امامیات (کالم 3)

آپ کی پروفائل پکچر سے جو شاید کسی پشاور سے منسلک علاقے کی محسوس ہوئی ۔میں نے دانستہ اس بارے میں لکھا کیونکہ پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں پر اس سیکٹر میں خواتین و حضرات دونوں کو یکساں مواقع ملتے ہیں جبکہ 90 فیصد خواتین ٹیچر ہیں ۔



شکریہ وضاحت کے لیے مگر چونکہ امامیات کے نام سے لڑی ہے اسوجہ سے پوچھ ڈالا تھا ۔



کبھی کبھی چوہدری صاحب رج کے بونگیاں مارتے ہیں ،اور نہ ماریں تو چوہدری صاحب کیسے ہوں گے :p:ROFLMAO::LOL: لو دسو :D;)



آپ آج کل بڑے اندایخ ، ساقی ایسی الہامی مخلوقات ہیں جن کا جود ہی نہیں ،مشاہداتی علم کو ایسے ویسے جوڑا جائے تو بونگی
بس اب کیا بتاؤں. ۔۔
قسمے سب کچھ پہلے چنگا بهلا اور گزارے لائق ہو رہا ہوتا ہے۔ بس جیسے ہی آپ دکھ جاتی ہیں بونگیاں خودکارنظام کے تحت 'وجنا' شروع ہو جاتی ہیں۔ شاید اسے صحبت کا اثر ہونا کہتے ہیں۔:heehee:
:p
تے هن بلاگنگ نا شروع کر دیو:battingeyelashes:
 

با ادب

محفلین
تلخ حقائق کی عکاسی کرتی ہوئی ایک دکھی تحریر!! ایک اچھے موضوع کو زیرِ بحث لائے ہیں آپ۔ آج کل کا انسان تو معاشی بحران میں ہی اتنا پھنس کے رہ گیا ہے کہ باقی پڑھے ہوئے تمام درس ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔
دوسرا اہم نکتہ جس کی طرف آپ نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ ہماری قوم کا المیہ بن کے رہ گیا ہے۔ جو لوگ اپنا " چولہا جلانے" کی خاطر ہر دوسری گلی میں پرائیویٹ سکولز کے نام پر دو کمروں کی عمارت میں سکول کھول کر کاروبار شروع کرلیتے ہیں، وہ اساتذہ کو کیا ماحول فراہم کر سکتے ہیں؟؟ یا ان کے کیے گئے کام کے مدنظر ان کو کتنا پے کر سکتے ہیں؟؟ اس طرح کے ماحول میں اساتذہ کی ذہنی حالت بالکل ویسی ہی ہونی چاہیے جیسا کہ آپ نے اپنی تحریر میں بیان کی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں اچھے سسٹمز کے تحت کام کر رہے سکولز میں ایسی صورت حال دیکھنے کو نہیں ملتی۔ تعلیمی قابلیت کے تحت اساتذہ کو ایک جتنا ہی پے کیا جاتا ہے۔ البتہ اساتذہ کی قابلیت اور محنت کے باعث انکریمنٹ مختلف ہو سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ :)
ویسے تحریر سے معلوم ہو رہا ہے کہ صاحبِ تحریر کا کن سکولز سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔ :) :)
بہت شکریہ اصل مدعے کو سمجھنے کا ۔ یہ واسطہ تعلیمی دور کے زمانے میں اس وقت پڑا تھا جب ہم خود بھی بہت سی حقیقتوں سے نا واقف تھے ۔ دراصل یہ بات اسی وضاحت کے لئے لکھی گئی کہ ہر گلی میں پرائیویٹ سکول کھولنے والوں کے حالات کیا ہیں
اورجن اچھے سکولوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے انشاء اللہ ان پہ لکھنے کا بھی ارادہ ہے ۔ دیکیھں کب فرصت ملے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بس اب کیا بتاؤں. ۔۔
قسمے سب کچھ پہلے چنگا بهلا اور گزارے لائق ہو رہا ہوتا ہے۔ بس جیسے ہی آپ دکھ جاتی ہیں بونگیاں خودکارنظام کے تحت 'وجنا' شروع ہو جاتی ہیں۔ شاید اسے صحبت کا اثر ہونا کہتے ہیں۔:heehee:
:p
تے هن بلاگنگ نا شروع کر دیو:battingeyelashes:

محفل کے عظیم بونگے کا لقب آج سے آپ کا ہوا:lol::applause: مبارک باد قبول کریں چوہدری صاحب :rollingonthefloor: آج سے آپ کی شہرت میں اضافہ ہوا:applause::laughing: ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے کہاں دیکھا؟ آپ کافی کمزور طبع واقع ہوئے ہیں :eek:

ہمارے پاکستان میں خاص کر ان پڑھے حضرات میں ایک خبط ہے توہمات کا ، جس میں پڑھے لکھوں نے بھی سر ڈبویا ہوا ، بجلی گرگئی اب کوئی آفت آنی ہے:bee::atwitsend: ، کوا بولا ----کوئی مہمان آئے گا :dancing: --- ڈیش ڈیش ڈیش ۔۔۔:):chatterbox: ہماری قوم ڈوب ہی اس لیے گئی ہے اگر خود میں جھانک لے تو کبھی کسی کو الزام نہ دے:D:donttellanyone::drooling:

بلاگنگ کا کیا کریں ، بونگیوں میں دم لائیں ، حقیقت لگے ، پھر سوچیں گے ، بونگی چول نہ لگے نا:laughing::laughing::rollingonthefloor:


:)
 
محفل کے عظیم بونگے کا لقب آج سے آپ کا ہوا:lol::applause: مبارک باد قبول کریں چوہدری صاحب :rollingonthefloor: آج سے آپ کی شہرت میں اضافہ ہوا:applause::laughing: ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے مجھے کہاں دیکھا؟ آپ کافی کمزور طبع واقع ہوئے ہیں :eek:

ہمارے پاکستان میں خاص کر ان پڑھے حضرات میں ایک خبط ہے توہمات کا ، جس میں پڑھے لکھوں نے بھی سر ڈبویا ہوا ، بجلی گرگئی اب کوئی آفت آنی ہے:bee::atwitsend: ، کوا بولا ----کوئی مہمان آئے گا :dancing: --- ڈیش ڈیش ڈیش ۔۔۔:):chatterbox: ہماری قوم ڈوب ہی اس لیے گئی ہے اگر خود میں جھانک لے تو کبھی کسی کو الزام نہ دے:D:donttellanyone::drooling:

بلاگنگ کا کیا کریں ، بونگیوں میں دم لائیں ، حقیقت لگے ، پھر سوچیں گے ، بونگی چول نہ لگے نا:laughing::laughing::rollingonthefloor:


:)

دیکهیں ۔۔۔ مس ورلڈ کے مقابلے ہوتے ہیں مسٹر ورلڈ کے کبهی سنے بهی نہیں۔:cool2:

خیر اس عظیم لقب کو قبول کرتے ہوئے آپ کو بونگا کالج آف اردو محفل کی پہلی باضابطہ پرنسپل کی پوسٹ مبارک ہو۔ :p
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت شکریہ اصل مدعے کو سمجھنے کا ۔ یہ واسطہ تعلیمی دور کے زمانے میں اس وقت پڑا تھا جب ہم خود بھی بہت سی حقیقتوں سے نا واقف تھے ۔ دراصل یہ بات اسی وضاحت کے لئے لکھی گئی کہ ہر گلی میں پرائیویٹ سکول کھولنے والوں کے حالات کیا ہیں
اورجن اچھے سکولوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے انشاء اللہ ان پہ لکھنے کا بھی ارادہ ہے ۔ دیکیھں کب فرصت ملے ۔
تو گویا آپ اس شعبے میں ہمہ جہت تجربہ رکھے ہوئے ہیں۔ بہت خوب!! ہم آپ کے تجربات اور مشاہدات کے تحریری بیان کے منتظر رہیں گے۔ :) :)
 

با ادب

محفلین
بہن نور سعدیہ شیخ میری پروفائل پکچر پشاور کی نہیں دہلی کی ہے ۔ تو پھر میں دہلی کی ہوئی ؟
 

با ادب

محفلین
بہن نور سعدیہ شیخ میری پروفائل پکچر پشاور کی نہیں دہلی کی ہے ۔ تو پھر میں دہلی کی ہوئی ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
دیکهیں ۔۔۔ مس ورلڈ کے مقابلے ہوتے ہیں مسٹر ورلڈ کے کبهی سنے بهی نہیں۔:cool2:

خیر اس عظیم لقب کو قبول کرتے ہوئے آپ کو بونگا کالج آف اردو محفل کی پہلی باضابطہ پرنسپل کی پوسٹ مبارک ہو۔ :p

