امریکہ ، طالبان یا کوئی تیسرا راستہ

مہوش علی

لائبریرین
پاکستان کی مثال ایسے سوار کی ہے جس نے اپنے پاوں دونوں کشتیوں میں ڈالے ہوئے ہیں اور اس لیے وہ پہلی کشتی کا سوار ہے نہ دوسری کشتی کا۔ اپنی مرضی کی دہشت گرد تنظیموں پر حملہ کرتا ہے مگر امریکہ کی چاہتا ہے کہ تمام ایسی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کاروائی ہو جو پاکستان میں بیس بنا کر افغانستان جا کر حملے کر رہی ہیں۔

بہرحال ذیل کے مضمون میں تقریبا وہ تمام سوالات ہیں جو میرے ذہن میں ہیں۔ ماشاءاللہ بہت اچھے طریقے سے صورتحال کو واضح کرنے کے لیے یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

/////////////////////////////////////
headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
سوالات ہی سوالات ہیں۔ پہلا مسئلہ اہداف یا مفادات کا ہے۔ امریکہ کے کیا ہیں اور طالبان کے کیا۔ کیا یہ آپس میں متصادم ہیں یا کہیں جا کر ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے اہداف کیا ہیں۔ کیا ہم نے ان کا تعین کیا ہے۔ سیاسی پاکستان کے کیا ہیں، غیر سیاسی پاکستان کے کیا ہیں۔ سیاسی پاکستان یعنی سیاسی جماعتوں کے اہداف ایک سے ہیں یا ان میں بھی کوئی تضاد ہے۔ اسی طرح غیر سیاسی پاکستان، مسلح افواج، بیوروکریسی کے مفادات ایک ہیں یا ان میں بھی کوئی فرق ہے۔ امریکہ کے اعلانیہ مقاصد القاعدہ کی مرکزی قیادت کا سراغ، انہیں زندہ یا مردہ گرفتار کرنا، جہاں جہاں القاعدہ طالبان کے تربیتی مراکز ہیں، تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ان کیمپوں، قیام گاہوں کی تباہی۔ اسی لئے امریکہ کے 31000 فوجی افغانستان میں متعین ہیں جن میں سے کچھ نیٹو کی کمان میں ہیں اور کچھ براہ راست امریکی سینٹرل کمان میں۔ نیٹو کے امریکیوں سمیت 48000 فوجی افغانستان کے دشوار گزار علاقوں میں اپنی نوعیت کی بہت مشکل کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ امریکہ، یورپی یونین کے لئے یہ انتہائی حساس، اہم، فیصلہ کن آپریشن ہے، جس میں ہزاروں جانیں، اربوں ڈالر داؤ پر ہیں۔ یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان کی حکومت، فوجی جنرلوں یا سیاسی قائدین کے تند و تیز بیانات کے نتیجے میں اپنی بساط لپیٹ کر القاعدہ، طالبان کو یونہی مصروف جدال چھوڑ کر واپس چلے جائیں۔ پاکستان کو بھی اپنی جوابی حکمت عملی مرتب کرتے وقت بہت کچھ سوچنا ہو گا، جن میں کچھ نکات یہ ہو سکتے ہیں۔ 1۔ جس دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا، کیا اس دہشت گردی سے پاکستان کو بھی خطرہ لاحق تھا یا وہ مجبوراً اس مہم کا حصہ بنا۔ 2۔ اسامہ بن لادن اور ان کے دیگر ساتھی جن نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور جن کی تکمیل کے لئے وہ امریکہ اور مغرب کے خلاف جنگ کا اعلان کر رہے ہیں،کیا پاکستان کی حکومت، علمائے کرام اور عوام ان خیالات کی حمایت کرتے ہیں،کیا ان پر عملدرآمد کے لئے وہ بھی مغرب کے خلاف ہتھیار اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ 3۔ جن تنظیموں کی سرگرمیوں کو وجہ بناتے ہوئے امریکہ پاکستان کی حدود میں مداخلت کو عالمی امن کی خاطر جائز کہہ رہا ہے، کیا وہ سرگرمیاں پاکستان کے مفاد میں ہیں۔ کیا پاکستان کی حکومت، علمائے کرام اور عوام ان سرگرمیوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ 4۔ پہلے امریکہ پھر پاکستان نے جن مذہبی تنظیموں پر دہشت گردی، شدت پسندی اور انسانی جان و مال کو درپیش خطرات کے باعث خلاف قانون قرار دیا تھا، عوام کی نظر میں ان تنظیموں کو سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہئے یا نہیں۔ ان بنیادی سوالات کے جوابات حاصل کرنا ضروری ہیں چاہے پارلیمنٹ میں بحث کے ذریعے کئے جائیں یا کسی ریفرنڈم کے ذریعے۔ رائے عامہ جاننے کے بعد ہی فوج کے ان اقدامات کی عوامی تائید کا فیصلہ ہو سکتا ہے،جو وہ فاٹا اور سرحد کے تین چار اضلاع میں کر رہی ہے۔ 1۔ سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں فوج جن عناصر کے خلاف مسلح کارروائی کر رہی ہے،کیا ہم انہیں مملکت کا دشمن کہہ سکتے ہیں۔ فوج جب غیر مسلموں سے لڑتی ہے تو عوام کھل کر ساتھ دیتے ہیں۔ یہاں تو جنگ مسلمانوں سے ہے، تو عوام اور خود فوج کیسے قائل ہو کہ یہ ہلاکتیں اور خونریزی جائز ہے۔ 2۔ سوال یہ بھی ہے کہ ان مسلمانوں، ان پاکستانیوں کی بڑی تعداد اگر ملک میں ایک خاص نظام لانا چاہتی ہے تو اس کے لئے جمہوری راستے دستیاب ہیں وہ الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیتے۔ عوام کی حمایت حاصل کر کے برسر اقتدار آئیں اور اپنا منشور عمل میں لائیں۔ 3۔ امریکہ جو کچھ افغانستان میں کر رہا ہے وہ کتنا درست ہے کتنا غلط۔ اگر وہاں کے عوام طالبان کی قیادت میں اس کی مزاحمت کر رہے ہیں اور یہ مزاحمت اگر جائز ہے تو اسلامی ممالک اس کی اسی طرح حمایت کیوں نہیں کرتے، جیسے سوویت یونین کے خلاف کر رہے تھے۔ 4۔ امریکہ میں اب سیاسی قیادت کون کر رہا ہے اور فوج میں کون کمانڈر ہے۔ ان میں سرد جنگ کے دور کے کتنے لوگ ہیں اور نئے عہد کے کتنے۔ ان میں سے پاکستان کی سلامتی اور وجود کے کتنے ہمدرد ہیں۔ ان میں سے کتنے اس خطے کو پاکستان کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کتنے بھارت، کتنے افغانستان کے زاویوں سے۔ 5۔ امریکہ اور اس کے حامی حلقے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اتحادی ہونے کی حیثیت سے انتہا پسند، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف خود ایسی موثر کارروائی کیوں نہیں کرتا کہ امریکہ اور مغرب کو شکایت ہی نہ ہو۔ وہ خود اپنی فوجیں اتارنے کے اقدامات نہ کرے۔ 6۔ پاکستان کی حکومت اور فوج، ان تنظیموں میں امتیاز کرتی ہے تو کیوں۔ باجوڑ میں انتہائی سخت کارروائی کرتی ہے، سیکڑوں جنگجو ہلاک کرتی ہے لیکن بعض دوسرے علاقوں میں وہ امریکہ کے بتانے کے باوجود ایکشن میں نہیں آتے بلکہ امریکی اطلاعات پر جنگجوؤں کو پہلے سے الرٹ کر دیا جاتا ہے۔ وہ حملے سے پہلے ہی جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ امریکیوں کے پاس اس سلسلے میں سیٹلائٹ سے باقاعدہ تصاویر موجود ہیں۔ 7۔ دوسری طرف پاکستان بھی اپنے اتحادی امریکہ پر اسی قسم کا الزام عائد کرتا ہے کہ بیت اللہ محسود کے بارے میں امریکہ امتیازی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔ امریکہ کو باقاعدہ بتایا گیا کہ یہ فلاں فلاں جگہ موجود ہے، گزر رہا ہے۔ امریکہ نے جان بوجھ کر کوئی کارروائی نہیں کی۔ 8 ۔ جلال الدین حقانی اور ایسے لوگ جو بعض مقامات پر پاکستانی فوج کی کارروائی میں تعاون کرتے ہیں، ان کے خلاف امریکہ دانستہ کارروائیاں کرتا ہے۔ 9۔ یہ الزامات ایک خطرناک صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اتحادیوں میں اپنی مدمقابل قوتوں کے بارے میں تضادات ہیں، جس سے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ 9۔ موجودہ امریکی صدر کے پاس صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔ ان ساٹھ ستّر دنوں میں وہ اپنی تمام ناکام حسرتیں پوری کرنا چاہتے ہیں۔ لاؤ لشکر، اربوں ڈالر جھونک کر وہ اسامہ بن لادن یا ایمن الظواہری میں سے کسی کو گرفتار کرانا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے اپنی سرخروئی اور اس کے نتیجے میں اپنی پارٹی کے امیدوار کی انتخابی فتح ہے۔
