پر۔ ہم چاہتے ہيں کہ پاکستان بنگالی مہاجرين کی واپسی اور ان کی آبادکاری اور بہبود کا ايسا مربوط پروگرام تيار کرے کہ بھارت کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے"

اسی صفحے پر گفتگو کا يہ حصہ خاصہ اہم ہے۔۔۔

"ميں آپ کو ذاتی حيثيت ميں يہ بات بتا رہا ہوں کہ ہمارا تاثر يہ ہے کہ حکومت پاکستان قابل احترام ليکن سياسی تدبر سے عاری ہے۔ پاکستان کے جتنے بھی دوست ہيں انھيں چاہيے کہ وہ اس امر ميں پاکستان کی حوصلہ افزائ کريں تاکہ مہاجرين کی واپسی کو يقينی بنايا جا سکے۔ صرف اسی صورت ميں ہماری حکمت عملی کو کاميابی مل سکتی ہے جس کے مطابق ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کو فوجی مداخلت کا کوئ موقع نہ ملے۔"

پاکستان کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد کی فراہمی کے حوالے سے امريکی پاليسی کی وضاحت اسی رپورٹ کے صفحہ 8 پر موجود ہے

"کانگريس کے فیصلے کے مطابق ہم کسی بھی قسم کی فوجی امداد نہيں دے سکتے۔ ليکن اگر پاکستان کے دوسرے دوست فوجی سازوسامان فراہم کرنا چاہيں تو ہم يہ بات سمجھ سکتے ہيں۔ تاہم مشرقی پاکستان ميں انارکی روکنے کے ليے ہم ہر قسم کی معاشی امداد اور خوراک کی فراہمی کے پروگرام کو يقينی بنائيں گے۔"

پندرہ نومبر1971 کی اس دستاويز ميں "ٹاسک گروپ" بيجھنے کا ذکر موجود ہے ليکن اس کا مقصد کسی ايک فريق کی مدد نہيں بلکہ حالات بگڑنے کی صورت ميں کسی تيسرے فريق کو اس تنازے ميں شامل ہونے سے روکنا تھا۔


http://download339.mediafire.com/xntaemcmnz0g/yqggh1fetxb/BEBB26.pdf

سات دسمبر 1971 کی اس دستاويز کے مطابق امريکہ نے پاکستان اور بھارت پر يہ واضح کر ديا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو امريکہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے فوجی سازوسامان کی ترسيل نہيں کی جائے گی۔ اسی دستاويز سے يہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کے صدرجرنل يحيی اس حقيقت سے پوری طرح آگاہ تھے اور انھوں نے اس ضمن ميں جارڈن کے شاہ حسين سے ايف – 104 طياروں کی فراہمی کی درخواست بھی کی تھی۔

http://download91.mediafire.com/dr02imx7y2ug/dzx4ymohw5k/BEBB29.pdf

اسی رپورٹ کے صفحہ 5 کا آخری پيراگراف انتہاہی اہم ہے جس کے مطابق

امريکہ نے 1965 سے جاری پاک بھارت کشيدگی کے بعد سے دونوں ممالک کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی روک دی ہے۔ اس قانون ميں صرف ايک بار نرمی اکتوبر 1970 ميں کی گئ تھی جب پاکستان کو20 ايف – 5 طياروں کی فراہمی کا وعدہ کيا گيا تھا ليکن اس معاہدے پر حکومت پاکستان نے دستخط نہيں کيے تھے۔

ان دستاويزی ثبوتوں کی موجودگی ميں يہ دعوے کرنا کہ امريکہ نے 1971 کی جنگ ميں پاکستان کی فوجی امداد کے وعدے کيے تھے بالکل بے بنياد ثابت ہوجاتے ہيں۔

پاک بھارت 1971 کی جنگ میں امريکہ کا کردار سمجھنے کے ليے 7 دسمبر 1971 کو وائٹ ہاؤس ميں ہنری کسنجر کی يہ پريس کانفرنس نہايت اہم ہے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ اس وقت سفارتی سطح پر امريکہ پر اس حوالے سے کڑی تنقيد کی جا رہی تھی کہ امريکہ کا جھکاؤ مکمل طور پر پاکستان کی جانب تھا،جيسا کہ پريس کانفرنس ميں کيے جانے والے مختلف سوالوں سے واضح ہے۔