ہمیں مس ورلڈ والی توجیح سمجھ نہیں آئی ---خیر جانے دیں ، بونگی کی عادت سے واقف ہوں میں:laughing::laughing::laughing:
یہاں پر امامیات کی لڑی میں باقاعدہ کالج کا آغاز کرتے ہوئے آپ نے خود کو اس لڑی کا پیش امام منوا لیا ۔۔۔۔۔مبارکاں:laughing::dancing::dancing::dancing: ہم نے سیٹ قبول نہیں کی یہ تو ان کو ملے جنہوں نے آپ کا یہ حال کیا ہے:laughing::laughing::laughing:
 

نور وجدان

لائبریرین
بہن نور سعدیہ شیخ میری پروفائل پکچر پشاور کی نہیں دہلی کی ہے ۔ تو پھر میں دہلی کی ہوئی ؟
ہمیں علم نہیں تھا ، یہ تصویر کہاں کی ہے شکریہ علم دینے کا۔ یہ بھی بتادیں کہ دہلی کی کونسی جگہ ہے ۔۔۔ آپ دہلی سے ہوں یا پشاور سے کیا فرق پڑتا ہے
 

با ادب

محفلین
اور جہاں تک آپ بات کر رہی ہیں پنجاب کے ایسا صوبہ ہو نے کی تو پیاری بہن یہ کہانی پنجاب کے پیارے شہر راولپنڈی ہی کی ہے ۔ اور کوئی کہانی نہیں ویسے آپ بیتی ہے اور جس سکول کی بابت لکھا گیا ہے کوئی ایویں شیویں سکول نہیں بلکہ خا صا نامور اور چوٹی کے اداروں میں سے ایک ہے ۔
دراصل سسٹم سکولز مین ایک مسئلہ ضرور ہے کہ ہر سسٹم سکول دوسرے سے مختلف خیالات و نظریات کا حامل ہوتا ہے ۔ اور الگ قسم کے رولز ریگولیشنز کا بھی ۔ ان کا بنیادی مقصد پیسے کمانا اور والدین کو راضی رکھنا ہو تا ہے ۔ انھیں اپنا معیار مینٹین رکھنے کے لئیے انتھک محنت کرنی پڑتی ہے اور اس چکر میں اساتذہ کا حال برا کرتے ہیں ۔ ان سکولز مین سب سے زیادہ عزت کے مستحق طلبہ یا ان کے والدین ہوتے ہیں ۔ مین نہیں کہتی کہ انھہیں عزت نہ دیں لیکن استاد کی عزت اور مقام کا بھی خیال رکھا جانا چاہیئے ۔ باقی کی تفصیلات کسی اور کالم میں سمجھ جائیں گی ۔ شکریہ
 

با ادب

محفلین
ہمیں علم نہیں تھا ، یہ تصویر کہاں کی ہے شکریہ علم دینے کا۔ یہ بھی بتادیں کہ دہلی کی کونسی جگہ ہے ۔۔۔ آپ دہلی سے ہوں یا پشاور سے کیا فرق پڑتا ہے
فرق تو کوئی خاص نہیں پڑتا ۔ لیکن آپ نے جس وثوق سے کے پی کے سے میرا تعلق ظاہر کیا تھا تو میں اچنبھے مین پڑ گئی تھی ۔ کیا پتہ کل کلاں آپ میرا ایڈریس ہی چھپوا دیتیں اور نیچے اشتہار ہوتا تمام نفسیاتی و روحانی مسائل کے لئیے امام صاحب کے پاس تشریف لے جائیں ۔ امام صاحب کا پتہ ان خاتون سے لیجییے اگر نہ دیں تو ان ہی کی جان کا نذرانہ دے ڈالئیے گا ۔ مرادیں بر آئیں گی :LOL::LOL::LOL:
 
ہمیں مس ورلڈ والی توجیح سمجھ نہیں آئی ---خیر جانے دیں ، بونگی کی عادت سے واقف ہوں میں:laughing::laughing::laughing:
یہاں پر امامیات کی لڑی میں باقاعدہ کالج کا آغاز کرتے ہوئے آپ نے خود کو اس لڑی کا پیش امام منوا لیا ۔۔۔۔۔مبارکاں:laughing::dancing::dancing::dancing: ہم نے سیٹ قبول نہیں کی یہ تو ان کو ملے جنہوں نے آپ کا یہ حال کیا ہے:laughing::laughing::laughing:
چلیں اب لڑی تیسرے صفحے میں سفر جاری کر چکی ہے ہے تو بس کرتے ہیں۔ ورنہ امام صاحب دا کوئی پتا نہیں کس ویلے کجه کہہ دین۔ رب راکها
 