یہ تمام نکات اور سارا پس منظر یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ معاملات بہت گمبھیر ہو رہے ہیں۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کی ذمہ داری صرف حکومت یا فوج پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ اس میں مملکت کی داخلی سلامتی کو بھی خدشات ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کو بھی۔ اس میں مذہبی جذبات بلکہ بنیادی عقائد بھی داخل ہو گئے ہیں۔ صرف حال ہی نہیں ہمارا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ اس لئے اس کی فوری اور طویل المیعاد حکمت عملی اجتماعی دانش سے مرتب کی جانی چاہئے۔ فوری راستہ تو اس سوال کے جواب سے نکلتا ہے کہ القاعدہ، طالبان یا جو بھی تنظیمیں فاٹا، سرحد اور سرحد کے اس پار مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں، وہ جو شریعت نافذ کرنا چاہتی ہیں اگر ہمارے علماء کی اکثریت اس کے حق میں ہے، تو وہ بھی اور پاکستانی فوج دونوں مسلح تصادم بند کریں۔ علماء کے ذریعے مذاکرات ہوں اور وہ شریعت صرف فاٹا، سرحد میں نہیں پورے ملک میں نافذ کی جائے۔ امریکہ پر بھی واضح کر دیا جائے کہ یہ کارروائیاں، نظریات کسی صورت میں بھی پاکستان کے مفاد کے خلاف نہیں ہیں۔ اگر علماء کی اکثریت اس شریعت کے حق میں نہیں ہے تو وہ اس کا اعلانیہ اظہار کریں۔ پھر ان تنظیموں کو پہلے مذاکرات کی دعوت دی جائے، اگر وہ نہیں آمادہ ہوتیں تو ان کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کیا جائے۔ طویل المیعاد راستہ یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کا تعین کر کے، ان کے پرچار کے لئے، منبر و محراب، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اور کتابوں، انٹرنیٹ کا باقاعدہ استعمال کیا جائے۔ ان تنظیموں کے منبر و محراب، ایف ایم ریڈیو، اخبارات رسائل اور کتابچوں سے پیش کردہ نظریات کا جواب دیا جائے۔ آنے والی نسلوں کو اس ذہنی، نفسیاتی اور مذہبی تضاد سے بچایا جائے۔ اس ساری کارروائی میں منتخب ارکان کے ساتھ ساتھ، علمائے کرام، دانشوروں، پروفیسرز، تاجروں، صنعت کاروں، بیوروکریٹس، جاگیرداروں، قبائلی معتبرین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ قبائلی اور مقامی روایات کا بھی احترام کیا جا سکے۔ انٹیلی جنس اور پولیس کی تربیت کے لئے امریکہ جو امداد دے رہا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کو قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، میاں محمد نواز شریف، سب سے مشاورت کرنی چاہئے۔ اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف سے بھی طویل بات چیت ہو تو یقیناً پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ وہ 2001ء سے دہشت گردی کے مسئلے سے عملاً نمٹتے آ رہے ہیں۔ ان کا تجربہ بھی ہے، مشاہدہ بھی۔ ہر مسلک کے علماء سے، سابق جنرلوں سے بھی ملاقات ہونی چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس کا صحیح استعمال ہو، پولیس اگر بنیادی طور پر قانون کے نفاذ میں کامیاب رہتی ہے تو معاشرے میں اتنی بے چینی پیدا نہیں ہو سکتی کہ فوج بلانی پڑے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی مملکت کی اس مجموعی پالیسی کے مطابق اپنے فرائض انجام دینے ہوں گے۔ اس یک رخی اور یکجہتی سے ہی ملک کو داخلی سلامتی کے اس سنگین بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کیا سارے کالم نگار سارے علماء محبِ وطن اور اسلام کے پابند ہیں، کیا یہ کرائے پر کام کرنے والے نہیں، کیا ہمارے پاس دماغ نہیں کہ ہم ان لوگوں کی باتوں پر چلیں؟
 