http://download200.mediafire.com/eydcgoizcb3g/kljtywwywwx/BEBB30.pdf

ويسے يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے ضمن ميں ايک بحری بيڑے کا ذکر اس طرح کيا جاتا ہے جيسے پوری جنگ کے نتيجے کا دارومدار محض اسی بات پر تھا۔ يہ حقيقت ہے کہ 1971 کی جنگ ميں ناکامی پر پاکستانی قائدين کی سياسی ناکامی کو تسليم کرنے کے مقابلے ميں امريکہ کو مورد الزام قرار دينا زيادہ آسان ہے۔ ليکن ايسے سينکڑوں دستاويزی ثبوت موجود ہيں جس ميں امريکی حکومت کا موقف واضح ہے جس کے مطابق دونوں ممالک پر يہ واضح کر ديا گيا تھا کہ جنگ کی صورت ميں دونوں ممالک کو کسی بھی قسم کی فوجی امداد مہيا نہيں کی جائے گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

محمد سعد

محفلین
یہ بحری بیڑے والی مثال جب بھی پیش کی جاتی ہے، تو اس کے پیش کیے جانے کا مقصد یہ کہنا نہیں ہوتا کہ ساری جنگ کا دارومدار اسی بیڑے پر تھا، اور نہ ہی یہ کہنا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں پاکستان کی شکست کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ تھا۔ بلکہ یہ مثال امریکہ کے اس غلیظ طرزِ عمل کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیش کی جاتی ہے کہ خود تو اپنے حلیفوں سے کام نکلوا لیتا ہے، لیکن جب انہیں اس کی مدد کی ضرورت پڑے تو خاموشی ایک طرف کھسک لیتا ہے۔ اس کی کئی اور مثالیں بھی اسی تھریڈ میں زیرِ بحث آ چکی ہیں۔ لہٰذا اس بحث کو دوبارہ شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی کسی بھی قوم کا خیرخواہ نہیں ہے۔ اس کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو، جو اس کے دنیا پر قبضے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، آپس میں ہی لڑا کر کمزور بنا دیا جائے۔ تاکہ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کی جا سکے۔ امریکہ ایک ایسا عفریت ہے کہ جسے اگر مزید مواقع ملتے رہے، تو یہ اپنے بہترین حلیفوں کو بھی نہیں چھوڑے گا۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔
 

خاور بلال

محفلین
ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔

محض تیس پینتیس برس پرانی بات ملکوں کی تاریخ میں ماضی کا حصہ نہیں بن جایا کرتی۔ اگر نصف صدی سے زائد ایک ہی پالیسی برتی جارہی ہوتو صرف تیس چالیس برس پرانے واقعات سے نتائج اخذ کرنے کے لیے کسی دوربین کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایسے میں ماضی ماضی نہیں رہتا بلکہ حال کا حوالہ بن جاتا ہے اور مستقبل کے لیے آئینے کا کام دیتا ہے جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آنے والا وقت کیا رنگ دکھائے گا۔ قوموں کی تاریخ میں پچاس ساٹھ برس تو محض دوستی اور دشمنی کے لیے ہاتھ بڑھانے میں لگ جاتے ہیں یہ کسی انسانی زندگی کی طرح نہیں کہ ساٹھ ستر برس میں ہی آدمی اپنی حیات کی تمام گھڑیاں پوری کرلےاور محض چند برس پرانی باتیں قصہ پارینہ بن جائیں۔ برحال اگر پرانی باتیں نہ بھی کی جائیں تو اب مسئلہ یہ ہے کہ “ڈیجیٹل آؤٹ ریچ ٹیم“ سے جب حالیہ واقعات کی بابت پوچھا جاتا ہے تو “آؤٹ آف ریچ“جوابات ملتے ہیں اور کسی گلی محلے کے ایف ایم ریڈیو کا گمان ہونے لگتا ہے۔ جس طرح امریکہ ایک ریاست ہے اسی طرح پاکستان ایک ریاست ہے، امریکا پاکستان کی حدود میں میزائل حملہ کرتا ہے اور اس ریاستی خلاف ورزی کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ سرحد پار سے آئے ہوئے دہشت گرد کونسا حدود و قیود کا لحاظ کرتے ہیں جو امریکہ کرے؟ ان کے جوابات میں امریکہ ریاست کی حیثیت سے پھدک کر اچانک چند افراد کے گروپ کی سطح پر آکر ڈھٹائ کے ساتھ مسکراتے ہوئے ذرا نہیں شرماتا۔ اگر کسی کا پرائمری ٹارگیٹ ہر صورت میں امریکا کا دفاع کرنا ہوتا ہے تو وہ پارسا بننے کی کوشش کیوں کرتا ہے؟
 
Top