با ادب

محفلین
میں = امام صاحب دنیا کا چلن بدل گیا ہے ۔
امام صاحب = ( خاموشی )
میں =چلن کی ہی کیا بات کرتے ہیں ، اقدار بھی بدل گئی ہیں ۔
امام صاحب = ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں =غلامی کا دور دورہ ہے امام صاحب ؛ دنیا کے بازار میں پھر سے انسانوں کی بولی لگنے لگی ہے ۔
امام صاحب = ( سوالیہ نگاہوں سے تکتے ہیں )
میں =اب دیکھیئے نا امام صاحب پیسہ بادشاہ ہو گیا ہے انسان غلام بن گیا ہے ۔ جس کے ھاتھ پیسہ لگ گیا جس کی چاہے بولی لگا ئے اور جتنی چاہے بولی لگائے ۔ خیالات خرید ے ، زبان خریدے ، ذہن خریدے اور تو اور دل خرید لے ۔ ۔ دل پہ ہی کیا موقوف امام صاحب پورے کا پورا بندہ بک جاتا ہے ۔
امام صاحب = ( خاموشی ہنوز برقرار ، انداز تمھیں کیا والا )
میں =اب کیا کروں امام صاحب تکلیف تو ہوتی ہے نا ۔ حساس انسان کا دنیا کے بازار میں گزارا نا ممکن ، خام مال جیسا ہے " کوئی خریدنے کو تیار نہیں ۔ بکنا چاہے بھی تب بھی خریدار کو اس سے کیا سروکار ۔ خریدار کی دلچسپی کا با عث تو بے زبان ، بے عقل اور بے ضمیر ہے ۔
امام صاحب = ( بولے اب بھی نہیں پر مجھے لگا کہتے ہوں عورت ذات اور یہ زبان )
میں = ارے ارے گھبرائیے مت ، آپ کی تربیت میں کمی نہیں آئی بس میری غور و فکر میں زیادتی آگئی ہے ۔ آپ ہی تو فرماتے ہیں ظاھر کو مت پڑھو بین السطور دیکھو ۔ پہلے تو بین السطور دیکھنا ہی نہ آیا اور جب سمجھ آہی گئی تو " فکر " کرنے والا ذہن " فکر" ہی میں مبتلا ہو گیا ۔
کیسی پیاری دنیا تھی ( ظاہر کی آنکھ سے ) ۔ فکر کر کے دیکھا تو سب بکاوء مال تھا ۔
تھوڑی بہت دولت تو ہم نے بھی سینت سینت کے رکھی تھی ۔ سوچتے ہیں دنیا کے بازار سے کچھ خرید لیں ۔
بہت گھومے امام صاحب ۔ لمبی لسٹ ھاتھ میں پکڑے گھومتے رہے ۔
دیدہء بینا خریدنا چاہا ، عنقا ہوگیا تھا ۔
دکاندار کہتے شارٹ لسٹ ہے ۔
کہا اہل علم دے دو ، کہنے لگے نیا سٹاک نہیں آیا ۔
با ضمیروں کا کیا ریٹ ہے ؟
باجی ان کی قیمت ادا کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ۔
ارے کچھ تو ہو گا جو ہم خرید لیں ۔
جی جی باجی کیوں نہیں بے ضمیر خرید لیں ۔ الف اور ے کا ہی فرق ہے ضمیر تو دونوں کے ساتھ ہے ۔
پر اسکا ہم کریں گے کیا ؟
کچھ نہ بنا تو آگے فروخت کر دیجیئے گا ۔ اچھے دام مل جائیں گے ۔
پر بھائی مجھ سے خریدے گا کون ؟
کیا بات کرتی ہیں باجی انکی بڑی ڈیماند ہے منہ مانگے داموں بکتے ہیں ۔
نہیں بھائی رہنے دو دکانداری ہمارے بس کا روگ نہیں ۔ ایسا کرو کوئی با وفا یا مخلص پڑا ہے تو وہ دے دو ۔ اب میں اتنی بھی غریب نہیں ۔
ارے باجی غریب ہوں نہ ہوں سادھی ضرور ہیں ۔ کال پڑا ہے کال ، کس زمانے کی ہیں ؟ یہ سب آوءٹ ڈیٹڈ چیزیں ہیں ۔ نیا دور ، نیا چلن
چھوڑو بھیا تمھاری دکان ہی ٹھیک نہیں اتنی بڑی منڈی کہیں تو دستیاب ہوں گی یہ چیزین بھی ، کسی اور دکان کا پتہ بتا دو
امام صاحب شام ہوگئی پھرتے پھراتے پر بے سود کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ لوٹ کے بدھو گھر کو ائے
بھلا اب یہ بھی کوئی بات ہے جب کمارے پاس نوٹ نہیں تھے تو انتظار رہتا ایک دن دولت آئے گی ہم بھی من مرضی کی چیزوں سے گھر بھر لیں گے
دولت آگئی چیزیں نہ آئیں ۔
امام صاحب = آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہے اور بے داغ دامن کو داغدار کر جاتا ہے ، لب سئیے بیٹھے ہیں