خرم

محفلین
دماغ کو ہی تو افیون دی جاتی ہے۔ اس قوم کے اوپر چند ہزار لوگ مسلط ہونا چاہتے ہیں دہشت گردی و قتل و غارت کے ذریعے اور اس قوم کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اب تو سوچ آتی ہے کہ خون کی گرمی کا حل اسی میں ڈھونڈا جائے کہ قبائلی عصبیت کے نام پر ہم بھی ایک تنظیم بنالیں اور پھر جو پاکستان پر قبضہ کرلے۔ ویسے بھی اگر پاکستان پر ظالمان کا قبضہ ہونا ہے تو ہم راجپوتوں کا حق زیادہ ہے اس زمین پر۔ اگر اس سرزمین پر جاہلیت کے رواج کی ہی حکومت رہنی ہے تو پھر ہم کیوں‌پابند رہیں کسی قاعدے قانون کے؟ ظالمان کے کسی حامی کو اختلاف ہے میری اس دلیل سے تو قلم و ۔۔۔۔۔ دونوں تیار ہیں جسے بھی آزمانا چاہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ہمین ڈحونڈنا چاہئیے کہ کون ہمارے دماغوں تک افیون پہنچانے کا کام کر رہا ہے، اور پھر اسکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئیے۔
 

خاور بلال

محفلین
افیون ہوتی ہی ایسی چیز ہے کہ آدمی کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیتی ہے اور وہ اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اب خود ہی دیکھیے کہ جب سے ہماری قوم نے "سب سے پہلے پاکستان" کی افیون چاٹی ہے انہیں نہ خدا یاد رہا اور نہ انسانیت کے تقاضے۔ ہوش و حواس سے ایسے عاری ہوئے کہ اپنے ہی پیروں‌ پر کلہاڑیاں‌چلاتے رہے۔ پنجاب میں بھنگ کا استعمال بہت ہے، میں جب لاہور گیا تو ایک صاحب سے ملاقات ہوئ کہنے لگے کہ جب پہلی دفعہ بھنگ پی تو گھرجاتے ہوئے سڑک پر پڑا تھوڑا سا پانی انہیں بہت زیادہ معلوم ہوا اور ایسا لگا کہ اگر اس میں قدم رکھا تو ڈوب جائیں گے۔ پاکستان کی بھی یہی کیفیت تھی افیون کے نشے میں انہیں خود داری اور ہمت کا چھوٹا سا ٹیلہ ماؤنٹ ایورسٹ معلوم ہورہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اگر اس پر چڑھنے کی کوشش کی تو راستے میں ہی دم نکل جائے گا۔ پاکستان نے افغانستان برباد کرنے میں امریکا کو پوری مدد دی اور خود اس کی ڈکٹیشن میں آکر قبائلی علاقوں میں ہزاروں معصوموں کا خون کیا، بستیوں کی بستیاں اجاڑیں اور جب انتقام کے طور پر خود کش دھماکے ہونا شروع ہوئے تو انہیں یاد آیا کہ مسلمان تو مسلمان کا خون نہیں کرتا۔ جب یہ مسلمانوں کا خون کررہے تھے تو انہیں یہ فلسفہ یاد نہ آیا اور آج اندھا انتقام شروع ہوچکا ہے تو انہیں اپنی اوقات یاد آرہی ہے۔ لیکن اب بھی افیون کا نشہ اترا نہیں ہے جو نشے میں ڈوبے ہوئے ہیں وہ اب بھی اسی کے خواہش مند ہیں کہ آگ اور خون کا یہ سلسلہ جاری رہے ان افیونچیوں نے پاکستان کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ کل ہم نے آزمائشوں سے بچنے کے لیے گیدڑ کی سو سالہ زندگی کا انتخاب کیا تھا اور آج یہ سو سالہ زندگی بھی ہم سے روٹھ گئ اور پاکستان گملے میں لگے ہوئے ننھے پودے کی طرح کمزور محسوس ہورہا ہے۔ پہلے تو آگ صرف باہر تھی لیکن ان افیونیوں نے اندر بھی آگ لگالی۔ ہم ان افیونچیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ جاری رکھیے اپنی پالیسی، لگاتے رہیے بے ضمیری کے ٹیکے، کرتے رہیے جہاد بالشعور لیکن وہ وقت آئیگا کہ جب خدا کے ہاں حاضری ہوگی اس وقت ہم پوچھیں گے کہ طاقت کا خدا کون ہے؟
 

