امتحانی گریڈ زندگی میں کامیابی کا تعین نہیں کرتے

جاسم محمد

محفلین
امتحانی گریڈ زندگی میں کامیابی کا تعین نہیں کرتے
13/08/2019 عدنان خان کاکڑ

سب لوگوں کے بچوں کے بہترین گریڈ دیکھ کر میں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ فرمانبردار خان اور برخوردار خان اپنے اپنے او اور اے لیول میں غیر متوقع طور پر پاس ہو گئے ہیں اور مجھے شبہ ہے کہ ان کے کوئی گریڈ وغیرہ بھی آئے ہیں لیکن ابھی مجھے ٹھیک سے سمجھ نہیں آ پائی کہ وہ کیسے ہیں۔ لیکن اہم بات یہی پتہ چلی ہے کہ وہ دونوں پاس ہو گئے ہیں۔

نئے زمانے کے لوگوں کو پاس ہونے کی اہمیت کا علم نہیں ہے لیکن ہم محمد علی اور جیتندر کی فلمیں دیکھنے والوں کو بخوبی اس بات کا علم ہے کہ والدین کو صرف پاس ہونے کا پتہ چلنا ہی بہت ہوتا ہے، انہیں فالتو تفصیلات بتا کر کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔

ہمارے ان ہیروز نے بے پناہ جوش و جذبے سے اخبار لہراتے ہوئے ہمیشہ یہی خوشخبری سنائی ہے کہ ”ماں میں بی اے میں پاس ہو گیا ہوں“، کبھی یہ نہیں کہا کہ ”ماں میرے بی اے میں ایک اے سٹار، دو اے، تین بی اور چار ایف آئے ہیں اور میری گریڈ ایوریج سی ہے“۔ ماں بھی یہ خوش خبری سن کر سجدہ شکر بجا لاتی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو غالباً محمد علی اور جیتندر کی یہ خوش خبری سناتے ہوئے عمر ہوتی تھی جس سے فلم بین کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مبارک ساعت کوئی دس بیس برس کی پیہم کوشش کے بعد آئی ہے، اور دوسری وجہ غالباً یہ ہوتی تھی کہ اس حقیقت پسند زمانے میں پاس ہونا ہی بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔

فرمانبردار خان پڑھائی میں ہمیشہ سے بہت اچھا رہا ہے۔ اس کا حالات حاضرہ کا علم بھی اچھا ہے اور سیلف لرننگ کی صلاحیت بھی۔ جبکہ برخوردار خان ہمیشہ اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ کوئی الٹا کام مزید الٹا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ وہ رٹے لگانے سے قاصر ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ کلاس میں اس کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی کلاسوں سے ہی اس کے اساتذہ شاکی رہے ہیں کہ وہ کلاس میں بیٹھا باہر کی دنیا میں زیادہ مگن ہوتا ہے۔ لیکن اینٹری ٹیسٹ اور انٹرویوز وغیرہ میں وہ دنیا اتھل پتھل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

برخوردار خان اور فرمانبردار خان کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے میں نے زائچہ بنایا ہے اور میری یہ بھوش وانی ہے کہ فرمانبردار خان مستقبل میں ایک سینئیر تجزیہ کار بنے گا اور برخوردار خان ایک سینئیر لفنٹر۔ اور دونوں زندگی میں کامیاب رہیں گے۔

کامیاب زندگی گزارنے کے لئے گریڈز ایک خاص حد سے زیادہ اہم نہیں ہوتے۔ تعلیمی طور پر لائق بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہتے اور ایوریج یا ناکام بچے بہت آگے نکلتے بھی دیکھے جاتے ہیں۔ سکول میں آئن سٹائن اور تھامس ایڈیسن نالائق ترین مخلوق تھے۔ بل گیٹس اور سٹیو جابز نے بی اے نہیں کیا۔ اپنے ارد گرد کامیاب کاروباریوں کو دیکھیں کہ کس کی تعلیمی قابلیت کیا ہے۔ اس لئے مطمئن رہیں کہ آپ کا بچہ اگر سکول میں ناکام بھی ہوا ہے تو یا تو وہ آئن سٹائن بن جائے گا یا بل گیٹس، ورنہ آپ کے شہر کا ایک کامیاب تاجر۔

ولایت کی ایک ریسرچ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس میں ایک طویل سٹڈی کا نتیجہ بتایا گیا تھا کہ جو بچے کلاس رومز میں ٹاپ کرتے پائے جاتے ہیں، وہ زندگی میں ان بچوں سے پیچھے رہتے ہیں جو پڑھائی میں ایوریج سے ہیں لیکن سٹریٹ سمارٹ ہیں۔ یعنی جو انسانوں اور معاشرے کو زیادہ اچھے انداز میں برتنا سیکھ جاتے ہیں وہ زندگی میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں کیونکہ زندگی انسانوں کو برتنے کا نام ہے، کتابوں کو نہیں۔

اس لئے اپنے بچوں کو اس کے ایوریج یا ہلکے گریڈ دیکھ دیکھ کر بلاوجہ کی ٹینشن میں مبتلا مت کریں۔ ایوریج یا نچلے گریڈ انہیں زندگی میں ناکام نہیں کر سکتے لیکن انہیں ڈپریشن میں ڈالنا زندگی میں ان کی ناکامی کا یا خاتمے سبب بن سکتا ہے۔ اخبارات اٹھا کر دیکھیں کہ گریڈ کی ٹینشن کی وجہ سے کتنے بچے خودکشی کرنے لگے ہیں۔

اس وقت برخوردار خان کے کئی دوست گھروں سے غائب ہیں اور رات سے پہلے گھر واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ اپنے والدین کے ردعمل سے خوفزدہ ہیں۔ ان سے زیادہ ان کے والدین کی غلطی ہے جو نہ تو خود اپنے بچوں کی اس تعلیمی کمزوری کا سامنا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اس کے لئے تیار کر پائے ہیں کہ زندگی میں کسی ایک ناکامی سے دلبرداشتہ نہیں ہوتے، بلکہ حوصلے سے اس کا سامنا کرتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔
 
Top