امامیات از سمیرا امام
 

با ادب

محفلین
میرا شمار ان بچوں میں ہوتا تھا جو پیدائیشی اور فطری طور پہ ڈرے سہمے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ذرا سی گھوری سے دب جاتے ہیں ۔ ایسی فطرت پہ قائم بچے بالعموم اور بالخصوص مستقیمی قسم کے بچے ہوتے ہیں ۔ میرا شمار بھی ان ہی مستقیمی بچوں میں ہوتا تھا ۔ ( یہ میری اپنی رائے ہے ) ۔ ہماری والدہ محترمہ اور دادی جان کا ہم سب بچوں کی زندگی پہ بڑا گہرا اثر رہا ہے ۔دونوں ہی بے تحاشا قسم کی نیک اور دین سے محبت کرنے والی خواتین تھیں ۔جہاں سے دین کی کوئی بات پتہ چلی سمعنا و اطعنا کی مثال بن جاتیں ۔ جان لینے کی دیر ہوتی بلا تاخیر عمل کر ڈالتی تھیں ۔ جو جو نیکی کی باتیں انھوں نے سیکھیں مرتے دم تک ان پر عمل پیرا رہیں ۔ ۔نماز پنجگانہ سے لے کے تہجد ، چاشت ، اشراق ، اوابین نوافل میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر ان کر مرتے دم تک انکا معمول رہے ۔
یہ راز مجھے آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ ان کو اتنا وقت کیسے مل جایا کرتا تھا ۔ اپنا حال تو یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں فجر پڑھ کر جب کام شروع کیئے تو ظہر کا وقت بھی مشکل سے ملتا ۔ ابھی ظہر پڑھ کر ٹلے نہیں کہ عصر ہو گئی ۔ مارے باندھے کھینچا تانی میں اٹھے جھکے سلام پھیرا ابھی دعا سے بھی فارغ نہ ہوئے تھے کہ مولوی صاحب نے پھر سے اذان دے ڈالی ۔ لیجییے جناب ! شام ہوگئی ۔ صبح کے شروع کئیے گئے کام شیطان کی آنت کی طرح لمبے ہوئے چلے جاتے ہیں ۔ نہ کام ختم ہونے میں آتے ہیں نہ نمازیں خشوع و خضوع سے انجام دینا ممکن ۔ روز ارادہ ہوتا ہے کہ آج مغرب پڑھ کر شام کی دعائیں ہی تسلی سے پڑھ ڈالوں گی ۔ پر ارادہ ارادہ ہی رہا ۔ روز سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ ہماری "قوم" میں کھانے پینے کا جھمیلہ بڑھ گیا ہے یا موجودہ "نسل" کا یہ عالم ہے ۔ ایسی کھاوء کہ سب ہڑپ کر جائے پھر بھی بھوک ہے کہ مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔
صبح سے رات ہو گئی خاتون خانہ کی زندگی کھانے پینے میں الجھی ہے اور ایسی الجھی ہے کہ کیا کسی بالم کی لٹ الجھی ہوگی ۔
کھاتے پکاتے کھلاتے پلاتے زندگی تمام ہو گئی ۔
مارے باندھے عشاء پڑھی جاتی ہے ۔ پھر بستر سنبھالنے پر اگلے دن کی خبر لاتے ہیں ۔ کیسا تہجد ، کون سی چاشت ، کیسی اشراق اور کہاں کے اوابین ۔
زندگی یوں ہی بیت جاتی اور کسی دن سرھانھ عزرائیل عہ کھڑے ساتھ چلنے کا تقاضا کرتے ۔ لیکن کہانی میں ٹوئسٹ اور زندگی میں یوٹرن ( اسے عمران خان والا یو ٹرن ہر گز نہ سمخھا جائے ۔ ) آگیا ۔ ایمان کی تقویت کے لئیے امام صاحب آموجود ہوئے ۔