امکانات

محفلین
دماغ کو ہی تو افیون دی جاتی ہے۔ اس قوم کے اوپر چند ہزار لوگ مسلط ہونا چاہتے ہیں دہشت گردی و قتل و غارت کے ذریعے اور اس قوم کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اب تو سوچ آتی ہے کہ خون کی گرمی کا حل اسی میں ڈھونڈا جائے کہ قبائلی عصبیت کے نام پر ہم بھی ایک تنظیم بنالیں اور پھر جو پاکستان پر قبضہ کرلے۔ ویسے بھی اگر پاکستان پر ظالمان کا قبضہ ہونا ہے تو ہم راجپوتوں کا حق زیادہ ہے اس زمین پر۔ اگر اس سرزمین پر جاہلیت کے رواج کی ہی حکومت رہنی ہے تو پھر ہم کیوں‌پابند رہیں کسی قاعدے قانون کے؟ ظالمان کے کسی حامی کو اختلاف ہے میری اس دلیل سے تو قلم و ۔۔۔۔۔ دونوں تیار ہیں جسے بھی آزمانا چاہیں۔

خرم بھائی اگر چھوٹی تنظیمں ایک دن میں بن کر دوسرے دن پاکستان پر قابض ہوجاتیں توایسی قبضہ مافیاسیاسی جماعتوں کی کمی نہیں رہی یہ پاکستان ہے اس پر نہ کوئی سیاسی جماعت قبضہ کر سکتی ہے نہ مذھبی اگر واقعی آپ کی تنظیم کچھ کرنے جا رہی ہے آپ امریکہ میں ہیں ہماری حکومتیں امریکہ میں بنتی ہیں یہ مممکن ہے اس بار امریکہ آپ کو موقع دے دے اگر ایسا ہے تو آپ ہمیں بھی اپنی تنظیم میں شامل سمجھیں
 

امکانات

محفلین
پاکستان کی مثال ایسے سوار کی ہے جس نے اپنے پاوں دونوں کشتیوں میں ڈالے ہوئے ہیں اور اس لیے وہ پہلی کشتی کا سوار ہے نہ دوسری کشتی کا۔ اپنی مرضی کی دہشت گرد تنظیموں پر حملہ کرتا ہے مگر امریکہ کی چاہتا ہے کہ تمام ایسی دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کاروائی ہو جو پاکستان میں بیس بنا کر افغانستان جا کر حملے کر رہی ہیں۔

بہرحال ذیل کے مضمون میں تقریبا وہ تمام سوالات ہیں جو میرے ذہن میں ہیں۔ ماشاءاللہ بہت اچھے طریقے سے صورتحال کو واضح کرنے کے لیے یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

/////////////////////////////////////
امریکہ، طالبان یا کوئی تیسرا راستہ,,,,مملکت اے مملکت…محمود شام

مہوش بہت اچھا موضوع ہے اس پوسٹ پر مبارک باد دوسرا سوال (ہنستے ہوئے (کیا پاکستان کے میڈیا پر آپ کا اعتماد بحال ہوگیا ہے یا اسے وقتی حب الوطنی سمجھا جائے​
 
Top