کسی دن بر سبیل تذکرہ دنیا کے جھمیلوں کی داستان انھیں جا سنائی ۔ مصائب زندگی اور مشکلات زمانہ کا فطرت زنانہ کے باعث وہ رونا رویا وہ رونا رویا ، عین ممکن تھا ملک میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہو جاتا ۔ پر امام صاحب زمانہ شناس و حالات آشنا تھے سیلاب کا سد باب کرنے کی خاطر فورا بند باندھ ڈالا کہ اگر حالات ھنگامی ہوگئے تو زیادہ نقصان کا خطرہ ٹل جائے ( امام صاحب تھے ہمارے پیارے ملک کے وزیر اعظم تو نہیں کہ بند باندھنے کا خیال سیلاب کے بعد آئے اور وہ بھی صرف خیال کی حد تک )
پوچھنے لگے بی بی زندگی سے اتنی اکتائی کیوں رہتی ہو ؟
عرض کیا امام صاحب وقت میں برکت ہی نہ رہی اور وقت ہی کا کیا پوچھتے ہیں صحت میں ، روزی میں کسی چہز میں برکت نہ رہی ۔ "برکت" روٹھ گئی ہے امام صاحب ۔
بی بی مشکل کیا ہے روٹھ گئی ہے تو منا ڈالو ۔
(ایسا جی برا ہوا کہ پوچھییے مت ۔ بھلا امام اور مخول کا کوئی جوڑ بھی تو ہو )
بزرگو ! آپ ہی منانے کا کوئی نسخہ ارشاد فرما دیں( ہمیں تو فی زمانہ منانے کا ایک ہی ٹوٹکہ آتا تھا ۔گانا گا کر منانا ۔ اور بے سرے ایسے کہ اس ٹوٹکے سے تو آج تک روٹھے سیاں نہ منے برکت کیسے اور کیونکر ماننے لگی ۔ طرہ یہ کہ برکت ہے بھی مونث ٹیڑھی پسلی ۔ ۔ ۔ )
کہا دیکھو بی بی یہ تو نہایت آسان بات ہے برکت کو جو جس چیزیں نا پسند ہیں انھیں گھر سے باہر پھینک آوء ۔ ماحول سازگار ہوگا تو خود ہی گھر کی راہ لے گی
اے لو جی ! (بڑاہی آسان حل ہے )
اور برکت کو کیا نہین پسند امام صاحب ؟ ( چاہے امام صاحب خبطی سمجھیں پر اب حل دے ہی رہے ہیں تو سیاق و سباق سے بھی آگاہ کر دیں )
فرماتے ہین گھر میں ٹی وی ہے ؟
امام صاحب کوئی پوچھنے والی بات پوچھیں ۔ ٹی وی کے بغیر کوئی گھر دیکھا ہے آج کے زمانے میں ؟
موسیقی سے لگاوء ہے کیا ۔ سنتی ہو ؟
امام صاحب موسیقی تو روح کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (باقی بات امام صاحب کی گھوری سے دب گئی )
گھر کا کام کیا خود کرتی ہو ؟
نہین جی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( اب میں کیا ماسی ہوں ؟ )
پڑھی لکھی ہو ؟
ارے واہ ۔ ۔ پوری سولہ جماعتیں پڑھ رکھی ہیں یہ ڈھیرون ڈگریاں بھی ہیں جی ۔
بچوں کو تو خود پڑھاتی ہوگی بی بی ؟
) ہائیں ۔ یعنی اب میں یہ کرنے کو رہ گئی کیا ۔ ٹیوشن والے مر گئے کیا )
نہیں جی وہ آج کل کے بچے گھر مین کہان پڑھتے ہیں
تو بی بی پھر سارا دن کرتی کیا ہو ؟
(ارے ) امام صاحب اتنے
 
Top